ناموسِ رسالت اور ڈاکٹر خالد ظہیر کی ہرزہ سرائی-1

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اس تحریر میں ناموس رسالت اور اس کے چند متعلقات کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ عزوجل سے دعا ہے کہ حق بات کہنے، حق تسلیم کرنے اور ہمیشہ حق پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ عزوجل کی بارگاہ میں یہ بھی التجا ہے کہ اپنے تمام انبیاء کرام علیہم السلام، بالخصوص سید الانبیاء، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین، احمد مجتبیٰ، جنابِ محمد مصطفی ﷺ کی بارگاہ کا ادب، محبت اور حضور نبی کریم ﷺ کی کامل اطاعت نصیب فرمائے۔ ہم اللہ تعالیٰ عزوجل کی پناہ چاہتے ہیں اس بات سے کہ کسی بھی نبی یا رسول کی ادنی ترین گستاخی کا خیال یا تصور ہمارے دل کے قریب بھی گزرے۔ اللہ تعالیٰ عزوجل ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کا ادب کرنے والوں کی محبت اور ان کی تنقیص کرنے والوں سے نفرت عطا فرمائے، کہ اصل ضابطہ محبت و نفرت کا یہی ہے۔ اٰمین یا رب العالمین۔

باب اوّل۔ حضور نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبہ اور محبت و احترام کے بیان میں

ناموس رسالت کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے حضور نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبہ سے آگاہی حاصل کی جائے، کیونکہ جو شخص آپ ﷺ کے مقام اور منصب کو جانتا ہی نہیں، وہ عزت و ناموس کی نزاکتوں کو کیونکر سمجھ پائے گا۔ ا س ضمن میں قرآن پاک کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں اللہ تعالیٰ عزوجل نے حضور سید الانبیاء ﷺ کی شان و منزلت کا ذکر فرمایا اور آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا۔

اختصار کے پیش نظر یہاں صرف چند ایک آیات ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے، حالانکہ ان آیات کی تعداد حقیقت میں بہت زیادہ ہے جن میں آپ ﷺ کی توصیف قرآن بیان کرتا ہے، حتیٰ کہ بعض علماء نے تو یہاں تک فرمایا کہ قرآن پاک الحمد کی الف سے والناس کی س تک تمام کا تمام مدحت و عظمتِ رسول ﷺ کا بیان ہے۔

قرآن فرماتا ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡم

ترجمہ: اور بے شک تمہاری خُو بُو بڑی شان کی ہے۔ (القلم:۴)

وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ

ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔ (الم نشرح:۴)

وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ

ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (الانبیاء:۱۰۷)

اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرؕ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انْحَرؕ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْتَرُؕ

ترجمہ: اے محبوب ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بےشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔ (الکوثر:۱تا۳)

وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی

ترجمہ: اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔ (والضحیٰ:۵)

فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَیُسَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا

ترجمہ: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں۔ (النساء:۶۵)

وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسْرَآءِیۡلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنۡہُمُ اثْنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَقَالَ اللہُ اِنِّیۡ مَعَکُمْ ؕ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَعَزَّرْتُمُوۡہُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ مِنۡ تَحْتِہَا الۡاَنْہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ

ترجمہ: اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے اُن میں بارہ سردار قائم کئے اوراللہ نے فرمایا بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں ضرور اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اللہ کو قرض حسن دو توبے شک میں تمہارے گناہ اُتاردوں گا اور ضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا۔ (المائدہ:۱۲)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحْیِیۡکُمْ ۚ وَاعْلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحْشَرُوۡنَ

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے۔ (الانفال:۲۴)

اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکْتُوۡبًا عِنۡدَہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ وَالۡاِنْجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالْمَعْرُوۡفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنۡکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالۡاَغْلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتْ عَلَیۡہِمْ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡن

ترجمہ: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں اُن پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اتارے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔ (الاعراف:۱۵۷)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدْخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنۡ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ ۙ وَلٰکِنْ اِذَا دُعِیۡتُمْ فَادْخُلُوۡا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانۡتَشِرُوۡا وَلَا مُسْتَاۡنِسِیۡنَ لِحَدِیۡثٍ ؕ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنۡکُمْ ۫ وَاللہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوۡبِکُمْ وَ قُلُوۡبِہنَّ ؕ وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنۡ تُؤْذُوۡا رَسُوۡلَ اللہِ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزْوَاجَہٗ مِنۡ بَعْدِہٖۤ اَبَدًا ؕ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنۡدَ اللہِ عَظِیۡمًا

ترجمہ: اے ایمان والو نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلاً کھانے کے لئے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہوجاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بیشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں نہیں شرماتا اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو اس میں زیادہ ستھرائی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کی اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو بیشک یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت بات ہے۔ (الاحزاب:۵۳)

لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلً

ترجمہ: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔ (الفتح:۹)

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمْرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ؕ وَمَنۡ یَّعْصِ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا

ترجمہ: اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا۔ (الاحزاب:۳۶)

دیکھئے قرآن کس طرح سرکارِ دو عالم ﷺ کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتا ہے اور آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا حکم دیتا ہے۔ قرآن پاک کی شان یہ ہے کہ فقط ایک آیت کریمہ میں اگر کسی عمل کا طلبِ جازم کے ساتھ تقاضا کرے تو وہ عمل مومنوں پر فرض ہو جاتا ہے، تو جس ذات کی تعریف و توصیف بار بار کرے، اس کی عظمتوں اور رفعتوں کا کیا ٹھکانہ ہو گا اور آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کس قدر ضروری ہو گی۔

حقیقت یہ ہے کہ محبتِ رسول ﷺ کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جس طرح پھول بغیر خوشبو کے بیکار ہے، جو دیکھنے میں تو شاید دلکش محسوس ہو، مگر اپنی حقیقی صفت سے محرومی کے باعث بے وقعت ہوتا ہے، اسی طرح محبتِ رسول ﷺ سے محروم ایک شخص نام کا مسلمان تو کہلا سکتا ہے لیکن حقیقتا وہ ایمان سے محروم ہے، کیونکہ محبتِ رسول ﷺ ہی اصلِ ایمان ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل پر ایمان اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس ہستی پر ایمان نہ ہو جس نے اللہ تعالیٰ کی خبر دی، اور ایمان بغیر محبت کےنفس کے دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ خود سرورِعالم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں ا س کے نزدیک اس کے اہل، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں"۔ (صحیح مسلم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس کو پا لے گا:

(۱) اللہ اور اس کا رسول اس کو باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں

(۲) جس شخص سے بھی اس کو محبت ہو وہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہو

(۳) کفر سے نجات پانے کے بعد وہ دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرتا ہو جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے"۔ (صحیح مسلم)

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن آپ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ بیشک میرے نزدیک آپ ﷺ سوائے اس اپنی جان کے، جو دو پہلوؤں کے درمیان ہے، ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ تب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ جانے۔ اس وقت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ پر قرآن نازل فرمایا، یقیناً آپ ﷺ میری اس جان سے بھی، جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے، زیادہ محبوب ہیں۔ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر! اب تم (کامل) ایماندار ہو گئے۔ (صحیح بخاری)

ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ یہاں نہ فقط محبت، بلکہ ایسی محبت درکار ہے جو باقی تمام محبتوں پر غالب ہو، اور جب تک یہ کیفیت نہ ہو، ایمان کامل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت کو ایک ساتھ جمع فرمایا اور ماسِوا پر ان کی فوقیت کا حکم دیا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محبت و اطاعتِ نبوی کے اعلیٰ ترین منصب پر وہی حضرات فائز ہیں جنہوں نے جمالِ جہاں آرا کا ظاہری حیات طیبہ میں سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور آپ ﷺ کی صحبت کی دولت سے سرفراز ہوئے، اور اسی بنا پر اصحابِ رسول کے مرتبہ عالیہ پر فائز ہوئے، حتی کہ ان میں آپس کے لحاظ سے جو سب سے ادنیٰ ہے، امت کے تمام غوث اور قطب مل کر بھی اس کے درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ وہی حضرات ہیں جن کے عشق و ادب کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ چند احادیث ملاحظہ کیجئے:

