دنیاوی علوم تقریباشہرت و معیشت سے جڑے ہوئے ہیں اس وجہ
سے جو آدمی جس قدر بڑے علوم سے جڑا ہوا ہوگا اور جتنی بڑی ڈگری ہولڈر ہوگا
اتنا ہی وہ مشہور ہوگا، اس کی شہرت ہوگی اور اس کا عوام سے اسی قدر فاصلہ
ہوگابلکہ یہ کہہ لیں اس کی زندگی میں اسی قدر پرتکلف رکھ رکھاؤ ہوگا۔ اس کو
مثال سے یوں سمجھیں کہ مثلا طب کا پیشہ ہے اور ایک نرس یا کمپاؤڈر ہے اس کی
سماج میں اسی کے بقدر وقعت ہوگی ، کوئی ڈاکٹر ہوگا تو ظاہر سی بات ہے کہ اس
کی سماجی قدر کمپاؤنڈر سے زیادہ ہوگی، ڈاکٹروں میں کوئی اسپیشلسٹ ہو مثلا
سرجن تو وہ عام ڈاکٹروں پر بھاری ہوگا ، پھر ان میں ڈگری کے حساب سے بھی
قدرومنزلت ہوتی ہے ، ایم بی بی ایس کی الگ پہچان اور ایم ڈی کی الگ حیثیت
ہوتی ہے۔ یہ باتیں تواضع کے پس منظر میں کہی جارہی ہیں کہ دنیاوی علوم کے
ماہرین میں جس قدر بڑی ڈگری یا بڑا پیشہ ومنصب ہوگا اسی قدر تواضع سے بعید
کبرونخوت کا پیکر ہوگا الا من رحم ربی۔جب عصری علوم کا یہ حال ہے تو مادی
قوت واسباب سے لیس دنیادار افراد میں تواضع کا ناپید ہوجانا بدیہی امر ہے۔
کوئی گاؤں کا پردھان بن جائے وہ عا م لوگوں سے ممتاز رہے گا، ضلع کا
کمشنراس سے بھی بڑا ، صوبے کا وزیر اس سے اعلی اور ملک کا حاکم سب پر فوقیت
جتلانے والا ہوگا۔ یہ لوگ اپنے اپنے اسٹیٹس کے لحاظ سے سماج میں اپنا رکھ
رکھاؤ اپناتے ہیں جہاں کبرتو جگہ جگہ ملتا ہے تواضع کا عکس وپرتو ڈھونڈنے
سے بھی نہیں ملے گا۔
اس کے بالمقابل دینی علوم شہرت وتجارت سے ہٹ کر اصلاح نفوس وقلوب ،
تعمیرانسانیت، سلامتی فردوجماعت اورفلاح و تعاون سوسائٹی پر مبنی ہیں ۔ان
تمام دینی علوم کا اصل مقصد اپنے خالق کی معرفت سے آگاہی حاصل کرنا اور اس
کے احکام کی تابعداری میں زندگی گزارنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو جس قدر دینی
علوم کا ماہر ہوگا اسی قدر رب شناس ہوگا، اسی قدر اس سے ڈرنے والا،اس کی
بندگی میں غرق رہنے والا اور تواضع وانکساری کا پیکر ہوگا۔ ایک عام معلم
ومدرس سے بڑھ کر متواضع شخصیت مفسر، محق اور محدث کی ہوگی ۔ یہ لوگ اگر
مادی اسباب سے بھی لیس ہوجائیں تو ان کا علم تواضع کی ڈگر سے ہٹنے نہیں دے
گا۔ہم سب کے عظیم رہبرورہنما حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں
تواضع کا سب سے اعلی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے ، گوکہ آپ عظیم المرتبت تھے
مگر تواضع اس قدر کہ مالدار سے مالدار اور مسکین سے مسکین بھی آپ کے قریب
ہوسکتا ، اس کو قرآن یوں بیان کیا ہے : فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللَّہِ
لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ
حَوْلِکَ(آل عمران:159)
ترجمہ: اﷲ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان
اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔
قرآن کی آیت(وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ،ترجمہ:اوربیشک تو بہت بڑے
اخلاق پر ہے) بھی اس بات کی مستحکم دلیل ہے۔ آپ کے نقش قدم پر چلنیوالے
اسلاف کرام کی سیرت میں تواضع کی بے شماراورعمدہ مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں
جو خوف طوالت سے یہاں ذکر نہیں کی جارہی ہیں۔
تواضع کہتے ہیں انکساری اور عاجزی کو جو فخروروغروراور کبرونخوت کی ضد ہے ۔
نبی ﷺ فرماتے ہیں : إن اﷲ اوحی إلی ان تواضعوا حتی لا یفخر احد علی احد ولا
یبغ احد علی احد(صحیح مسلم:2865)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے حکم کیا مجھ کو تواضع کرنے کا اس طرح کہ کوئی فخر نہ
کرے دوسرے پر نہ کوئی زیادتی کرے دوسرے پر۔
تواضع اختیار کرنے والا اعلی کردار والا اور بلند اخلاق والا ہوتاہے ، وہ
نرم خو، نرم دل اور نرم زبان والا ہوتا ہے، عبادات سے لیکر جملہ قسم کے
