ایک بہت ہی پرانا گانا ہے ، تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے
گا:انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا۔یہ اس دور کا گانا ہے جب ہندوستان میں
ہندو اورمسلم نام سے تعصب شروع ہوچکا تھا اورلوگ ایک دوسرےکے دشمن ہورہے
تھے ۔ ان لوگوں کے اختلافات کو دور کرنے کیلئے اس دور میں ڈرامے، فلمیں،
گانے اور کہانیاں قومی یکجہتی اوربھائی چارگی کا پیغام دیتے تھے۔ لوگ اس
پیغام کو کافی حدتک تسلیم کرلیتے تھے لیکن اب حالات بدلتے جارہے ہیں ،
فلموں سے لیکر ڈرامے اور گانوں سے لیکر خبریں یہ تمام لوگوں میں درار ڈالنے
کا کام کررہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے حالات بے حد خراب ہوچکے ہیں، لوگ ایک
دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں، خصوصاً ہندومسلم کا زہر تیزی کے ساتھ پھیل
رہا ہے، نفرت کا کھیل عام ہورہا ہے ، یہاں تک کہ بیماریاں بھی مذہبی ہوچکی
ہیں اوران بیماریوں کا شکار ہونے والے لوگ بھی تعصب کا شکار ہورہے ہیں۔
ہندوستان میں جب سے کورونا مرض قدم رکھ چکا ہے اس کے بعد سے مزید نفرت کی
دیواریں اونچی ہونے لگی ہیں۔ جب کورونا مرض ہندوستان میں قدم رکھا تھا اسے
ایک وبائی مرض قرار دیا گیا تھا کچھ عرصے بعد اس مرض کو مسلمانوں سے جوڑنے
کیلئے مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا، مسجدوں میں اس مرض کو بدنام ہونے کا خاص
موقع نہیں ملا تو کورونا تبلیغی ہوگیا اوریہ مرض اب مسلکی مرض بن گیا ہے۔
جس حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مرض کو مرض رہنے دیتی لیکن اس نے بھی
متعصبانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے آج ملک میں کورونا کی وحشت کے ساتھ
ساتھ تعصب کی دہشت بھی پروان چڑھنے لگی ہے۔ بھارت میں اب تک سب کچھ صحیح
سلامت تھالیکن پچھلے کچھ دنوں سے جو حکومت مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کیلئے
نت نئے طریقے اپنارہی ہے وہ ناقابل قبول ہے، اب تک بیماری کو مسلک سے جوڑ
اگیا تھااب مریضوں کو بھی مذہب کی بنیاد پر الگ الگ علاج کرنے کا فیصلہ کیا
گیا ہے۔ اس کی شروعات خود وزیر اعظم نریندرمودی اوروزیر داخلہ امیت شاہ کی
ریاست گجرات سےشروع ہوئی ہے، گجرات کی ایک اسپتال میں کورونا سے متاثر ہونے
والے مریضوں کے علاج کیلئے جہاں ہائی ٹیک انتظامات کرنے کی ضرورت تھی وہیں
گجرات حکومت نے ہندوئوں اورمسلمانوں کیلئے علیحدہ علیحدہ علاج کے انتظامات
کئے ہیں۔ سوچئے کہ جس ملک کی حکومت بیماری کو بھی مذہب سے جوڑتی ہے اورعلاج
کیلئے بھی مذہب کی بنیادوں پر سہولتیں دیتی ہے کیا وہ حکومت عوام کے حقوق
کو بحال رکھ سکتی ہے۔ تعصب کی یہ لہر اب تک تعلیم، روزگار، اورسماجی حقوق
میں شمار کی جاتی تھی لیکن اب ماحول بدل گیا ہے بیماریوں کو بھی لوگ زہر
آلود کرنے لگیں ہیں۔ جب جب دنیا میں ظلم وستم اور حقوق انسانی کو پامال
کیا گیا اس وقت ایسے ہی خدائی قہر نافذ ہوتے گئے۔ ہندوستان میں برٹیش راج
کے دوران بھی ایسے ہی بدترین حالات رونما ہوئے تھے ،پلیگ جیسی بیماری نے
سینکڑوں انگریز وں اورہزاروں ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ اب
وہی حال دوبارہ مودی راج میں چل رہا ہے نہ صرف مودی راج میں دنیا کے مختلف
ممالک جہاں پر حکومتوں اوربادشاہوں نے عوام کا جینا محال کردیا تھا وہاں پر
یہ بدترین حالات پیدا ہوئے ہیں۔ چین کے وہان ریاست سے شروع ہونے والی یہ
وباء سب سے پہلے چین کو ہی تباہ وبرباد کرنے لگی وہاں جسطرح سے مسلمانوں کو
اذیت دی جاتی رہی اس کا جواب قدرت نے انہیں دے دیا۔ پھر جب بات امریکہ،
اٹلی اوردیگر ممالک کی جائے تو وہاں بھی کورونا مرض نے اپنے قہر کا مظاہرہ
کیا ہے۔ غور کیجئے کہ امریکہ میں کسطرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا
تھا۔ اسی امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک پر اپنے ظلم کا جھنڈا لہرا یا تھا
۔اٹلی جہاں پر روزانہ ہزاروں لوگ کورونا سے ہلاک ہورہے ہیں،وہاں عریانیت اس
شباب پر تھی کہ کوئی اس ملک کی حکومت کو روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ اسی
طرح سے اسپین کی بھی بات کی جائے تو وہاں پر سیاحت کے معنی ہی تبدیل ہوتے
جارہے تھے، وہاں کی سیاحتی مقامات پر مرد اورعورتیں بالباس سے زیادہ بے
لباس ہونے لگے تھے۔ اسی طرح سے ہر ملک میں تہذیب وتمدن کی دھجیاں اڑائی
جانے لگی جس کا خمیازہ آج کورونا کی نہ دکھنے والی طاقت سے اٹھانا پڑرہا
ہے۔ یقیناً کورونا وبائی مرض ہے اسکے سائنسی وجوہات اب بھی پتہ نہیں چل رہے
ہیں لیکن اخلاقیات ومذہب کے دائرے میں اسکے وجوہات تلاش کی جائے تو اسکا
ایک ہی جواب ہے کہ ہم اپنے کرتوتوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جن حالات سے ملک
گزررہا ہے اس میں وزیر اعظم مودی کو محتاط ہونے کی ضرورت تھی لیکن وہ اب
بھی کیسری چشمہ پہننے ہوئے دنیا کو رنگین مان رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے
باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کیسری چشمے والوں سے محتاط رہیں اور ان
کی ہر بتائی ہوئی بات کو صحیح نہ مانیں ۔
|