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں تھا، اور نہ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی میری نگاہ میں بزرگ تھا اور آپ ﷺ کےجلال کی وجہ سے میں نگاہ بھر کر آپ ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا، اور اگر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا کہ میں آپ ﷺ کا حلیہ بیان کروں تو میں نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ میں نے آپ ﷺ کو نگاہ بھر کر نہیں دیکھا تھا۔ (صحیح مسلم)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب مہاجرین اور انصار کے پاس جایا کرتے تھے اور وہ بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ہوتے تھے، پس حضرت صدیق و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا کوئی آپ ﷺ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، وہ دونوں آپ ﷺ کی طرف دیکھتے تھے اور آپ ﷺ ان کی طرف دیکھتے تھے اور وہ آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے اور آپ ﷺ ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے۔ (سنن ترمذی)

حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور صحابہ کرام آپ ﷺ کے گرد اس طرح (باادب) بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ (سنن ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے لوگ میرے بعد ہوں گے، ان کی یہ تمنا ہو گی کہ کاش ان کے تمام اہل اور مال کو لے لیا جائے اور اس کے بدلے ان کو میری زیارت حاصل ہو جائے۔ (صحیح مسلم)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حجام رسول اللہ ﷺ کا سر مونڈ رہا تھا، اور صحابہ کرام نے آپ ﷺ کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور جب بھی آپ ﷺ کا کوئی بال مبارک گرتا تو وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں ہوتا۔ (صحیح مسلم)

صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ نے کنکھیوں سے نبی کریم ﷺکو دیکھا، اس نے کہا خدا عزوجل کی قسم، رسول اللہ ﷺ جب بھی تھوکتے تھے تو صحابہ میں سے کوئی نہ کوئی آپ ﷺ کے لعاب کو اپنے ہاتھوں پر لے لیتا اور اس کو چہرے اور جسم پر ملتا، اور جب آپ ﷺ انہیں کسی چیز کا حکم دیتے تو اس پر عمل کرنے کے لیے سب جھپٹ پڑتے، اور جب آپ ﷺ وضو کرتے تو آپ ﷺ کے جسم سے لگ کر گرنے والے پانی کو لینے کے لیے وہ ٹوٹ پڑتے اور یوں لگتا تھا کہ اس پانی کو حاصل کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے کو قتل کر دیں گے، جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو وہ سب خاموش ہو جاتے اور تعظیم کی وجہ سے آپ ﷺکی طرف نظر نہیں اٹھاتے تھے۔ جب عروہ اپنے ساتھیوں (کفار مکہ) کی طرف لوٹا تو اس نےکہا، خدا کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار میں گیا ہوں، میں قیصر، کسریٰ اور نجاشی کے ہاں گیا ہوں، خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اس بادشاہ کی اس قدر تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح محمد (ﷺ) کے اصحاب کو محمد (ﷺ) کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح بخاری)

واقعہ حدیبیہ میں جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ میں مشرکین کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجا تو قریش نے حضرت عثمان سے کہا کہ تم کعبہ کا طواف کر لو، تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کا طواف نہ کر لیں۔ (دلائل النبوت)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَقْتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ ؕ

ترجمہ: اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ (النساء:۲۹)

لیکن ذرا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل دیکھئے۔ غار کی رات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ پہلے مجھے داخل ہونے دیجئے، حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ غار میں داخل ہوئے اور غار کی دیواروں میں ہاتھ لگا کر دیکھتے رہے اور جہاں سوراخ دیکھتے اپنی قمیض پھاڑ کر اس سوراخ کو بند کر دیتے حتیٰ کہ ان کی پوری قمیض پھٹ گئی اور ایک سوراخ رہ گیا اور اس پر انہوں نے اپنی ایڑی رکھ دی اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میرے زانو پر سر رکھ کر آرام فرمائیں، سانپ اور بچھو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ڈنک مارتے رہے لیکن انہوں نے بالکل جنبش نہیں کی، مبادا حضور ﷺ بیدار ہو جائیں، لیکن ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے اور جب یہ آنسو حضور ﷺ کے چہرے پر گرے تو آپ ﷺ بیدار ہو گئے اور فرمایا اے ابوبکر! غم نہ کرو اللہ عزوجل ہمارے ساتھ ہے۔ (مدارج النبوت)

اور اللہ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے:

حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ٭

ترجمہ: نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔ (البقرہ:۲۳۸)

اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ عصر کی نماز کی پابندی کا حکم فرمایا ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کی نیند کی خاطر عصر کی نماز قضا کر دی۔ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کی جا رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی کہ سورج غروب ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اے علی! تم نے نماز پڑھ لی؟ انہوں نے کہا نہیں۔ تب رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا، اس پر سورج کو لوٹا دے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سورج غروب ہو گیا تھا، پھر میں نے اس کو غروب کے بعد طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔ (مشکل الآثار)

الغرض، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے محبت و احترامِ رسول ﷺ کی وہ لازوال مثالیں قائم کیں، جن کا شمار ممکن نہیں اور انسانیت جن پر ہمیشہ رشک کرے گی۔ لیکن یہ معاملہ ان حضرات تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان انفاسِ قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت مسلمہ نے ہر زمانے میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی محبت اور تعظیم کو اپنا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھا ہے اور اپنی جانوں سے بڑھ کر اس اثاثے کی حفاظت کی ہے۔ مزیدبرآں، اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی تقسیم یا تخصیص بھی نہیں، مفسرینِ قرآن ہوں یا محدثین، ائمہ فقہ ہوں یا صوفیاء باصفا، سیرت نگار ہوں یا تاریخ دان، نثر نگار ہوں یا نعت گو شعراء، اس معاملے میں یہ سب آپ کو ایک دوسرے سے بڑھنے کی سعی کرتے نظر آئیں گے، حتیٰ کہ عوام مسلمین بھی اپنی قابلیت و اہلیت کے موافق اسی راہ پر گامزن ملیں گے۔ اور کیوں نہ ہو، جس ہستی کی شان یہ ہو کہ خود ربّ ذوالجلال اور اس کے فرشتے اس پر درود بھیجتے ہوں، ان کی غلامی کا شرف پانے والے کیونکر ان کی توصیف و ثناء سے رک سکتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پوری تاریخ انسانی میں کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں ملے گی جس کی تعریف کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہوں جتنی تعداد میں سید عالم ﷺ کے مدح خوان اس عالم میں ہوئے، اور نہ کسی کی اتنی کثرت سے تعریف ہی آج تک ہوئی جتنی آپ ﷺ کی ہوئی۔ اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ بلا شبہ جس کا نام خود اللہ تعالیٰ عزوجل نے "محمد" اور "احمد" رکھا، اس کی حمد قیامت تک ہوتی ہی رہے گی۔ لیکن اس سب کے باوجود آج تک کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکا کہ اس نے آپ ﷺ کی وہ توصیف بیان کی جو آپ ﷺ کے مقام کے لائق ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا حقیقی مقام سوائے آپ ﷺ کے رب عزوجل کے کوئی جانتا ہی نہیں۔ اس بات کا اظہار اس شعر سے ہوتا ہے:

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

باب دوم ۔ نبی کریم ﷺ کی توہین و تنقیص کی ممانعت کے بیان میں

نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبہ اور آپ ﷺ کے ادب و محبت کے بیان میں چند نصوص آپ نے ملاحظہ فرمائیں۔ اس باب میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ جس نبی ﷺ کی اس قدر شان اللہ تعالیٰ عزوجل نے بیان فرمائی اور اس کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا، کیا اس کی توہین و تنقیص سے منع بھی فرمایا؟ قرآن کے احکامات پر نظر فرمائیے:

نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں گفتگو کے آداب

لَا تَجْعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمۡ بَعْضًا ؕ

ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (النور:۶۳)

اس آیت کا ایک معنی مفسِّرین نے یہ بھی بیان فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ندا کرے تو ادب و تکریم اور توقیر و تعظیم کے ساتھ آپ کے معظّم القاب سے نرم آواز کے ساتھ متواضعانہ و منکسرانہ لہجہ میں۔ نبی کریم ﷺ کو محض اس طرح مخاطب کرنا، جس طرح ایک دوسرے کو پکارا جاتا ہے، گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ الغرض، سید عالم ﷺ کی بارگاہ اقدس کا معاملہ ہی جُدا ہے اور اسے دوسروں پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوۡا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہۡرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَا تَشْعُرُوۡنَ

ترجمہ: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (الحجرات:۲)

