غلافِ کعبہ ہمیشہ سیاہ نہیں رہا، رنگوں کے تاریخ کی کہانی

فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
کعبہ، اللّٰہ کا گھر ، دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل کا مرکز ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روزانہ کروڑوں مسلمان دل سے متوجہ ہوتے ہیں، اور ہر سال لاکھوں خوش نصیب زائرین اس کے طواف کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ کعبہ کا طواف، سجدہ، دعا اور اس کے غلاف کی زیارت ایک روحانی تجربہ ہے، جو ہر مومن کے دل میں خاص مقام رکھتا ہے۔ کعبہ پر چڑھایا جانے والا غلاف، جسے عربی میں "کسوہ" کہا جاتا ہے، ایک ایسی روایت ہے جس کی جڑیں نہ صرف اسلامی تاریخ میں پیوستہ ہیں بلکہ قبل از اسلام کے دور جاہلیت سے بھی وابستہ ہیں۔
آج جب ہم کعبہ کو سیاہ غلاف میں لپٹا دیکھتے ہیں تو ہمیں شاید یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ رنگ ہمیشہ سے غلافِ کعبہ کا حصہ رہا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ غلافِ کعبہ نے وقت کے ساتھ کئی رنگ بدلے، اور ہر رنگ ایک دور، ایک حکمران، ایک تہذیب اور ایک مخصوص سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تبدیلیاں صرف ظاہری نہیں تھیں، بلکہ ان میں سیاسی پیغام، مذہبی رجحانات، ثقافتی شناخت اور تہذیبی اثرات بھی شامل تھے۔
تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے غلافِ کعبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے چڑھایا۔ اس کے بعد مختلف قبائل اور سرداروں نے بھی یہ روایت جاری رکھی۔ عرب روایات کے مطابق تُبّع الحميری (یمن کا بادشاہ) وہ پہلا حکمران تھا جس نے کعبہ پر باقاعدہ عمدہ یمنی کپڑا چڑھایا۔ یہ کپڑا عام طور پر سفید یا دھاری دار ہوتا تھا، جو کعبہ کی عظمت کی علامت سمجھا جاتا۔ بعض مؤرخین کے مطابق ہر سال نیا کپڑا چڑھایا جاتا تھا اور پرانا غلاف عزت کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔
اسلام کے طلوع کے بعد نبی کریم ﷺ نے بھی کعبہ پر غلاف چڑھایا، جو سفید دھاری دار یمنی کپڑا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور میں یہ روایت جاری رہی۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے خاص طور پر مصر اور یمن سے اعلیٰ معیار کا کپڑا منگوا کر غلافِ کعبہ تیار کروایا۔ ان ادوار میں بھی رنگوں میں تنوع تھا، لیکن عمومی طور پر سفید، سرخ اور سبز دھاری دار کپڑے استعمال کیے جاتے تھے۔
اموی خلافت کے ابتدائی دور میں غلاف مختلف رنگوں میں تیار کیا جاتا رہا، تاہم جب عباسی خلافت قائم ہوئی تو ایک نیا رجحان سامنے آیا۔ عباسیوں نے اپنے سیاسی پرچم، لباس اور دیگر علامات کے لیے سیاہ رنگ کو اختیار کیا۔ ان کے لیے سیاہ صرف رنگ نہیں بلکہ انقلابی جدوجہد اور تشخص کی علامت تھا۔ چنانچہ خلیفہ ابو العباس السفاح کے دور سے غلافِ کعبہ کو بھی سیاہ رنگ میں تبدیل کیا گیا۔ اس تبدیلی نے آنے والے صدیوں کی غلاف کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔
