ٹیکسی ڈرائیور اور ملکی حالات

میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ملکی حالات پر عام آدمی کی رائے لی جائے کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں مثلا ٹیکسی ڈرائیور, رکشہ ڈرائیور,سبزی فروش,ریڑھی بان , یا چھوٹے دکاندار یا نچلے درجے کے دیہاڑی دار مزدور وغیرہ شامل ہیں َ۔مختلف ادوار حکومتوں کی کارکردگی یا مقبولیت کے بارے میں ان کی رائے ہی خلق خدا کی حقیقی آواز ہوتی ہے خصوصی طور پر ٹیکسی ڈرائیور جن کا واسطہ ہر روز مختلف لوگوں سے رہتا ہے اور وہ حقیقی صورت حال کے عکاس ہوتے ہیں ۔اسی طرح کا ایک واقعہ اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ 2012 کی بات ہے کہ کسی کام کے سلسلے میں مجھے اسلام آباد سے راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا اور میری اپنی ذاتی گاڑی اس وقت موجود نہ تھی تو میں نے ایک ٹیکسی کو آتے دیکھا اور اسے رکنے کا اشارہ کیا جس پر وہ ٹیکسی میرے قریب آ کر رک گئی اور میں نے ڈرائیور سے کرایہ طے کیا اور اس ٹیکسی میں بیٹھ گیا ۔حسب عادت ٹیکسی ڈرائیور سے گپ شپ میں ملکی حالات پر سوال و جواب کا سلسلہ چل پڑا اور میں نے اس سے پوچھا آپ کا دھندہ کیسا چل رہا ہے ……؟ تو اس نے کچھ پریشانی کے عالم میں جواب دیا کہ سی این جی کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں اور سی این جی اسٹیشن اکثر بند کروا دئیے جاتے ہیں مجبورا گاڑی پیٹرول پر چلانی پڑتی ہے کرایہ زیادہ کرنے سے سواری کم ہو گئی ہے اس لیے کاروبارمیں بہت مندی ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی ۔میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو اس نے کچھ سوچے بغیر برجستہ جواب دیا کہ …………!۔اخلاقی طور پر میں وہ سخت الفاظ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں ۔پھر میں نے پوچھا ن لیگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو اس نے کہا کہ یہ تو ان سے بھی بڑے …………ہیں ۔یہی وہ الفاظ ہیں جو دونوں بڑی پارٹیوں کے قائدین ایک دوسرے کے خلاف دُوھرا رہے ہوتے تھے اور آج عمران خان دوھرا رہے ہیں ۔میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے آخری سوال کیا کہ اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں عوامی مفادات کے لیے ٹھیک سے کام نہیں کر رہیں تو پھر تیسری قیادت تحریک انصاف جس کے قائد عمران خان ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو ٹیکسی ڈرائیور نے اس وقت بہت زبردست جواب دیا جو آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے کہ "اگر عمران خان کو حکومت میں آنے کا موقع مل گیا تو پاکستان کے حالات پہلے سے بھی بدتر کردے گا یا پھر پاکستان کو بہت اوپر لے جا ئے گا اور ملک کی تقدیر بدل دے گا درمیانہ کوئی راستہ اس کے پاس نہیں ہو گا " ۔2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔اقتدار سنبھالنے کے بعد پونے دوسالہ حکومتی کارکردگی کو دیکھا جائے تو کسی طرح بھی حوصلہ افزاء نظر نہیں آرہی ۔پاکستان کے عوام پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی گذشتہ حکومتوں کے ادوار کو دیکھ چکے ہیں اور ان کے مثبت اور منفی پہلو عوام کے سامنے ہیں۔ْ

عمران خان حکومت نے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے تھے مثلا یکساں نصاب تعلیم ،صحت کے شعبہ پر توجہ ،اداروں کی مضبوطی ,انصاف کا یکساں نظام، ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ وغیرہ وغیرہ ۔
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی وعدہ پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ……

وفاقی سطح پر بھی غیر منتخب لوگوں کی اہم سیٹوں پر تعیناتی اور حکومتی معاملات میں ان کی بیجا مداخلت جیسے سنگین الزامات ,مہنگائی پر کنٹرول نہ کرنا , ایسے ایشو ہیں جس سے عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی آرہی ہے ۔چند ماہ پہلے ملک میں جب چینی اور آٹے کا بحران پیدا ہوا تو عمران خان نے انکوائری کمیٹی قائم کی جس کی قیادت ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء کے سپرد کی گئی۔ عمران خان نے ایک بار پھر عوام سے وعدہ کیا کہ آٹا چینی کے بحران کے ذمہ داران کو منظر عام پر لایا جائے گا اور ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سامنے آ چکی ہے اب مکمل رپورٹ 25 اپریل کو کمیشن پیش کرنے کا بھی عندیہ دے چکا ہے دیکھنا یہ ہوگا اس رپورٹ پر بلا تفریق ایکشن لیا جاتا ہے کہ نہیں کیونکہ اس میں حکومت اور اپوزیشن کی اہم بااثر شخصیات کے نام شامل ہیں۔اس وقت حکومت شدید دباؤ کا شکار نظر آرہی ہے ۔اگر حکومت اس سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرتی ہے تو وہ حکومت کے لیے نہ صرف مشکلات پیدا کریں گے بلکہ حکومت کو گرانے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔اگر عمران خان نے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی ٹھان لی ہے تو پھر ان کو فکر نہیں کرنی چاھیے یہی وقت ہے ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں …………

اس رپورٹ کو سامنے لانے کے بعد جہاں تنقید ہو رہی ہے وہیں اس کو سراہا بھی جارہا ہے اور عوامی سطح پر ان کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔مجھے آج اس ٹیکسی ڈرائیور کی بات یاد آ رہی ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ اس ڈرائیور کے منفی کی بجائے مثبت الفاظ پر عمل ہو اور پاکستان اوپر آ جائے اور ملک کی تقدیر بدل جائے ،یہ سب تبی ممکن ہو گا جب عمران خان اپنے اردگرد کے حالات پر گہری نظر رکھیں گے اور ایسے افراد کے حصار سے باہر نکل آئیں گے جو عمران خان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں ؟آنے والے چند ہفتے ملکی سیاست میں نہایت اھم ہیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ وقت ہی ثابت کرے گا ۔
 

Malik Mumraiz
About the Author: Malik Mumraiz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.