اس آیت میں حضور ﷺ کا اجلال و اکرام اور ادب واحترام تعلیم فرمایا گیا اور حکم دیا گیا کہ ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھیں، جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہیں اس طرح نہ پکاریں بلکہ کلماتِ ادب و تعظیم و توصیف وتکریم والقابِ عظمت کے ساتھ عرض کریں۔ یعنی ان کے حضور صرف بلند آواز میں بات کرنا بھی گستاخی ہے، اور اس پر وعید کیا ہے؟ ساری عمر کے اعمال کا اس بظاہر معمولی بے ادبی کی وجہ سے اکارت چلے جانا۔ جو لوگ اس بھول میں ہیں کہ گستاخی شاید شدید توہین ہی سے ہوتی ہے، وہ اپنی غلط فہمی دور کر لیں۔ دیکھئے، آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ "اعمال اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو"۔ ظاہر ہے کہ جو صریح گستاخی کرے گا وہ تو اپنے اس قبیح عمل سے واقف ہو گا، خبر اُسے نہیں ہو گی جو اپنے زعم باطل میں اپنی کسی بےاحتیاطی کو گستاخی کے زمرے میں شمار ہی نہیں کرے گا اور لا علمی میں ہلاک ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کے معاملے میں کس قدر احتیاط چاہئے۔

امام قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ الشفاء میں فرماتے ہیں کہ ہم اس شخص کو بھی کافر کہتے ہیں جو ہمارے نبی کریم ﷺ کی نبوت کا قائل تو ہو مگر یہ کہتا ہو کہ آپ ﷺ کا رنگ کالا تھا، یا آپ ﷺریش مبارک نکلنے سے پہلے وفات پا گئے، یا آپ ﷺ وہ نہیں جو مکہ مکرمہ اور حجاز مقدس میں پیدا ہوئے تھے، یا یہ کہ آپ ﷺ قریشی نہ تھے۔ دلیلِ کفر یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ایسی تعریف کر کے، جو آپ ﷺ کی معروف و مشہور اوصاف کے خلاف ہو، گویا اس نے آپ ﷺ کی نفی کی اور آپ ﷺ کی تکذیب کی۔

جن الفاظ میں توہین کا شبہ ہو وہ بھی ممنوع ہیں

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا وَاسْمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

ترجمہ: اے ایمان والو "رَاعِنَا" نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (البقرہ:۱۰۴)

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے، "رَاعِنَا یارسول اللہ"۔ اس کے یہ معنی تھے کہ یارسول اللہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے، یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوء ِادب کے معنی رکھتا تھا، انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے، آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا، اے دشمنان خدا! تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا تو اس کی گردن ماردوں گا۔ یہود نے کہا ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں، مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں۔ اس پر آپ رنجیدہ ہو کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں "رَاعِنَا" کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ "اُنْظُرْناَ" کہنے کا حکم ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلماتِ ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا منع ہے ۔

توہین میں عذر قابلِ قبول نہیں اور اس کا مرتکب کافر ہے

وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَؕ لَا تَعْتَذِرُوۡا قَدْ کَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمَانِکُمْ ؕ

ترجمہ: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔ (التوبہ:۶۵،۶۶)

ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کُفر ہے، جس طرح بھی ہو، اس میں عذر مقبول نہیں۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بےادبی کے بعد ہنسی مذاق کا بہانہ کام نہیں آئے گا، بلکہ یہ عذر قابل سماع ہی نہیں۔ اور یہ بات ان لوگوں کے حق میں فرمائی جو مسلمان کہلاتے تھے، کیونکہ فرمایا "تم کافر ہو گئے مسلمان ہونے کے بعد"۔ واضح ہوا کہ گستاخِ رسول دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے اور کافر قطعی ہو جاتا ہے۔

اللہ اور رسول کو ایذا دینے والے پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا

بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (الاحذاب:۵۷)

وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

ترجمہ: اور وہ جو رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے (التوبہ:۶۱)

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ عزوجل کو اور رسول ﷺ کو ایذا دینے والوں کا ذکر ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ عزوجل اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کو ایذا دے سکے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو ایذا دینا ہی اللہ تعالیٰ عزوجل کو ایذا دینا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کو ہر اس بات سے ایذا ہوتی ہے جس میں کسی طرح آپ ﷺ کی تکذیب یا توہین ہو۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے بدبختوں پر نہ صرف دنیا، بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی لعنت ہے، چنانچہ وہ روزِ آخرت بھی اللہ تعالیٰ عزوجل کی رحمت سے محروم رہیں گے۔ یہ ان کے دائمی جہنمی ہونے کی دلیل ہے۔

الغرض ان آیات کریمہ سے حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں بے ادبی کی ممانعت قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ جس قدر کسی کا رتبہ بلند ہو گا، اتنا ہی اس کی بے ادبی سے بچنا لازم ہو گا، اور اس سلسلے میں اسے دوسروں پر امتیازحاصل ہو گا۔ دیکھئے، ماں باپ کا ادب بڑے بہن بھائی سے زیادہ ہے، اسی طرح استاد، عالم دین اور شیخ طریقت کا معاملہ ہے کہ ان سب کا ادب مساوی نہیں۔ اگرچہ یہ سب لوگ ہی قابل احترام ہیں لیکن بعض کو اس سلسلے میں دوسروں پر فوقیت حاصل ہے۔ جب شخصیات کے آداب میں مساوات نہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سب سے زیادہ ادب و احترام کے لائق وہی ہستی ہے جس کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے کا حکم ہے، جیسا کہ باب اول میں مسلم و بخاری کی احادیث سے ثابت ہوا۔ اور ان کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بچنا بھی حفظِ ایمان کا تقاضا ہے اور اس کے عکس میں ایمان کی مکمل تباہی ہے۔

باب سوم ۔ شاتمِ رسول کی شرعی سزا کے بیان میں

اس باب میں اس بات کا بیان ہے کہ شاتمِ رسول کی سزا صرف موت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ گستاخی کی اس سزا پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ اصحابِ رسول ﷺ جب کسی کو سنتے کہ بارگاہِ رسالت میں یاوہ گوئی کرتا ہے یا آپ ﷺ کو اذیت دے رہا ہے تو ا سے قتل کر دیتے، خواہ ان کا قریبی رشتہ دار ہوتا۔ حضور ﷺ ان کے اس طرزِ عمل کو مقرر رکھتے، اور بعض اوقات ایسا کارنامہ سر انجام دینے والے کو اللہ تعالیٰ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کا حامی قرار دیتے۔

گستاخِ رسول کی سزا احادیث کی روشنی میں

ایک شخص بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میری ملاقات میرے باپ سے ہوئی، وہ مشرکین کے ایک گروہ میں تھا، میں نے سنا کہ وہ آپ ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کر رہا ہے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور نیزے کی نوک سے اسے قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور ﷺ کی طبعِ نازک پر گراں نہ گزری۔ (ابو اسحاق فزاری ۔ سیرت)

نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا، اس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے۔ جب مشرکین کے مقابلہ میں صفیں ترتیب دیں تو ایک شخص نے مشرکین کی صفوں سے نکل کر نبی اکرم ﷺ کو گالی دینا شروع کی۔ پس لشکرِ اسلام میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا: میں فلاں بن فلاں ہوں اور میری ماں فلاں عورت ہے، تو مجھے اور میری ماں کو گالیاں دے لے مگر رسول اللہ ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی سے باز رہ، اس سے وہ اور زیادہ برانگیختہ ہوا اور ہرزہ سرائی کااعادہ کیا، اس مسلمان نے بھی دوبارہ یہی کلمات دہرائے، پھر تیسری بار کہا کہ اگر تو نے اب کی بار بکواس کی تو اپنی تلوار سے تجھ کو چلتا کروں گا، اس نے پھر بیہودہ گوئی کی تو اس مردِ مجاہد نے اس پر حملہ کر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگا، یہ اس کے تعاقب میں تھا، یہاں تک کہ مشرکوں کی صفیں چیرتے ہوئے اسے تلوار سے زخمی کر دیا، بعد میں مشرکوں نے اسے بھی گھیر کر شہید کر دیا، یہ منظر دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں اس مجاہد کے طرزِ عمل پر حیرانی ہے جس نے اللہ تعالیٰ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی نصرت و حمایت کی۔(ابو اسحاق فزاری ۔ سیرت)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ ﷺنے فرمایا، ہاں۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعب کے پاس گئے اور اسے قتل کر دیا۔ حدیث میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ (صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ سنن ابوداؤد)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا کی باندی ام ولد تھی۔ وہ نبی ﷺ کو برا کہتی تھی اور آپ ﷺ کو سب و شتم کرتی تھی، وہ نابینا منع کرتے رہتے تھے مگر وہ باز نہیں آتی تھی۔ ایک رات جب وہ نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کر رہی تھی تو انہوں نے آ کر گیتی لے کر اس کو اس کے پیٹ پر رکھ کر دبایا، حتیٰ کہ اس کو قتل کر دیا اور اس کی ٹانگوں میں ایک بچہ آ کر اس کے خون میں لتھڑ گیا۔ صبح کولوگوں نے نبی کریم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے سب لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے۔ وہ نابینا لوگوں کو پھلانگتا ہوا آیا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں اس باندی کا مالک ہوں، وہ آپ ﷺ کو سب و شتم کرتی تھی، میں اس کو منع کرتا تھا لیکن وہ باز نہیں آتی تھی،اس سے موتیوں کی مانند میرے دو بچے بھی ہوئے اور وہ میری رفیقہ تھی، گزشتہ رات وہ پھر آپ ﷺ کو سب و شتم کر رہی تھی اور برا کہہ رہی تھی، میں نے ا س کے پیٹ میں گیتی رکھ کر اس کو دبایا، حتی کہ اس کو قتل کر دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا سنو! گواہ ہو جاؤ کہ اس کا خون رائیگاں ہے (یعنی اس کا کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہو گا)۔ (سنن ابوداؤد۔ سنن نسائی)

حضرت عرفہ بن الحارث کو مصر کا ایک نصرانی ملا جس کا نام مذقون تھا، انہوں نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نصرانی نے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی، انہوں نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ معاملہ پیش کیا، انہوں نے حضرت عرفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا ہم ان سے عہد کر چکے ہیں، حضرت عرفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہم اس سے اللہ عزوجل کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی ایذاء پر عہد کریں، ہم نے ان سے صرف اس بات کا عہد کیا تھا کہ ہم ان کو ان کے گرجوں میں عبادت کرنے دیں گے، اور اس بات کاعہد کیا تھا کہ ہم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے اور اس بات کا عہد کیا تھا کہ ہم ان کی حفاظت کےلیے لڑیں گے، اور اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ آپس میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں گے، لیکن جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم ان کے درمیان اللہ تعالیٰ عزوجل کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا، تم نے سچ کہا۔ (المعجم الاوسط۔ سنن کبریٰ)

حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی بہن مشرکہ تھی۔جب وہ نبی کریم ﷺ کے پاس جاتے تو وہ آپ ﷺ کو سب و شتم کرتی اور آپ ﷺ کو برا کہتی۔انہوں نے ایک دن اس کو تلوار سے قتل کر دیا۔ اس کے بیٹے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے، کیا امن دینے کے باوجود اس کو قتل کیا گیا ہے، اور ان لوگوں کے ماں باپ مشرک تھے۔ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خوف ہوا کہ یہ لوگ کسی اور بے قصور کو قتل کر دیں گے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس جا کر اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنی بہن کو قتل کیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیوں؟ کہا یا رسول اللہ ﷺوہ آپ ﷺ کے متعلق مجھے ایذا پہنچاتی تھی، نبی کریم ﷺ نے اس کے بیٹوں کےپاس کسی کو بھیجا تو انہوں نے کسی اور کانام لیا جو اس کا قاتل نہیں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ (المعجم الکبیر)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودیہ نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کرتی تھی، ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتیٰ کہ وہ مر گئی، نبی کریم ﷺ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ (السنن الکبریٰ)

جب مکہ فتح ہوا تو حضور ﷺ نے وہاں کے تمام باشندوں کو امن کی ضمانت دی، سوائے چار افراد کے، اور فرمایا ان چاروں کو قتل کر دو خواہ انہیں کعبہ شریف کے پردوں کے ساتھ لٹکے ہوئے پاؤ، وہ چاراشخاص یہ ہیں: عکرمہ بن ابوجہل، عبداللہ بن اخطل، مقیس بن حبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح۔

عبداللہ بن اخطل کعبہ شریف کے پردوں میں چھپا ہوا پایا گیا تو سعید بن حارث اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس کی طرف دوڑے مگر سعید جوان آدمی تھے، وہ عمار سے آگے نکل گئے اور ا سے قتل کر دیا۔

مقیس بن حبابہ کو لوگوں نے بازار میں جا لیا اور اسے تہ تیغ کر دیا۔

جہاں تک عکرمہ کا تعلق ہے، وہ سمندری سفر پر نکل کھڑا ہوا، سمندر میں طوفان آیا تو اہلِ کشتی نے کہا، اخلاص سے کام لو، یہ تمہارے دیوتا تمہارے کام نہ آئیں گے، اس پر عکرمہ نے کہا بخدا اگر سمندر میں اخلاص نجات دیتا ہے تو خشکی پر بھی اس کے سوا کوئی چیز بچا نہیں سکتی، اے اللہ ! میرا تیرے ساتھ عہد ہے کہ اگر تو مجھے اس مصیبت سے بچا لے تو محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کےہاتھ میں دے دوں گا۔ میں انہیں بہت زیادہ معاف کرنا والا اور کرم والا پاتا ہوں۔ اس کے بعد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

رہا معاملہ عبداللہ بن ابی سرح کا، تو وہ حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں چھپ گیا، وہ اسے بارگاہِ رسالت میں لے آئے اور سامنے کھڑا کر کے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ اس کو بیعت فرمائیے، نبی اکرم ﷺ نے تین بار سرِ اقدس اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، گویا ہر بار انکار فرما رہے ہوں، اس کے بعد اس کو بیعت فرمایا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف رخِ انور کر کے فرمایا:کیا تم میں کوئی سمجھ دار آدمی نہ تھا کہ جب مجھے بیعت سے ہاتھ روکتے دیکھا تو اٹھ کر اس کو قتل کر دیتا؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ ﷺ کے دل میں کیا ہے، آپ ﷺ نے آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں فرمایا؟ فرمایا: کسی نبی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ خیانتِ نظر سے کام لے۔ (نسائی)

ابنِ اخطل کے بارے میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے صدقات کا عامل مقرر فرمایا اور اس کے ساتھ ایک شخص بھیجا جو اس کی خدمت بجا لاتا تھا۔ اس کے بروقت کھانا تیار نہ کرنے کی وجہ سے طیش میں آ کر اس نے اسے قتل کر ڈالا، پھر بوجہ خوف، مرتد ہو گیا اور صدقات کے جانور بھی ہانک کر لے گیا۔ مزید برآں، وہ حضور ﷺ کی شان میں ہجویہ اشعار کہتا اور اپنی باندیوں کو اشعار کے گانے کا حکم دیتا تھا، پس یہ ہیں اس کے تین جرائم جو اس کے خون کو مباح قرار دیتے ہیں: ۱۔ قتلِ نفس ۲۔ ارتداد ۳۔ ہجو گوئی

اس واقعہ سے استدلال کرنے والے علماء کہتے ہیں کہ ابن اخطل قتلِ نفس کے بدلے میں قتل نہیں ہوا، کیونکہ بےگناہ کو قتل کرنے اور مرتد ہو جانے کی زیادہ سے زیادہ سزا یہ ہے کہ اسے قصاص میں قتل کر دیا جائے، جبکہ اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے شخص کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا جس کے اولیاء موجود تھے، اگر اس کے قتل کا حکم قصاص کے طور پر ہوتا تو اسے مقتول کے اولیاء کے حوالے کیا جاتا، پھر وہ چاہتے تو اسے قتل کر دیتے یا معاف کر دیتے ، یا پھر دیت لے کر چھوڑ دیتے۔