خلیفہ مامون الرشید، جو عباسی خلفاء میں علم، فلسفہ اور سیاست کا حسین امتزاج رکھتے تھے، نے ایک وقت میں غلافِ کعبہ کو سبز رنگ میں تیار کروایا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب وہ اہلِ بیت خصوصاً سادات کے قریب ہوئے اور ان سے سیاسی مفاہمت کی کوششیں کیں۔ سبز رنگ سادات اور اہلِ بیت کا علامتی رنگ سمجھا جاتا ہے، اس لیے سبز غلاف چڑھانا ایک طرح سے اہلِ بیت سے محبت اور سیاسی بصیرت کا اظہار تھا۔
دسویں صدی عیسوی میں مصر میں قائم ہونے والی فاطمی خلافت، جو شیعہ نظریات کی حامل تھی، نے غلافِ کعبہ کے لیے سفید رنگ کو اختیار کیا۔ سفید رنگ کو وہ پاکیزگی، نور اور روحانی بالاتری کی علامت سمجھتے تھے۔ فاطمیوں کے زیر اثر یمن میں قائم صلیحی حکومت نے بھی یہی روایت اپنائی اور سفید رنگ کا غلاف کعبہ پر چڑھایا جانے لگا۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں غلافِ کعبہ پر دیگر رنگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مشہور فاتح محمود غزنوی نے مبینہ طور پر زرد یا پیلا رنگ غلاف کے لیے منتخب کیا، جو اس کی سلطنت کے شاہی رنگ سے مطابقت رکھتا تھا۔ اسی طرح خراسان سے آنے والی بعض قافلوں اور حکمرانوں نے سرخ غلاف بھی کعبہ پر چڑھایا۔ ان رنگوں کا تعلق نہ صرف ذاتی پسند سے تھا بلکہ سیاسی نظریات اور علاقائی ثقافتوں سے بھی جڑا ہوا تھا۔
15ویں صدی میں جب عثمانی خلافت نے حجاز پر کنٹرول حاصل کیا، تو انہوں نے غلافِ کعبہ کو دوبارہ سیاہ رنگ میں مستقل کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ غلاف پر سنہری دھاگوں سے کشیدہ کاری کی جاتی، جس میں قرآن کریم کی آیات اور اللہ کے اسماء الحسنیٰ درج کیے جاتے۔ عثمانیوں نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ہر سال نیا غلاف تیار کروایا، جو قاہرہ یا استنبول سے لے جایا جاتا اور ایک شاہی قافلے کے ساتھ احترام سے مکہ مکرمہ پہنچایا جاتا۔
20ویں صدی میں جب سعودی حکومت نے حرمین شریفین کی ذمہ داری سنبھالی، تو غلافِ کعبہ کی تیاری کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک باقاعدہ کسوہ فیکٹری قائم کی گئی۔ یہاں ہر سال ماہِ ذوالحجہ میں نیا غلاف تیار ہوتا ہے، جس میں اعلیٰ معیار کا سیاہ ریشم استعمال کیا جاتا ہے۔ غلاف پر قرآنی آیات کو خالص سونے اور چاندی کے دھاگوں سے کشیدہ کیا جاتا ہے، اور اس پر لاکھوں ریال خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہر سال یومِ عرفہ (9 ذوالحجہ) کو پرانا غلاف اتارا جاتا ہے اور نیا غلاف احترام اور وقار کے ساتھ چڑھایا جاتا ہے۔
غلافِ کعبہ صرف ایک پردہ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، ثقافت، سیاست اور عقیدت کا مظہر ہے۔ اس کی رنگت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی، مگر اس کا تقدس ہمیشہ قائم رہا۔ سفید ہو یا سیاہ، سرخ ہو یا سبز، ہر رنگ نے اپنی ایک داستان سنائی، کسی نے اتحاد کی، کسی نے اقتدار کی، اور کسی نے روحانی وابستگی کی۔ آج کا سیاہ غلاف دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وحدت، جمال اور روحانی مرکزیت کی علامت ہے، لیکن اس کی تاریخ میں جو رنگ بھرے گئے وہ تاریخ کے ان قیمتی بابوں میں سے ہیں جنہیں یاد رکھنا ہماری تہذیبی شناخت کا حصہ ہونا چاہیے۔ 
Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 139 Articles with 84278 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.