یہ کوئی عام کلمات نہیں، یہ وہ صدائیں ہیں جن سے ہر سچی عبادت کی ابتدا ہوتی ہے، ہر دعا کی بنیاد پڑتی ہے، اور ہر دل کو اُس کے اصل کی طرف واپس پلٹنے کا راستہ ملتا ہے۔ سورۃ الفاتحہ، قرآن کا دیباچہ ہی نہیں، بلکہ پورے دین کا لبِ لباب ہے۔ یہ ایک ایسی چھوٹی سی سورت ہے جو گویا پورے قرآن کا عطر ہے، ایک ایسا آئینہ ہے جس میں رب کا چہرہ، بندے کا چہرہ، اور اُن کے بیچ کا تعلق سب کچھ صاف دکھائی دیتا ہے۔ فاتحہ کا آغاز، ”اللہ کے نام سے، جو رحمان و رحیم ہے“ یہ محض کلمۂ آغاز نہیں، یہ اُس تعلق کا اعلان ہے جس کی بنیاد محبت، شفقت، اور رحمت ہے۔ بندہ جوں ہی زبان کھولتا ہے، اپنے رب کے سامنے جھکتا ہے، اور کہتا ہے: ”میں کسی ظالم یا بے نیاز کے در پر نہیں آیا، بلکہ اُس کے در پر آیا ہوں جو سراپا محبت ہے، سراپا مہربانی ہے۔“ یہ ہر سورۃ کے آغاز میں رکھا گیا تاکہ بندے کو یہ سمجھایا جاے کہ ”ہر چیز کے آغاز میں یہ پڑھ تاکہ سچی راہ تجھ پر کھُل جاے۔ تاکہ جب تُو یہ پڑھے تو تُو شیطان کے کسی بہکاوے میں نا آے، تجھے پتا ہو کہ جو تُو پڑھنے جا رہا ہے وہ غلط ہے یا صحیح، جو کام کرنے جا رہا ہے، وہ جائز ہے یا ناجائز۔“ ان سب کے بعد پھر وہ کہتا ہے: ”تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا رب ہے“ یہاں بندہ اپنے دل کو اس حقیقت سے جوڑتا ہے کہ ہر تعریف، ہر خوبی، ہر خیر کا اصل مرکز وہی رب العالمین ہے۔ اور وہی رب، تمام جہانوں کا، تمام مخلوقات کا، ہر دل کا، ہر نظام کا نگہبان ہے۔ یہاں بندہ اپنی انفرادیت کو رب کی جامعیت میں فنا کرتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ ”میرا کچھ بھی نہیں، سب تجھ ہی سے ہے۔“ ”رحمان و رحیم ہے“، یہ دوبارہ آتا ہے، جیسے دل کو یاد دلایا جا رہا ہو کہ اُس کی ساری فکریں، اُس کے سارے زخم، اُس کی ساری لغزشیں، سب اُس رب کی رحمت میں ڈھک جائیں گی، اگر وہ اخلاص سے رجوع کرے۔ پھر آتی ہے وہ آیت جو تھرّا دیتی ہے: ”روزِ جزا کا مالک ہے“ یہ آیت ہر انسان کے اندر ایک ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ بندہ جانتا ہے کہ وہ بے لگام نہیں، اُس کے ہر عمل کا حساب ہے، ایک دن ہے جہاں ہر چیز تولی جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی ایک سکون بھی ہے، کیونکہ مالک وہی ہے جو رحمان ہے، جو رحیم ہے۔ اور اب: ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ یہاں بندہ اپنے مقام کو پہچانتا ہے۔ فاتحہ کا ہر لفظ، ہر آیت، ایک تعلق کی زنجیر کی کڑی ہے۔ یہ تعلق بندے اور رب کے درمیان ایسا ہے جسے عقل سے نہیں، دل سے سمجھا جاتا ہے۔ جب بندہ ”ایاک نعبد و ایاک نستعین“ کہتا ہے تو یہ صرف ایک جملہ نہیں، یہ روح کا عہد ہے۔ ایک عہد کہ ”میری پیشانی صرف تیرے حضور جھکے گی، میرے قدم صرف تیری راہ میں اٹھیں گے، اور میرے ہونٹ صرف تجھ سے مدد مانگنے کے لیے کھلیں گے۔“ وہ خود کو عبد کہتا ہے، غلام، بندہ، فرماں بردار۔ اور وہ اعلان کرتا ہے کہ عبادت کا حق صرف تجھ کو ہے، اور مدد کا سرچشمہ بھی صرف تُو ہی ہے۔ اس لمحے میں بندہ خودی سے نکل کر ایک خالص بندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں پر عبادت کا تصور کسی محدود رسم یا روایتی حرکت کا نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ حیات کا ہے۔ یہ کہنا کہ ”ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں“، گویا بندہ اپنی خودی کو مٹا کر صرف ایک مرکزِ توجہ باقی رکھتا ہے: ”اللہ۔ اس میں کوئی دکھاوا نہیں، کوئی غیر کی رضا کا خیال نہیں، صرف خالص بندگی ہے۔“ اور جب بندہ کہتا ہے ”اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“، تو یہ ایک عارفانہ تسلیم ہے، کہ میں کچھ بھی نہیں، سب کچھ تُو ہی ہے۔ اور تب، دل سے ایک سادہ مگر پُراثر دعا نکلتی ہے، جو ہر دروازہ کھول دیتی ہے: ”"ہمیں سیدھا راستہ دکھا“ یہ دعا دراصل زندگی کی سب سے بڑی دعا ہے۔ وہ راستہ جو رب تک لے جائے، جو نفس کی دھوکہ دہی سے بچائے، جو دین و دنیا میں توازن رکھے، اور جو روح کو راہِ حق پر جما دے۔ یہ دنیا مفروضوں کا جنگل ہے، یہاں ہر ایک خود کو سچا، راست باز اور ہدایت یافتہ سمجھتا ہے۔ لیکن ایک مومن وہی ہے جو روزانہ، ہر نماز میں، رب سے یہ دعا کرتا ہے کہ ”اے رب! میں تجھ سے راستہ مانگتا ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ مجھے صحیح لگتا ہے، وہ ضروری نہیں کہ وہ تیرا راستہ ہو۔“ یہ تسلیم، یہ انکسار، بندگی کی معراج ہے۔ یہ سیدھا راستہ صرف نظریاتی نہیں ہوتا، یہ وجود کے ہر گوشے کو سمیٹتا ہے، دل، دماغ، کردار، نیت، تعلقات، معاملات، ہر شے۔ اور بندہ جانتا ہے کہ رب نے پہلے بھی اپنے بندوں کو انعام دیا ہے، انبیاء، اولیاء، صدیقین، شہداء، تو وہ دعا کرتا ہے کہ ”مجھے اُن کے قدموں میں جگہ دے، اُن کے راستے پر چلا۔“ اور آخر میں، بندہ یہ وضاحت کرتا ہے کہ: ”اُن لوگوں کا راستہ جن پر تیرا انعام ہوا، نہ کہ جن پر تیرا غضب ہوا، نہ وہ جو بھٹک گئے“ یہ الفاظ اس دعا کو سمت دیتے ہیں۔ بندہ کہتا ہے: ”مجھے صرف چلنا نہیں، صحیح چلنا ہے۔ مجھے صرف روشنی نہیں، وہ روشنی چاہیے جس نے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو منور کیا۔“ اور وہ دل سے پناہ مانگتا ہے اُن راستوں سے جو رب کے غضب کا باعث بنے، یا جو بھٹک گئے، خواہ وہ کفر میں ہوں یا خود فریبی میں۔ کیونکہ سیدھا راستہ کھلا ہوتا ہے، لیکن وہی دیکھ سکتا ہے جس کی آنکھ میں سچائی کی روشنی ہو، جس کے دل میں ہدایت کی طلب ہو۔ سورۃ الفاتحہ دراصل ایک آئینہ ہے، جس میں ہر مومن اپنی روح کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ یہ وہ دعائیہ دستور ہے جو قرآن کے آغاز میں رکھ کر اللہ تعالیٰ نے بندے کو پہلا سبق سکھایا: ”میری طرف آ، اپنے وجود کے سارے بوجھ میرے قدموں پر رکھ دے، اور مجھ سے مانگ، کیونکہ میں دینے والا ہوں، ہدایت بخشنے والا ہوں، اور سب سے بڑھ کر، میں سننے والا ہوں۔“ فاتحہ صرف ایک دعا نہیں، ایک دستور ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک شعور ہے، اپنے رب کو پہچاننے کا، اپنے نفس کو سنوارنے کا، اپنی روش کو نکھارنے کا۔ فاتحہ ہر نماز میں بار بار دہرائی جاتی ہے، گویا رب ہمیں ہر دن، ہر وقت یاد دلاتا ہے کہ ”اے بندے! میری طرف لوٹ، میں وہی ہوں جو رحمان بھی ہے، اور یومِ جزا کا مالک بھی۔ میں تجھے راستہ دکھاؤں گا، بس تو مانگتا رہ۔“ یہ سورت آغاز ہے، لیکن صرف الفاظ کی نہیں، بلکہ بندگی کی پہلی سانس ہے۔ رب سے تعلق کی پہلی دستک ہے۔ اور اُس زندگی کا پہلا قدم ہے جو اُس کی طرف رواں ہے۔ فاتحہ کا تذکرہ ختم نہیں ہوتا، یہ سورت نہیں، زندگی کا ایک تسلسل ہے۔ ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہے، گویا رب اپنے بندے سے بار بار کہتا ہے: ”یہی تعلق اصل ہے۔ باقی سب فانی ہے۔“ |