الله پاک نے اپنی کتاب میں کیء اقوام کے قصے بیان فرماےء
هیں جن کا مقصد انسان کو تذکیر و نصیحت بھی هے اور آنے والے حالات کی
پیشگویء بھی۔ ان میں هر طرح کے کردار کو آیینه بنا کے سامنے رکھ دیاگیا هے
تاکه هر انسان خود فیصله کر لے که وه کس طرح کے کردار جیسا هے یا پھر ایمان
والوں کے عمل اور غفلت کے ماروں کے عمل کتنے مختلف هوتے هیں اور اسی طرح ان
کا انجام بھی ۔حضرت نوح علیه السلام , الله سبحانه وتعالی ' کے ایک برگزیده
پیغمبر تھے ۔روایات کے مطابق ان کو چالیس سال کی عمر میں پیغمبری سے نوازا
گیا اور انھوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نوسو سال تک تبلیغ کی-حضرت نوح علیه
السلام جب اپنی قوم کو سمجھاتے تو وه لوگ ان کی بات کو اهمیت هی نه دیتے
بلکه ان کو اپنے گناهوں کی ایسی لت پڑ گیء تھی که سمجھانے والے کو زدو کوب
کرتے۔بعض روایات کے مطابق انھوں نے اپنے پیغمبر کو اتنا مارا پیٹا تھا که
هر بار حضرت نوح کو مرده سمجھ کر ویرانے میں چھوڑ آتے ۔جب حضرت نوح علیه
السلام کو هوش آتی تو وه واپس آجاتے ۔اس قوم کا سب سے بڑا گناه " شرک " تھا
۔اور اس گناه کی معافی نھیں هے ۔اس لیےء یه جرم ان پر الله کی ناراضگی کا
سبب بنا اور کیء سو سال کی مھلت دینے کے بعد الله تعالی ' نے ان کو تباه
کرنے کا فیصله کیا۔قرآن کریم میں ارشاد الھی هے :
"اور هم نے نوح کی طرف وحی کی که تمھاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے هیں
ان کے علاوه اب اور کویء ایمان نھیں لاےء گا تو جو (برے)کام یه کر رهے هیں
ان کی وجه سے غم نه کھاٶ اور ایک کشتی همارے حکم سے همارے روبرو بناٶ اور
ان کافروں سے متعلق اب کویء گفتگو هم سے نه کرنا کیونکه یه سب لازمی طور پر
غرق کر دییے جاییں گے "(سوره ھود 36-37)
ابن کثیر کی روایت میں هے که حضرت نوح علیه السلام کو ایک خاص قسم کا درخت
اگانے کا حکم بھی دیا گیا تھا جو ایک سو برس کی مدت میں اتنا بڑا هوا که
حضرت نوح علیه السلام اس سے اتنا بڑا بحری جھاز تیار کر سکے۔ جب آپ لکڑیاں
کاٹ رهے تھے تو آپ کی قوم کے امراء اور سرداروں کا حال یه تھا که وه آپ کے
پاس سے گزرتے تو آپ کا مذاق اڑاتے , پھبتیاں کستے اور طنز کرتے ۔۔لیکن حضرت
نوح علیه السلام دن رات اپنی کانٹ چھانٹ میں لگے رهے اور ایمان والوں کو
بچانے والی کشتی تیار کرنے میں لگے رھے ۔هم ان کی خیر خواهی اور دردمندی کا
اندازه لگا سکتے هیں که وه سوچتے هوں گے که عذاب آنے سے قبل جلدی جلدی یه
کام مکمل کرلیں ، وه سوچتے هوں گے که زیاده سے زیاده جانیں بچانے کے لیےء
زیاده بڑی کشتی بناٶں ۔۔۔فلاں فلاں کو بھی سوار کر لوں ، کویء ره نه جاےء ،
کویء بچھڑ نه جاےء ۔۔۔حتی ' که عذاب ٹوٹنے کا وقت آن پهنچا ۔۔۔۔اور انھوں
نے اپنے بیٹے کنعان کو دیکھا ( جو برے دوستوں کی صحبت میں رهنے کی وجه سے
ایمان والوں میں شامل نه هوا تھا ۔هاےء کیسی درد کی لهر اٹھی هوگی باپ کے
دل میں ! ) انھوں نے فرمایا :"اے میرے بیٹے ! همارے ساتھ کشتی میں سوار
هوجا اور کا فروں کے ساتھ نه ره ۔اس نے کھا :ابا ! میری فکر نه کرو ۔میں
ابھی اس سب سے اونچے پھاڑ پر چڑھ جاٶں گا اور پانی سے بچ جاٶں گا "- نوح
علیه السلام نے فرمایا :"آج کویء عذاب سے نھیں بچ سکتا ! اسی اثنا میں پانی
کی ایک بڑی موج آکے ان دونوں کے درمیان حایل هوگیء اور وه اس میں غرق هوگیا
"(سورهء ھود )
اف۔۔۔کتنا تکلیف ده هے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی اولاد کو ڈوبتے دیکھنا !
الله کسی کو یه دکھ نه دکھاےء ۔
موجوده دور میں جو فتنوں اور آزمایشوں کا دور هے , انسانوں کے گناھوں کی
وجه سے سیلاب کی مانند عذاب ٹوٹ رهے هیں ۔سکون کھو گیا هے ۔ایسے میں مبارک
هیں وه لوگ جو انسانوں کو عذاب سے بچانا چاهتے هیں , جو ان کو برایء سے
روکتے هیں اور دین کو اپنانے کی دعوت دیتے هیں ۔هماری قوم نے صرف چند
ستونوں کو هی دین سمجھ لیا هے ۔کیا چند ستونوں کو هم گھر که سکتے هیں ؟
نهیں ۔بلکه ایک عمارت مکمل هونے کے بعد هی گھر کی صورت اختیار کرتی هے۔وه
لوگ جو قرآن و سنت کی تعلیم کو پھیلا رهے هیں وه دراصل انسانیت کو بچانے
والی کشتی تیار کر رهے هیں جس پر سوار هونے میں هی انسانیت کی بقا اور
سلامتی کا دارومدار هے۔
الله رب العالمین کا ارشاد هے : اور اس (قرآن ) کے سوا تم کهیں کویء پناه
گاه نه پاٶ گے !"(سوره کهف آیت 27)
الله هم سب کو اپنی پناه میں چھپا لینا ۔آمین ۔
تحریر : عصمت اسامه۔
#فکرونظر
#پناه_قرآن_ھے
|