معاملات میں عاجری اختیار کرنے والا ہوتا ہے ، نہ کسی پر برتری جتلاتاہے
اور نہ ہی زبان وہاتھ سے کسی کو زک پہنچانے والا ہوتا ہییعنی متواضع شخص کی
زندگی حددرجہ شرافت وبزرگی سے لبزیر ہوتی ہے جیساکہ فرمان رسول ہے :
المؤمنُ غرٌّ کریمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئیمٌ(صحیح أبی داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا
ہے۔
جب اﷲ تعالی رسول سے تواضع طلب کرتا ہے اور اس کے رسول مومن کی پہچان بزرگی
وشرافت قرار دیتا ہے تو جووارثین انبیاء یعنی علماء ودعاۃ ہیں ان کے اندر
کس قدر کوٹ کوٹ تواضع بھرا ہوا ہونا چاہئے ۔وہ ہمیشہ تبلیغ رسالت کی غرض
سیعوام الناس کے درمیان ہوتے ہیں جن میں اچھے اور برے سبھی ہوتے ہیں ۔اگر
علماء بلند کردار کے مالک نہ ہوں تو اچھے لوگ تو ان سے بھاگیں گے ہی برے
لوگ بھی قریب نہیں ہوں گے ۔ آپ ﷺفرماتے ہیں :مَنْ تواضعَ ﷲِ رفَعَہُ
اﷲُ(صحیح الجامع:6162)
ترجمہ: جو اﷲ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے اﷲ اس کو بلند کرتا ہے ۔
اس حدیث کو حم السجدہ کی آیت سے جوڑ کرغورکریں تو علماء اور دعاۃ کے اندر
تواضع کی ضرورت حد درجہ محسوس ہوتی ہے۔اﷲ کا فرمان ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلا مِمَّنْ دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا
وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ (فصلت:33)
ترجمہ: اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک
کام کرے اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں ۔
حدیث میں ہے جو(من تواضع) تواضع اختیار کرے اور قرآن کی آیت میں ہے جو (من
احسن )اﷲ کی طرف بلائے گویا اﷲ کی طرف بلانے والے کا کردار متواضع ہونا
چاہئے تاکہ وہ بگڑے سے بگڑے شخص کو اپنے قریب کرسکے اور منکرات پہ تنبیہ
کرسکے ، تواضع کے بدلے اﷲ بلندی عطا کرتا ہے۔
قرآن نے علماء کو سب سے زیادہ ڈرنے والا بتلایا ہے ، فرمان الہی ہے :
إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ(فاطر:28)
ترجمہ: اﷲ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے (علماء ) ہیں۔
یہ آیت بھی تقاضہ کرتی ہے کہ علماء جس طرح اﷲ تعالی سے لوگوں میں سب سے
زیادہ ڈرنے والے ہیں اسی طرح لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع بھی ہوں ۔ تواضع
خوف الہی کا مظہر ہے ، بھلا کبر وغرور اختیار کرنے والا اور
اکڑدکھانیوالاکبھی متواضع ہوسکتا ہے ؟ تواضع تو اس میں پایا جائے گا جو
اپنے خالق(قوت والا) کو پہچانتا ہوں ، اپنی حیثیت(ضعیف) کو جانتا ہوں اور
اس سے ڈرنے والااور تقوی اختیار کرنے والاہو۔
انسان کواﷲ نے عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے ، یہی تخلیق انسانی کا مقصد
ٹھہرایا گیا اس لئے انسان اپنے خالق کی معرفت حاصل کرکے خالص اس کی بندگی
بجالائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ اﷲ نے اپنی مخلوق کو یہ تعلیم
دینے کے واسطے ہرقوم اور ہرزمانے میں انبیاء ورسول بھیجے اور آخری رسول
حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد بعثت رسول کا سلسلہ بند
ہوگیا مگر اﷲ کے مذکورہ پیغام کی ترسیل آج بھی جاری وساری ہے اور اس پیغام
رسانی کی ذمہ داری قیامت تک آنے والے علماء کرام کی ہے ۔ علماء اس بات کے
ذمہ دار ہیں کہ وہ لوگوں کواﷲ کی بندگی کی طرف بلائیں اور خود بھی اﷲ کی
بندگی میں سرشار رہیں ۔معلم جس بات کی تعلیم دے رہا ہوتا ہے اس تعلیم پر وہ
پہلے سے عمل کررہا ہوتا ہے ورنہ وہ معلم نہ ہوگا ۔اس بات کے ذکر کے بعد کہ
علماء اﷲ کی بندگی کی طرف بلاتے ہیں تو وہ بھی اﷲ کی بندگی بجالانے والے
ہوں گے ، یہاں رک کر غور کریں کہ عبادت کیا چیز ہے جو انسانوں کی تخلیق سے