اسے مجرد ارتداد کی وجہ سے بھی قتل نہیں کیا گیا، کیونکہ مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، وہ مہلت مانگے تو اسے مہلت دی جاتی ہے، جبکہ ابن اخطل کی تو یہ حالت تھی کہ وہ بیت اللہ شریف کی پناہ لینے کے لیے بھاگا، اس نے امان کی خواستگاری کی، قتال ترک کیا اور اسلحہ پھینک دیا تاکہ حضور ﷺ اس کے معاملہ میں غور فرمائیں، مگر نبی اکرم ﷺ نے ان تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا۔ یہ مجرد ارتداد کی بنیاد پر قتل کرنے کا انداز نہیں، اس سے ثابت ہوا کہ اس کے قتل میں اس قدر سختی دراصل گستاخانہ کلمات اور ہجو پر تھی۔ گستاخ اگرچہ ارتداد بھی اختیار کرے تو وہ مرتد محض نہیں، اسے مطالبۂ توبہ سے پہلے قتل کر دیا جائے اور قتل میں تاخیر نہ کی جائے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ توبہ کے بعد اسے قتل کرنا جائز ہے۔ اس کی دلیل عبداللہ ابن ابی سرح کا واقعہ بھی ہے کہ جب اس نے توبہ کر لی تب بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ میرے بیعت کرنے سے پہلے (اس کی توبہ کرنے اور بیعت قبول کرنے کے درمیان) کسی نے اسے قتل کیوں نہ کر دیا؟ اس سے حضور ﷺ نے وضاحت فرما دی کہ اس کے قتل کا حکم بیعت اور امان سے ختم ہوا اور گناہ کا ازالہ اسلام سے ہوا۔ معلوم ہوا کہ گستاخ جب اسلام کی طرف لوٹ آئے تو اسلام گستاخی کا گناہ مٹا دیتا ہے مگر قتل کا جائز ہونا باقی رہتا ہے، یہاں تک کہ قتل کا ساقط کرنا اس ذات سے پایا جائے جو اس حق کی مالک ہے۔

گستاخِ رسول کے حکم میں فقہائے کرام کے اقوال

علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی توہین کرنا بالاجماع کفر ہے اور توہین کرنے والا واجب القتل ہے، خواہ توہین کا تعلق آپ ﷺ کی ذات سے ہو، آپ ﷺ کے دین سے ہو یا آپ ﷺ کی کسی صفت سے، اور یہ اہانت خواہ صراحتاً ہو یا کنایتاً یا تعریضاً ہو یا تلویحاً۔ اسی طرح کوئی آپ ﷺ کو بددعا کرے یا آپ ﷺ کا برا چاہے، آپ ﷺ کے عوارض بشریہ یا آپ ﷺ کے متعلق اشیاء یا اشخاص کا آپ ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بطریق طعن یا مذمت ذکر کرے، غرض جس شخص سے کوئی ایسا کام صادر ہو جس سے آپ ﷺ کی اہانت ظاہر ہو، وہ کفر ہے اور اس کا قائل واجب القتل ہے۔

قاضی عیاض مالکی علیہ الرحمہ محمد بن سحنون علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اہانت کرنے والا اور آپ ﷺ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی وعید جاری ہے اور امت کے نزدیک اس کا حکم قتل کرنا ہے، اور جو شخص اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اور اس مسٔلہ میں تحقیق یہ ہے کہ نبی ﷺ کو گالی دینے والا کافر ہے اور اس کو بالاتفاق قتل کیا جائے گا، اور یہی ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے، اسحاق بن راہویہ وغیرہ نے اس اجماع کو بیان کیا ہے، اور امام احمد اور محدثین کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام احمد علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے نبی کریم ﷺ کو گالی دی یا آپ ﷺ کی تنقیص کی، خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، اس کو قتل کرنا واجب ہے اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔

علامہ شامی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ کو گالی دی ہو، اس کی توبہ قبول نہ کرنا امام مالک علیہ الرحمہ کا مشہور مذہب ہے، اور امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی علیہما الرحمہ کا ایک قول یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور ایک قول یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ علامہ شامی علیہ الرحمہ عدمِ قبولِ توبہ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی لہذا اسے قتل کیا جائے گا۔اسی طرح علامہ ابوبکر فاسی نے کتاب الاجماع میں لکھا ہے کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص نے نبی کریم ﷺ کو صراحتاً گالی دی، اس کو قتل کرنا واجب ہے اور اس پر علماء کا اتفاق ہے، اگر وہ توبہ کرے گا تب بھی اس سے قتل ساقط نہیں ہو گا، کیونکہ یہ حد قذف ہے اور حد قذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔

فقہاء اسلام کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنے والا مرتد ہے اور واجب القتل ہے۔ اس پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرتد وہ شخص ہوگا جو پہلے مسلمان ہو، اگر کوئی غیر مسلم نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سو اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائےگا، اور گستاخی کا معنی یہ ہے کہ سیدنا محمد ﷺ یا انبیاء سابقین میں سے کسی نبی علیہ السلام کے متعلق ایسا لفظ بولے یا لکھے جو عرف میں توہین ہو تو ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے گا، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔

ابو المواہب عبکری فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پر بہتان باندھنے سے حد مغلظ یعنی قتل کی سزا لازم آتی ہے، خواہ بہتان طراز توبہ کرے یا نہ کرے، اور خواہ ذمی ہو یا مسلمان۔ اسی طرح دوسرے علماء نے بیان کیا کہ گستاخِ رسول ﷺ کو بلا تفریقِ مذہب قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور توبہ قبول نہ ہونے سے ان علماء کی مراد یہ ہے کہ توبہ سے سزائے قتل ساقط نہ ہو گی۔

قاضی شریف ابو علی بن ابی موسیٰ جو کہ نقلِ مذاہب میں قابلِ اعتماد ہیں، اپنی کتاب "ارشاد" میں نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرے، وہ واجب القتل ہے، اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، اور جو ذمی اس اہانت کا مرتکب ہو وہ بھی واجب القتل ہے،خواہ وہ اسلام لے آئے۔

ابو علی البناء "الخصال والاقسام" میں رقم طراز ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گستاخ واجب القتل ہے، اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اگر گستاخ کافر ہو پھر اسلام لے آئے تو صحیح مذہب یہ ہے کہ اس کو بھی قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا۔

علماء بیان کرتے ہیں کہ گستاخ کے واجب القتل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ کے ساتھ دو حق متعلق ہیں: حقِ خداوندی اور حقِ عبد، اور سزا سے جب اللہ تعالیٰ اور آدمی کے حقوق متعلق ہوں تو سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ جیسے محاربہ کی سزا ہے، کہ اس معاملہ میں اگر مجرم قابو میں آنے سے پہلے توبہ کر لے تو قصاص سے متعلق آدمی کا حق ساقط نہ ہو گا، البتہ اللہ تعالیٰ عزوجل کا حق ساقط ہو جائے گا۔

پس روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہ شاتمانِ رسول کی سزا موت ہے، جس پر عمل خود زمانۂ رسالت مآب ﷺ سے جاری ہے۔ بعض لوگ یہاں یہ شبہ لاتے ہیں کہ چونکہ حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں، لہذا اس طرح لوگوں کو قتل کروانا صفتِ رحمت کے خلاف ہے۔ جواب یہ ہے کہ بلاشبہ حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں، لیکن معترض نے صفتِ رحمت کا مطلب سمجھا ہی نہیں۔ اگر گستاخِ رسول کو قتل کرنا رحمت کے خلاف ہے تو پھر بدر میں ابوجہل اور دیگر کفار کو قتل کرنا کیوں رحمت کے خلاف نہیں؟ ساری عمر جہاد کرنا اور اللہ عزوجل کے دشمنوں سے لڑنا کیوں صفتِ رحمت سے متضاد نہیں؟ معترضین ان کی کیا تاویل کریں گے؟ ثابت ہوا کہ یہ محض غلط فہمی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

