تقلید شخصی کا تصور

ایک ذی شعور شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف چار ائمہ کی تقلید ہی کیوں؟
جن ائمہ نے اصول اجتہاد وضع کیے ہیں وہ چار ہیں: امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ۔ اصول اجتہاد وضع کرنے اور تمام مسائل شرعیہ میں اجتہاد کرنے کے لیے جس ژرف نگاہی اور وسعت علم کی ضرورت ہوتی ہے وہ انھی حضرات ائمہ کا حصہ تھی۔ اللہ ٰ عزوجل کی عادت جاریہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسے مردان خدا پیدا فرما دیتا ہے جو اس ضرورت کو پورا کر سکیں۔ منقول ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کو چھ لاکھ احادیث مع اسانید اور راویوں کے احوال کے یاد تھیں۔ وہ ہر حدیث کے راوی کی پوری سیرت اور تاریخ کو یاد رکھتے تھے۔ صحاح ستہ کے باقی مولفین میں سے ہر ایک کو ایک ایک لاکھ احادیث مع اسانید کے یاد تھیں۔ آج کل ایسے حافظہ والے لوگ نہیں ہوتے کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی، نہ فرعیات فقہیہ کی تدوین کی ضرورت ہے۔ اس لیے نہ اب امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ایسے لوگ ہیں جو علوم شرعیہ میں ان جیسی مہارت اور باریک بینی رکھتے ہوں۔

ہر چند کہ ائمہ اربعہ کے بعد اب کسی میں اصول اجتہاد وضع کرنے کی اہلیت ہے نہ اس کی ضرورت، اس کے باوجود اس کا کوئی قائل نہیں کہ اب کوئی شخص مجتہد مطلق نہیں ہو سکتا، اور تمام مسائل شرعیہ میں اجتہاد اور اصول اجتہاد وضع کرنے کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اگر کوئی شخص ائمہ اربعہ کی طرح علوم شرعیہ میں گہرائی اور گیرائی پیدا کر لے تو اجتہاد فی الشرع کا دروازہ اب بھی کھلا ہو ا ہے۔ البتہ پیش آمدہ مسائل میں جزوی طور پر اجتہاد ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور اس دور کے علماء راسخین یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً ریل گاڑی اور طیارے میں نماز، لاؤڈ سپیکر پر نماز کا جواز اور عدم جواز، رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر روزہ اور عید، ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا جواز شرعی یا عدم جواز، ایلو پیتھک کی خشک اور مانع دواؤں کا استعمال، اسپرٹ اور الکوحل سے مرکب اشیاء کے استعمال سے کپڑوں کی طہارت اور نجاست، بدن انسانی میں خون لگانے کا مسٔلہ، انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور پوسٹ مارٹم وغیرہ، یہ اور ان جیسے بہت سے مسائل عصر حاضر کی پیداوار ہیں۔

کیا اختلافی مسائل میں ہر امام کا قول صحیح ہے؟
فقیہ ابواللیث علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علماء نے مسائل مختلف فیہ میں کلام کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ دونوں قول صواب ہیں اور بعض نے کہا کہ ایک قول صواب ہے اور دوسرا خطا ہے، مگر خطا کرنے والے پر گناہ نہیں، اور یہی قول درست ہے۔ اور بعض نے کہا کہ ایک قول تو صواب ہے اور خطا میں بھی ثواب ہے۔

پہلے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے بنی نضیر کے کھجور کے باغ کو کاٹ ڈالنے کا حکم ارشاد فرمایا، ابولیلی عامری مازنی چن چن کر عجوہ کھجور کے درخت کاٹتے تھے اور عبداللہ بن سلام دوسری قسم کے، ابولیلی سے کسی نے پوچھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عجوہ کیوں کاٹتے ہیں؟ فرمایا اس لئے کہ اس میں دشمنوں کا نقصان زیادہ ہے، اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری قسم کی کھجور کیوں کاٹتے ہیں؟ فرمایا، اس لئے کہ یہ درخت اب رسول اللہﷺ کے ہو گئے، سو میرا جی چاہتا ہے کہ عجوہ، جو عمدہ کھجور ہے، باقی رہے۔ پس اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
"جو درخت تم نے کاٹے یا ان کی جڑوں پر قائم چھوڑ دیئے یہ سب اللہ کی اجازت سے تھا"۔ (پارہ 28 ،الحشر : 5)

پس اللہ عزوجل نے دونوں کا فعل پسند فرمایا۔

دوسرے گروہ کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا، کہ ان دونوں میں فیصلہ کرو۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ آپﷺ کے ہوتے ہوئے؟ فرمایا "ہاں" انہوں نے پھر عرض کیا کہ اس میں مجھے کیا فائدہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا "تیرا یہ فائدہ ہے کہ اگر تیرا فیصلہ حق واقع ہوا تو تمہیں دس (10) نیکیاں ملیں گی اور اگر خطا ہوا تو ایک نیکی ملے گی"۔ پس نبی اکرمﷺ نے بیان فرما دیا کہ مجتہد کبھی خطا کرتا ہے اور کبھی صواب۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ "مجھے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اختلاف سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ اس لئے کہ اگر صحابہ اختلاف نہ کرتے تو بعد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کسی کو اختلاف جائز نہ ہوتا، اور جب اختلاف جائز نہ ہوتا تو عوام پر بڑی تنگی ہوتی"۔

اور قاسم بن محمدعلیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اختلاف مسلمانوں کے لئے رحمت ہے۔

