اسرائیل ۔۔۔ الہامی پیشگوئی یا صیہونی منصوبہ؟
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
یہ سوال آج بھی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، مذہب اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے: "کیا اسرائیل کا قیام کسی الہامی کتاب میں پیش گوئی کیا گیا تھا یا یہ صرف صیہونیت کا سیاسی منصوبہ ہے؟" یہودی روایات، صیہونی بیانیہ اور اسلامی عقائد—تینوں اس سوال پر مختلف زاویہ نظر رکھتے ہیں، لیکن تاریخی شواہد اور دینی متون کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ حقیقت محض ایک مذہبی وعدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔
تورات اور "سرزمین موعود" کا تصور یہودیوں کی مذہبی کتاب "تورات" میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ایک وعدے کا ذکر آتا ہے: "اس روز خداوند نے ابرام (ابراہیم) سے عہد باندھا، کہ تیری نسل کو میں یہ زمین دیتا ہوں، مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک۔" صیہونی تحریک نے انہی آیات کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ فلسطین ان کا "مقدس حق" ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کئی حوالوں سے سوالات کی زد میں ہے۔
مذہب کے پردے میں سیاسی تحریک صیہونیت ایک جدید سیاسی تحریک ہے جو 19ویں صدی کے آخر میں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں ابھری۔ ہرزل بذاتِ خود سیکولر یہودی تھا اور اس کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک محفوظ قومی ریاست قائم کرنا تھا، نہ کہ کسی الہامی وعدے کو پورا کرنا۔ اس تحریک نے مذہب کو صرف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ اسرائیل کا قیام خدا کی مرضی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کئی یہودی مذہبی گروہ — جیسے نیٹری کارتا — آج بھی اسرائیل کے قیام کو مذہبی طور پر ناجائز سمجھتے ہیں۔
قرآن کا موقف قرآن میں بنی اسرائیل کے تذکرے موجود ہیں، لیکن ان کے لیے "دائمی حق" کا کوئی تصور نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتا دیا تھا کہ تم دو بار زمین میں فساد کرو گے..." (سورہ بنی اسرائیل: 4) ایک اور آیت میں فرمایا گیا: "اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے..." (سورہ المائدہ: 21) علمائے اسلام کے مطابق، یہاں "لکھی ہے" کا مطلب مخصوص وقت اور شرط کے تحت ہے، دائمی قبضے کا جواز نہیں۔ اسلام میں زمین کا حق نسل یا نسل پرستی پر نہیں بلکہ تقویٰ، عدل اور فرمانبرداری پر منحصر ہے۔
ایک سامراجی منصوبہ 1917 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے برطانوی سامراج نے یہودیوں کو فلسطین میں "قومی گھر" کا وعدہ کیا۔ 1948 میں برطانیہ کے انخلا اور اقوامِ متحدہ کی منظوری سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا—جبکہ وہاں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی آباد تھے۔ یہ قیام طاقت، سازش، اور مغربی حمایت کی پیداوار تھا، نہ کہ کسی الہامی پیشگوئی کا ظہور۔
مذہب یا مفاد پرستی؟ کئی یہودی علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا کی دی ہوئی زمین صرف نیک قوم کا حق ہے۔ موجودہ اسرائیل کا کردار توراتی تعلیمات کے منافی ہے۔ قتل و غارت، نسلی امتیاز اور قبضہ گیری "سرزمین موعود" کی علامت نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا، اسرائیل کو "خدا کا وعدہ" قرار دینا ایک سیاسی پراپیگنڈہ ہے جو مذہبی حوالوں کو چن چن کر توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔
اسرائیل کا قیام مذہبی تعلیمات کی اصل روح کے خلاف ہے؛ عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے منہ پر طمانچہ ہے؛ اور ایک ایسی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے مذہب کو سیاسی مفادات کی چادر اوڑھا دی۔ مذہب کی اصل روح عدل، تقویٰ اور انسان دوستی ہے—نہ کہ زمین پر قبضہ، قتل و غارت، یا کسی قوم کی بے دخلی۔ ایسا "الہامی وعدہ" جو مظلوموں کے آنسوؤں پر قائم ہو، صرف وعدہ نہیں، ظلم کی ایک دستاویز ہے۔ "مذہب کو سیاست کی چھتری بنا کر اگر ظلم کیا جائے، تو نہ مذہب بچتا ہے، نہ انسانیت۔"
|
|