جڑی ہے ، اس کی طرف سارے انبیاء نے دعوت دی اور اب علماء دے رہے ہیں ؟
عبادت سراپا تذلل وخاکساری کا نام ہے ، عبادت کی ہیئت ، اس کا طریقہ اور
ساری تعلیمات میں انکساری کی جھلک پائی جاتی ہے ۔ ایک بندہ اپنے خالق کے
سامنے بندگی کے واسطے کھڑا ہوتا ہے وہ اپنی عاجزی کا اظہار کررہاہوتا ہے ،
جب رکوع کرتا ہے تو بے بسی کا اس سے زیادہ اظہار ہوتا ہے اور سجدہ کی حالت
میں عاجزی کی انتہا ہوجاتی ہے ۔ یہی ہے عبادت ۔ اب عبادت کی اس عاجزی کو
علماء کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں کہ ان کے اندر اس خوبی کا پایا جانا کس
قدر ضروری ہے ؟
ان سب باتوں کے ذکر کے بعد بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح
دنیاوی علوم کے افراد میں تواضع ناپید ہوتا ہے آج کے اکثر علماء ان کی صف
میں نظر آتے ہیں جبکہ آپ نے جانا کہ علماء میں عام مسلمانوں کی بنسبت وافر
مقدر میں تواضع ہونا چاہئے ۔ کیا وجہ ہے کہ آج کے علماء متواضع شخصیت کے
مالک نہیں ہیں ؟ وجہ وہی ہے جس کا ذکر اﷲ نے رسول سے کیا ہے کہ کسی دوسرے
پر فخر کا اظہار نہ کرو۔
آج کے اکثر علماء خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرتے ہیں ، جس قدر بڑی ڈگری
مل جاتی ہے اسی قدر کبر کا شکار ہوجاتے ہیں ، جہاں کہیں کوئی بڑا منصب مل
جاتاہے ، کسی میدان میں شہرت مل جاتی ہے یا چند کتابوں کے مصنف بن جاتے ہیں
کبروغرور کا ایسا اظہار ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں سے کجا اپنے سے نیچیعلماء
کی بھی قدر نہیں کرتے ہیں ،ان سیسلام وکلام میں حرج ، ان کے ساتھ اٹھنے
بیٹھے اور دعوت وتبلیغ میں عارمحسوس کرتے ہیں۔ پھر بات وہیں جانکلتی ہے کہ
جو حال دنیاوی علوم والوں نے اپنا بنا رکھا ہے وہی حال آج کے مدرس ومبلغ
اور مفسرومحقق کا ہے ۔ شہرت پانے والے مقرر کا تو سب سے برا حال ہے ،جس
قدرگراں ان کی تقریری فیس ہے اسی قدر بعد تواضع سے ہے ۔ کیا ہوگیا ہے امت
کو ؟ دینی علم جو ہمیں متواضع بناتا کیسے کبر کے دلدل میں پھنس گئے ؟
شاید ہم دنیاوی مفاد کے چکر میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دوسروں کے احترام سے
اپنی قدر گھٹتی ہے، نرم دلی اپنانے سے لوگ بیجا فائدہ اٹھاتے ہیں، گھل مل
کر رہنے سے اسٹیٹس پر حرف آتا ہے اور ہرکسی کو سلام کرنے اور اپنے سے
چھوٹوں سے بات کرنے سے حقارت کا اظہار ہوتا ہے ، سنیئے امام الانبیاء کا
فرمان:
ما نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِن مالٍ، وما زادَ اللَّہُ عَبْدًا بعَفْوٍ، إلَّا
عِزًّا، وما تَواضَعَ أحَدٌ لِلَّہِ إلَّا رَفَعَہُ اللَّہُ(صحیح
مسلم:2588)
ترجمہ:صدقہ دینے سے کوئی مال نہیں گھٹا اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اﷲ اس
کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اﷲ تعالیٰ کے لیے عاجزی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس
کا درجہ بلند کرتا ہے۔
آخر میں زندگی کے ایک تجرنے کی بات کرنا چاہتا ہوں کہ حرم مکی کے مفتی
ڈاکٹر وصی اﷲ عباس حفظہ اﷲ سے میری پہلی ملاقات جدہ (سی پورٹ) دعوۃ سنٹر
میں ہوئی تھی اس ملاقات میں پرخلوص محبت، ملنساری، اخوت ، نرم روی اور خوش
گفتاری کا جو عکس دیکھا عش عش کرنے لگا۔ جب کبھی بھی آپ سے بذریعہ فون
رابطہ کیا وہی نرمی اور خوش گفتاری محسوس کرتا ہوں ، شیخ مجھیبہت حوصلہ
دیتے ہیں اورنوجوانی کا واسطہ دے کر لکھتے رہنے کی کثرت سے تلقین کرتے ہیں
۔میں نے اپنی زندگی میں محسوس کیا کہ اﷲ نے واقعی آپ کو اس حدیث کا مصداق
بنایا کہ جو اﷲ کے لئے تواضع اختیار کرے اﷲ اس کا درجہ بلند کرتا ہے، مجھے
یقین ہے کہ اﷲ نے آپ کو تواضع کے بدلے حرم مکی سیعلمی طورپر مربوط رکھا ہے۔
اے کاش علماء کو تواضع کی سمجھ آ جائے ۔
|