مزید برآں، جو لوگ ان واقعات کو رحمت کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ بتائیں کہ حضور ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنانے والا رب کیا ارحم الراحمین نہیں؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی رحم کرنے والا ہے؟ یقیناً نہیں۔ تو پھر وہ اپنے نافرمانوں اور کافروں کو دردناک عذابوں سے کیوں ڈراتا ہے؟ کیوں انہیں جہنم کی وعیدیں سناتا ہے؟ بلکہ جہنم اس نے پیدا ہی کیوں کی؟ کم فہموں کو کیا اس میں بھی خلافِ رحمت ہی نظر آئے گا؟ اللہ تعالیٰ عزوجل سمجھنے کی توفیق دے تو اس میں بھی رحمت کے پہلو نظر آتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ کے بعض بندے تو وہ ہیں جو بغیر جزا و سزا کو مد نظر رکھتے ہوئے، محض اللہ تعالیٰ عزوجل کی خاطر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض وہ ہیں جو ا س مقام کو نہیں پہنچ سکتے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی خوشخبریوں اور جنت کی نعمتوں کی طلب میں راہِ حق کو اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جن کو جنت کی کشش نہیں کھینچتی تو وہ سزا کے خوف اور عذابِ جہنم کے ڈر سے سیدھے راستے پر آ جاتے ہیں۔ اور جب کوئی بندہ ایک مرتبہ اللہ کے راستے پر آ جائے، تو امید ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ اس حقیقت کو بھی پا لے گا کہ جنت اور جہنم تو ثانوی چیزیں ہیں، اصل تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ مختصر یہ کہ یہ تمام اللہ تعالیٰ عزوجل کی حکمتیں ہیں، جن کو وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں تو بس حکم کی پیروی کرنا ہے۔ اور حکم ثابت ہو جانے کے بعد اس کو محض اپنی ناقص عقل کے ترازو پر تولتے ہوئے اس کا انکار کرنا جہالت اور گمراہی ہے۔

باب چہارم ۔ پاکستان میں ناموس رسالت کا معاملہ

اوپر کے تین ابواب میں مقامِ نبوت اور وجوبِ احترام نبوت کو بیان کرنے کے بعد گستاخی اور تنقیص کی ممانعت اور شاتمِ رسول کا شرعی حکم بیان ہوا۔ اس ساری تفصیل کو پڑھنے کے بعد ذرا اپنے آج کے ماحول پر نظر ڈالئے اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیجئے۔ آج ناموس رسالت جیسے قطعی اور غیر متنازعہ معاملے کو ایک اختلافی مسٔلہ بنا کر پیش کرنے اور اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ امت مسلمہ پر ایسا وقت بھی آنا تھا کہ عزت و احترامِ رسول ﷺ جیسے حتمی معاملے کو متنازعہ بنا کر اس پر مکالمہ اور مباحثہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا۔

انکار مکالمے یا مباحثے سے نہیں، مگر سوال یہ ہے کہ:

کیا مسلمانوں کو آپس میں ذاتِ الٰہی کے اثبات پر مباحثہ کرنے کی حاجت ہے؟ البتہ، یہ مباحثہ کسی دہریے یا خدا کے منکر سے ہو سکتا ہے۔

کیا مسلمانوں کو آپس میں توحیدِ الٰہی پر مباحثہ کرنے کی حاجت ہے؟ البتہ ، یہ مباحثہ کسی مشرک سے ہو سکتا ہے۔

کیا مسلمانوں کو آپس میں عقیدہ ختمِ نبوت پر مباحثہ کرنے کی حاجت ہے؟ البتہ ، یہ مباحثہ کسی قادیانی یا منکرِ ختمِ نبوت سے ہو سکتا ہے۔

کیا مسلمانوں کو آپس میں ناموسِ رسالت اور اس کے شرعی حکم پر مباحثہ کرنے کی حاجت ہے؟ البتہ ، یہ مباحثہ کسی منکرِ ناموسِ رسالت سے ہو سکتا ہے۔

پس، اگر کسی کو ناموسِ رسالت یا گستاخِ رسول کی سزا پر مباحثہ کرنا ہے تو پہلے وہ اپنی حیثیت کی وضاحت کرے اور اپنا منکرِ ناموسِ رسالت ہونا قبول کرے، انشاء اللہ علمائے اسلام غلامیٔ رسول ﷺ کا حق ادا کرنا جانتے ہیں اور اپنے نبی ﷺ کی عزت و حرمت اور ان کی تنقیص کرنے والے کی شرعی سزا کا ثبوت نصوصِ قطعیہ سے باحسن ثابت کر سکتے ہیں۔

ایک اور بحث اس ضمن میں توہینِ رسالت کے قانون (۲۹۵۔سی) کے بارے میں کی جا رہی ہے اور یہ مطالبہ زور و شور سے بعض حلقے کر رہے ہیں کہ اس قانون پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے۔ مذکورہ بالا حلقے یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ قانون ایک فوجی آمر نے جمہوری تقاضوں کے خلاف زبردستی لاگو کیا تھا۔ حالانکہ ایسے بہت سے حضرات جو اس قانون کی تاریخ سے واقف ہیں اور بعض تو اس عمل کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں جس کے ذریعے اس قانون کو پاکستان میں لاگو کیا گیا، اس معاملے کی تفصیلی وضاحت تقریر و تحریر کے ذریعے کر چکے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قانون لاگو کرنے کے لیے وہ تمام تقاضے پورے کیے گئے جو کسی بھی قانون کو نافذ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ حتیٰ کہ اس قانون کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا، جہاں ایک فُل بنچ کے سامنے اس پر بحث ہوئی اور بالآخر عدالت نے اسے صحیح قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

آئیے اس مطالبے کا ایک اور طرح سے جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس قانون پر پارلیمنٹ میں مزید کسی بحث کی ضرورت ہے؟ جیسا کہ پچھلے ابواب میں اس بات کا ثبوت دیا گیا کہ ناموس رسالت مسلمانوں کا قطعی اجماعی مسٔلہ ہے جس میں امت مسلمہ کا کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔ نہ تو گستاخِ رسول کا کافر و مرتد ہونا مختلف فیہ مسئلہ ہے، نہ شاتمِ رسول کی سزا میں فقہاء کی رائے مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قانون کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک اس کا قانونِ شرعی ہونا، اس کے لیے شرع سے ثبوت چاہیے۔ دوسرا اس کا ملک میں نفاذ، اس کے لیے بعض قانونی اور دستوری مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔

جہاں تک ناموس رسالت کے قانون کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ شرعیت مطہرہ میں اس کی حیثیت مسلّم اور ثابت ہے۔ اب یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ جب شرع کسی چیز کا حکم کر دے تو اس کی اطاعت کے لیے مزید کسی دنیاوی قانون کی حاجت نہیں ہوتی۔ دیکھئے ہم پانچ وقت کی نماز اس لیے ادا نہیں کرتے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس بارے میں کوئی قانون پاس کیا ہے، اسی طرح ہم رمضان کے روزے اس لیے نہیں رکھتے اور زکوٰۃ اس لیے ادا نہیں کرتے کہ سینیٹ کی کسی کمیٹی نے اس کی منظوری دی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ چیزیں ہم پر شریعت نے فرض کی ہیں۔ خدانخواستہ اگر اس ملک کی پارلیمنٹ شراب نوشی کو جائز قرار دے کر اس کی اجازتِ عام دیدے تو کیا وہ ہمارے لیے حلال ہو جائے گی؟ کیا قادیانیوں کو قانوناً اقلیت قرار دئیے جانے سے پہلے ختمِ نبوت کے منکرین مسلمان تھے؟ ہرگز نہیں۔ معلوم ہوا کہ نصوصِ شرعیہ سے ثابت شدہ احکام ملکی قوانین کے محتاج نہیں ہوتے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ بعض احکامات کے عملاً اطلاق کے لیے بحیثیت قانون ان کا نفاذ بہتر ہوتا ہے، جیسا کہ ختمِ نبوت کے معاملے میں قادیانیوں کو قانوناً اقلیت قرار دیا جانا۔ اس قانونی نفاذ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ریاست اس معاملے کو اپنی ذمہ داری میں نہ لے تو بہت سے فیصلے عدالتوں کے بجائے سڑکوں اور گلیوں میں ہونا شروع ہو جائیں گے جن سے فتنہ اور فساد پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اب جب کہ ناموسِ رسالت کا قانون الحمد للہ پاکستان میں باقاعدہ نافذ ہے، تو اس کے خلاف زہر اگل کر اور نئی نئی ابحاث چھیڑ کر لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنا کسی لحاظ سے درست نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس قانون میں کوئی سقم یا کمزوری ہے (اگر کوئی ہے) تو اس کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ عدالتیں موجود ہیں جہاں پوری احتیاط کے ساتھ علمائے کرام کے مشورے اور رہنمائی کی روشنی میں اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ انتہائی غیر موزوں ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ایسے لوگ اس پر کھلے عام اظہار خیال کریں جو شریعت کے بنیادی اصولوں تک سے واقف نہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا "آزاد" میڈیا باقاعدہ ایک فتنے کی نشونما کر رہا ہے جو نام نہاد آزاد خیال، مذہب بیزار قوتوں کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے۔ آج ٹی وی پر وہ خواتین اسلام کی تشریح بیان کرتی نظر آتی ہیں جن کے لباس ستر پوشی کے معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔ ایسے خود ساختہ "مفکر" اور "دانشور" بنیادی عقائد پر اظہار خیال کرتے پائے جاتے ہیں جو بنیادی احکام و فرائض کی جزئیات تک سے واقفیت نہیں رکھتے۔ سول سوسائٹی کے رد عمل کے عنوان سے ایسے منظر دکھائے جاتے ہیں جن میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں شمعیں لیے اور چند خواتین ہاتھوں میں مائیک لیے گلے پھاڑ کر ایک بدزبان، بدبخت، گستاخ کے حق میں راگ الاپتی نظر آتی ہیں۔ بعض کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ بھی دکھائے گئے جن پر جلی حروف میں لکھا تھا "مولوی کا اسلام قبول نہیں"۔ بہت خوب، لیکن معاف کیجئے گا، اسلام تو مولوی ہی سے ملے گا، کیونکہ علمِ دین کے ورثاء تو بہرحال علمائے کرام ہی ہیں، اور جو لوگ ان علماء سے بیزار ہیں وہ بیچارے سڑکوں پر کھڑے ہو کر گانے ہی گائیں گے اور اسی کو "اسلام" سمجھتے رہیں گے۔ مقامِ عبرت یہ ہے کہ ایک شاتمِ رسول کے مرنے کے بعد اس پر گانے کے لیے گویے تو مل جاتے ہیں لیکن اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے کوئی امام نہیں ملتا، اور بمشکل تلاش بسیار کے بعد سیاسی جماعت سے منسلک کسی "ملا نما" کو جنازے کے آگے کھڑا کرنا پڑتا ہے (ایسی بدنصیبی سے ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتےہیں)۔