اختلافِ ائمہ میں فوائد
ائمہ اربعہ کے اختلاف کا ثمرہ امت کے لیے وسعت عمل کی گنجائش ہے، جو حدیث نبوی ﷺ کے مطابق امت کے حق میں عین رحمت ہے۔ائمہ اربعہ کے اجتہادی اختلاف کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کیے ہوئے تمام اعمال مسلمانوں کے طریقہ ہائے عبادات میں قیامت تک کے لیے محفوظ ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جس طریقہ سے بھی کوئی عبادت کی، وہ طریقہ کسی نہ کسی امام کا مذہب بن گیا اور مسلمانوں کے عمل میں باقی اور محفوظ ہو گیا۔

چار ائمہ میں سے صرف ایک معین امام کی تقلید کیوں ضروری ہے؟

آئیے اب اس بات کا جائزہ لیں کہ علمائے کرام مقلدین کے لئے صرف ایک امام کی تقلید کو کیوں ضروری قرار دیتے ہیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ ائمہ کی اتباع کو کیوں ممنوع قرار دیا جاتا ہے؟ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے ہر امام کے اصول اجتہاد الگ الگ اور باہم مختلف ہیں۔ انھوں نے نیک نیتی، اخلاص اور اپنے علم کے مطابق کسی چیزکا صحیح حکم معلوم کرنے کے لیے وہ اصول وضع کیے۔ مثلاً جب مطلق اور مقید میں تعارض ہو تو امام شافعی مطلق کو مقید پر محمول کر دیتے ہیں، امام ابوحنیفہ اس صورت میں ہر ایک کو اپنے محل پر رکھتے ہیں۔ امام شافعی قرآن کے عموم اور اطلاق کی خبر واحد سے تخصیص جائز قرار دیتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں۔ امام شافعی کے نزدیک قرآن مجید حدیث کا اور حدیثِ متواتر قرآن مجید کے لیے ناسخ نہیں ہے جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک قرآن مجید حدیث کے لیے اور حدیثِ متواتر قرآن مجید کے حکم کے لیے ناسخ ہو سکتی ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک حدیث مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے جبکہ امام شافعی کے نزدیک نہیں۔ جب نبی کریم ﷺ کے قول اور فعل میں (بظاہر) تعارض ہو تو امام ابو حنیفہ آپ ﷺ کے قول کو مقدم کرتے ہیں اور امام شافعی آپ ﷺ کے فعل کو، علیٰ ہذالقیاس۔ اس لیے جو شخص مختلف ائمہ کی تقلید کرے گا وہ اپنے دینی اعمال میں تضاد کا شکار ہو گا۔ مثلاً کسی مسٔلہ میں مطلق کو مقید پر محمول کرے گا اور کسی میں نہیں کرے گا، بلکہ ایک ہی مسٔلہ میں کبھی مطلق کو مقید پر محمول کرے گا اور کبھی نہیں کرے گا، کبھی آثار صحابہ کو احادیث پر مقدم کرے گا اور کبھی نہیں کرے گا، کبھی کہے گا کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ گیا ہے اور کبھی کہے گا نہیں ٹوٹا، اور بعض لوگ اپنی نفسانی خواہشات پر عمل کرنے کے لیے اقوال مجتہدین میں سہارا تلاش کریں گے۔ مثلاً عورت کو ہاتھ لگانے سے امام شافعی کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک نہیں ٹوٹتا، اور خون نکلنے سے امام ابو حنیفہ کے نزدیک وضو ٹوٹ جاتا ہے اور امام شافعی کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اب فرض کیجئے ایک شخص نے اپنی بیوی کے ہاتھ کو چھوا بھی ہے اور اس کا خون بھی نکل آیا ہے، تو دونوں اماموں کے نزدیک اس کا وضو ٹوٹ گیا، لیکن وہ شخص وضو کی زحمت سے بچنے کے لیے کہتا ہے کہ چونکہ احناف کے نزدیک عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے بیوی کو ہاتھ لگانے سے حنفی مذہب کے مطابق میرا وضو نہیں ٹوٹا، اور چونکہ خون نکلنے سے شوافع کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے خون نکلنے سے شافعی مذہب کے مطابق میرا وضو نہیں ٹوٹا۔ درحقیقت یہ شخص امام ابو حنیفہ کا مقلد ہے نہ امام شافعی کا، بلکہ یہ اپنی ہوائے نفس کا مقلد ہے ۔ اور قانونی امور میں تو اور زیادہ مشکلات پیش آئیں گی۔ ایک حنفی شخص کوئی جرم کرنے کے بعد فقہ شافعی کے قانون سے اپنے آپ کو آزاد کرا لے گا اور سزا سے بچ جائے گا، اور شافعی شخص جرم کر کے فقہ حنفی کے قانون سے اپنے آپ کو بچا لے گا۔ مثلاً ائمہ ثلاثہ کے نزدیک یتیم کے مال پر زکوٰۃ ہے اور احناف کے نزدیک نہیں ہے۔ اب کسی شافعی شخص نے یتیم کے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو وہ حنفی فقہ سے اپنے آپ کو بچا لے گا۔ اسی طرح چوری کے نصاب میں ائمہ کا اختلاف ہے اور ایک مسلک کا مقلد چوری کر کے دوسرے مسلک کی فقہ سے اپنے آپ کو بچا لے گا۔ اس طرح شریعت اور قانون انسانی خواہشات کے تابع ہو جائیں گے، بلکہ کوئی شخص کسی حکم کا مکلف نہیں رہے گا، کیونکہ جب اس پر کوئی چیز واجب ہو گی تو وہ دوسری فقہ سے اس وجوب کو ساقط کر دے گا، اور جب اس پر کوئی چیز حرام ہو گی تو وہ دوسرے مجتہد کے قول سے اس کو حلال کر لے گا، اور انسان شریعت اور قانون دونوں سے آزاد ہو جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان ایک امام کی تقلید کرے، اور ایک شخص کے لیے متعدد ائمہ کی تقلید ناجائز اور تقلید شخصی واجب ہے۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410060 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.