یہاں اس فتنے کے چند کرداروں کے بارے میں کچھ معلومات بھی پیش کر دی جائیں تو مناسب ہو گا تاکہ ہمارے وہ بھولے بھالے بہن بھائی جو زیادہ معلومات نہیں رکھتے، وہ ان کے مکروہ جال میں پھنسنے سے محفوظ رہیں۔ اس فتنے کے روحِ رواں تو بعض نام نہاد دانشور، مفکر، روشن خیال مذہبی سکالر ہیں، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا اس فتنے کو پھیلانے اور اسے ہوا دینے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے، جو جانے انجانے میں اس بیج کی آبیاری کر رہا ہے اور اسے پھلنے پھولنے کا موقع دے رہا ہے۔ بہرحال، ان کرداروں میں ایک اہم نام جاوید احمد غامدی کا ہے، اور دوسرا خالد ظہیر کا۔ یہ دونوں حضرات مذہبی جدت پسندی کا لبادہ اوڑھے، قانونِ ناموسِ رسالت کی مخالفت میں آج کل پیش پیش ہیں۔ دعویٰ تو یہ لوگ دلیل کا کرتے ہیں لیکن اپنے فاسد خیالات کے ثبوت میں ذاتی تاویلات کے علاوہ ان کے پلے کچھ بھی نہیں۔

اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہاں ان میں سے صرف ایک شخص (خالد ظہیر) کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے جسے جاننے کے بعد آپ خود اس بات کا فیصلہ کر سکیں گے کہ کیا یہ شخص اس قابل ہے کہ اپنے دینی اور مذہبی معاملات میں اس پر اعتبار کیا جائے اور اس کی رائے کو کوئی اہمیت دی جائے۔ اس ضمن میں خالد ظہیر کی ویب سائٹ سے کچھ مواد نقل کیا جا رہا ہے، اسے بغور پڑھئے:



https://www.khalidzaheer.com/qa/984

Question:
My current understanding is as follows:

We have two main sources of God's system (besides our conscience).


1) Quran, the book of God

2) Sunnah of the last prophet (peace be upon him).


I am confused on the understanding of the word "Sunnah".

Javed Ahmad Ghamidi convinced me that the word Sunnah would mean worship methods and other practices that reached us from Prophet Mohammad (peace be upon him) through the crowd.

Quran and Sunnah both reached us through the same source "crowd".

I have always been reluctant to accept hadees books as part of Islam mainly because I think God's religion cannot be based on hearsay. That is why Javed Ahmad Sahib's argument convinced me.

I was living happily thereafter until I got a chance to have an open minded discussion with a Mufti Sahib yesterday. I shared with him my position and asked him to tell me along with reasons if I am wrong.

He put forward a very basic argument and I was surprised I had nothing to say.

He said, if I am ready to accept that Sunnah has reach us through the crowd then why it is hard for me to accept that Sunnah can also reach us in written form through the same crowd?

Whatever is written in hadees books is also practiced by people (at least a group of people). Before hadees books were written down (about 200 years after the demise of Prophet pbuh), his saying were practiced by people although their written form did not exist at that time.

If I can say that methods implemented in the crowd is "sunnah" then what arguments do I have to exclude what is written in hadees books from sunnah category. The content of Hadees books' is a subset of what came to us though the crowd; as it is also practiced by people (at least by some group of people), besides the fact that it exist in written form as well.

Please spare some time to throw some light on this topic.

Here is another way of putting the question:

Lets take out hadees books out of the equation for a minute. If we want to define Sunnah in terms of what came to us through the crowd then how can we say that only A, B, and C will be considered as Sunnah, while D, E, and F will not be considered as Sunnah; although all A, B, C, D, E, and F are practiced by people and that is how they reached to us. And it happens to be that D, E, F are also written in hadees books.

God knows the best. May God guide me in the right direction.

Response:
It is good to know that you keep thinking about your religion with an open mind and you also allow others to criticise your understanding in the light of arguments. As long as you take arguments on their merit, even though you can at times be wrong, you will never be led astray, insha'Allah. I hope the Mufti Sahib you talked to and his students and followers also adopt the same approach.

The idea of religion coming to us through a crowd rather than an individual is very valid. It is indeed what distinguishes the reliable sources of religion (Qur'an and Sunnah) from the less reliable ones (hadith).

Indeed Mufti Sahib is right in claiming that Sunnah and Hadith are both followed by the crowd. However, the crowd of Sunnah started practising it right from the time of the prophet, alaihissalaam, and the crowd of hadith followed it more than two hundred years after the demise of the prophet, after hadith was collected and published. Prior to that event, hadith was khabare ahad: a report transmitted by one or a few individuals. Therefore, one shouldn't be confused by the mere mention of the involvement of crowd. The two hundred years from the time of the prophet onwards is critical. Whatever religious practices were followed by the crowd in that period were a part of the religious message of Islam. Whatever else was available could only be an explanation of it.

It is not correct to say that hadith is a subset of Sunnah. It is the other way round in fact. Hadith mentions lots of information about the prophet, alaihissalaam, and his times, while Sunnah is only his religious practice which was given to everyone to follow.

The only book of hadith that appeared in the second century Hijrah, Mauta Imam Malik, mentions hadith as a distinct source from Sunnah and Imam Malik expresses his clear preference for Sunnah compared to hadith.



https://www.khalidzaheer.com/qa/985

Question:
How would a layman person like me distinguish between the actual Sunnah and non-Sunnah practices? What criteria would one use?

Response:
Let's take a few examples: Salat, Hajj, circumcision (khatna), beard, amamah, and miswak (washing teeth with a tree's branch).

While the first three practices are very much religious in nature and are followed by Muslims all over the world, the rest of the three are followed by a few Muslims claiming them to be religiously desirable or binding, but they don't have universal acceptance amongst Muslims the world over. The first three practices are Sunnah (even though circumcision does not find a mention in the Qur'an) while the last three are hadith-based practices.

The testing questions for hadith-based practices to qualify as Sunnah are these: I) Is the practice religious in nature? 2) Was it given by the prophet to all Muslims in a way that it started getting practised from day-one and has continued to date?

The answer is yes for the first three practices. Beard and amamah are regarded as Sunnah by some religious people based on a few mentions in hadith but not all practising Muslims the world over follow them. Many scholars in Egypt and elsewhere in the Arab world are beard-less and very few people put on amamah. Miswak is used by many religious people for cleaning teeth but a large number of them use other methods for cleaning them.

We do not find such variations amongst Muslims in the case of funeral prayers, burying the dead, Eid and Jumu'ah prayers etc. As we find in the case of beard, amamah, and Miswak.

In other words, there were practices which started right from the beginning and which are still unanimously followed by Muslims. And there are those which are hadith-based but aren't widespread. That's what distinguishes a Sunnah practice from a non-Sunnah one.

Interestingly, there is a widespread practice which hadith helps us in knowing that it wasn't introduced by the prophet as Sunnah but was simply allowed by him: Taravih in Ramzan after Isha. Although it is happening everywhere now, it wasn't so during the times of the companions.

I must also clarify that if a certain practice doesn't qualify as a Sunnah, it doesn't mean that it cannot be followed at all. People can wear beards and amamahs. But they should not claim that it is a practice given by the prophet to be followed by all, either as a binding requirement or as something religiously desirable.

A bid'ah is a condemned religious practice which has no religious basis even in hadith and yet some Muslims have introduced it as Sunnah. It is condemned because a false, misleading claim is made that it is a religious practice even though it wasn't introduced by the prophet, alaihissalaam.



https://www.khalidzaheer.com/qa/989

Question:
"While the first three practices are very much religious in nature and are followed by Muslims all over the world, the rest of the three are followed by a few Muslims claiming them to be religiously desirable or binding, but they don't have universal acceptance amongst Muslims the world over."

I brought it up in discussions with one of Mufti Sahib's students. The person raised following point regarding the difference between "following the practices" and "knowing that practices are part of Islam and not following them".

In order to find out universal acceptance of these practices we should do a survey on scholars and not on followers, since most of the times a layman does not give importance to the religious practices. For example 8 out of 10 people may not keep beard but 6 out of these 8 might say that beard is part of Islam even though they do not keep one. According to this person 80% to 90% Muslims in the world would say that keeping a beard is a part of Islam and so is true in the case of Moeez.

How can one do a survey on what is the consensus of the most of the scholars on these two practices as part of Islam?

If let's say it turned out that 90% of the scholars believe that these practices are part of Islam, would that fall under the definition of "Sunnah" that has reached us through the crowd.

If you have some time please share your thoughts in this regards.

Response:
If I have to make judgement about whether a certain practice is a Sunnah or not I will decide it on the basis of two criteria: I) Was the practice in question religious in nature and 2) Was it followed by all Muslims of the first generation of Muslims (and therefore the next three or four) as a religious practise. The opinion of the majority of scholars of today would not matter in this regard because their opinion could have been converted when hadith of the third century Hajrah became famous.

I mentioned in my previous reply that while prayers passed both tests, beard and Miswak, even though regularly practised by the prophet, didn't become a universal religious practice like salat did. It did not become universal because it wasn't religious in nature (second criterion), not because it wasn't practised by Muslims in a majority all throughout the last fourteen hundred years.

A religious practice should be followed by all practising Muslims, not some or many, in all parts of the Muslim world in order for it to qualify as Sunnah. If you go to some remote Muslim town or village of Africa, you will find salat, fasting, burial, Eid etc. getting practised. You may not find men keeping beard and people doing Miswak. It is because, as I mentioned earlier, one category of practices was preserved by God as He did in the case of Qur'an, while the other was not preserved by Him.

You can find a similar example in the case of the Qur'an. Although the Qur'an is one book, fully preserved from God, the majority of Muslim scholars today believes that there were several versions of it. Ask Mufti Sb or his student. This strange understanding is based on hadith. It is attempted to be explained through equally strange arguments. Does the fact that the majority of scholars today believe that the Qur'an has several versions (several ways of reciting it) mean that the claim is really true? The fact is that there is only one Qur'an from God which is recited in exactly the same way. All other claims of versions are not the Qur'an.

In other words, if Mufti Sb's student agrees that a minority of scholars disagrees with the claim that beard and Moeez are Sunnah, that in itself is a proof of the reality that they are not. In case of Sunnah it is not majority but unanimity that counts. All companions did it, likewise all religious Muslims of later times did it.


مندرجہ بالا سوالات اور خالد ظہیر کی طرف سے دیے گئے ان کے جوابات سے یہ راز کھلا کہ اس شخص کا تعلق اس فتنہ انکارِ حدیث سے ہے جو برصغیر پاک و ہند میں قریباً ایک ڈیڑھ صدی قبل پیدا ہوا۔ اس کو چکڑالوی اور پرویزی فتنے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگرچہ آغاز ہی سے علمائے کرام نے اس خبیث فتنے کا تعاقب کر کے اس کا سدِّ باب کر دیا تھا اور یہ تقریباً ناپید ہو چکا تھا، لیکن موجودہ دور میں جاوید غامدی اور خالد ظہیر جیسے لوگوں نے ایک مرتبہ پھر اسے زندہ کرنے کا عَلَم اٹھایا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے اس مرتبہ ایک نیا پینترا بدلا ہے اور محض اہلِ قرآن کہلانے اور حدیث کا مطلقاً انکار کرنے کی بجائے اب ایک نیا طریقہ اپنایا ہے اور قرآن کے ساتھ "سنت" کا اضافہ کیا ہے اور اس طرح انتہائی عیاری سے حدیث کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حدیثِ رسول ﷺ کی حجیت کے خلاف ان کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں، بلکہ وہی لغو اور بھونڈی باتیں جو ان سے پہلوں (عبداللہ چکڑالوی اور غلام احمد پرویز وغیرہ) نے اپنے ان روحانی آباؤ اجداد سے مستعار لی تھیں جنہیں "مستشرقین" کہتے ہیں۔ یہ وہ یہودی و نصرانی محققین ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام پر تحقیق میں گزاریں اور قرآن و حدیث کا مطالعہ کر کے اپنی فاسد تاویلات کے ذریعے ہمیشہ دینِ اسلام پر کیچڑ اچھالتے رہے اور نبی کریم ﷺ کی مقدس ذات پر ناپاک حملے کرتے رہے۔ ان لوگوں کی کتابیں اس طرح کی مغلظات سے بھری پڑی ہیں۔ ان لوگوں کا ایک پسندیدہ عنوان حدیث رسول ﷺ کی مخالفت کرنا بھی ہے، اور منکرینِ حدیث کے دلائل کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ملے گی جو کسی نہ کسی مستشرق نے اس سے پہلے بیان نہ کی ہو۔ الغرض اس فتنہ انکارِ حدیث کی اصل یہود و نصاریٰ کی وہ تحریریں ہیں جو انہوں نے اسلام پر تحقیق کے نام پر کی ہیں، حالانکہ درحقیقت یہ تمام تحریریں ان کی اسلام دشمنی کا کھلا ثبوت ہیں۔ اس تمام تفصیل کے بعد بھی کیا اس بات میں کوئی شک ہو سکتا ہے کہ خالد ظہیر جیسے لوگوں کی بات مذہبی معاملات میں بالکل غیر معتبر ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کی بات سننا یا اس کو قابل اعتنا سمجھنا بھی انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ عوام اپنی قلتِ علم کی وجہ سے ان کی چرب زبانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لہذا ان لوگوں کو سننے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے کہ کہیں اپنے باطل نظریات کا کوئی اثر دماغ پر نہ چھوڑ جائیں، جو کسی بدمذہبی یا عقیدے کی کمزوری کا موجب بن جائے۔

یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ اس تحریر کا مقصد خالد ظہیر کی خرافات کا ردّ کرنا نہیں، بلکہ مقصود صرف اس کی حقیقت کو آشکار کرنا ہے۔ جہاں تک اس کی تحریر کی لغویت کا تعلق ہے تو اس فتنہ کے رد میں بہت سا علمی مواد پہلے سے موجود ہے جس میں ان لوگوں کے تمام تر اعتراضات کے مدلّل جوابات دیے جا چکے ہیں۔ اگر کسی کو اس سلسلہ میں مطالعہ کی حاجت ہو تو جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمہ کی "سنتِ خیرالانام" نہایت مفید کتاب ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود نہایت جامع تحریر ہے اور عوام و خواص دونوں کے لیے یکساں مفید ہے۔

خالد ظہیر کے تعارف کے بعد ذرا ملاحظہ کیجئے کہ یہ شخص کس قسم کے خیالات کا مالک ہے۔ ذیل میں ا س کی ویب سائٹ سے ایک اور مضمون نقل کیا جا رہا ہے جو اس کے خبث باطن کی عکاسی کرتا ہے۔ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا کوئی مدعی اسلام اس حد تک جا سکتا ہے اور اس قسم کی سوچ کا مالک بھی ہو سکتا ہے؟ غور سے پڑھیے:

جاری ہے-
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440362 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.