جب نمرود نے آگ کاالاؤدہکایااورحضرت ابراہیم علیہ السلام
کواس الاؤمیں جھونک دیاتوچشمِ فلک نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ ایک
ننھاساابابیل اپنی چھوٹی سی چونچ میں پانی کے دوتین قطرے دبائے آگ کی طرف
بھاگ رہاہے۔کسی نے پوچھا “بھئی اتنی بے تابی میں کہاں اڑے جارہے ہو؟ ”
بولانمرود کی دہکائی ہوئی آگ کوبجھانے جارہاہوں”سننے والے نے قہقہہ لگایا
اور کہا”اے ناسمجھ ،تمہاری چونچ میں دبے ان چند قطروں سے نمرود کی آگ
کاکیابگڑ ے گا؟”ننھے ابابیل نے جواب دیا”میں جانتاہوں میری کمزورسعی کاکوئی
نتیجہ نہیں نکلے گالیکن مجھے اتنامعلوم ہے کہ جب حشرکے دن نمرود کی آگ
بجھانے والوں کی فہرست بنائی جائے گی تواس میں میرانام بھی ضرورشامل
ہوگااورایک ابابیل کیلئے اتناہی کافی ہے”۔
دنیامیں مسائل اورمعاملات سے نمٹنے کے دوطریقے ہیں،ایک زاویہ نظرابابیل سے
سوال کرنے والوں کاہے۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرمسئلہ آپ کی استطاعت سے
بڑاہے،اگرآپ میں مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت موجودنہیں توپھرآپ کوسرے سے کوشش
ہی نہیں کرنی چاہئے،بس خودکو حالات پرچھوڑدیں اوراللہ کی مددکاانتظارکریں
جبکہ دوسرامکتبہ فکرابابیل کی طرح سوچتاہے،اس کاخیال ہے کہ آپ میں مسئلہ
سلجھانے کی قدرت ہویانہ ہوبس آپ ابابیل کی طرح چونچ میں دوقطرے پانی بھریں
اورآتشِ نمرودکی طرف دوڑپڑیں،اللہ کرم کرے گا،اگراس کوشش میں مسئلہ سلجھ
گیاتوآپ سرخروہوگئے،نہ سلجھاتوکم ازکم آپ کانام نمرود کی آگ بجھانے والوں
میں توضرورآجائے گااورآپ کی بخشش کیلئے کافی ہوگا۔یہ دوسرامکتبہ فکرانبیاء
کرام، اولیاءکرام اوران کے ماننے اورچاہنے والوں پرمشتمل ہے۔
دنیاکے تمام مذاہب انسان کونیکی کی تلقین کرتے ہیں،اسے اندھیرے میں ایک
دیاجلانے،لق ودق صحرامیں ایک گھونٹ پانی سے ایک بیج بونے اورسیلاب کے راستے
میں ایک پتھررکھنے کاحکم دیتے ہیں۔خودنبی اکرم ﷺ کافرمان ہے کہ اگردنیا میں
صورپھونکاجارہاہواورمیرے ہاتھ میں کسی درخت کی قلم ہوتومیں فوراًوہ قلم
زمیں میں گاڑھ دوں گا۔اسے کہتے ہیں “کوشش” اسے کہتے ہیں مثبت پیش رفت۔یہ
حقیقت ہے کہ اس دنیامیں جوکچھ ہورہاہے وہ امرربی ہے،یہ صرف اللہ کاحکم ہے
جس کے باعث بھوک غربت بیماری جہالت اورموت ہے،اللہ ہی حکم سے بادلوں کارخ
پھرتا ہےاورسرسبزشاداب وادیوں میں ریت اڑتی ہے اوراس کے حکم سے چشمے
سوکھتے،نہریں خشک ہوتیں اوردریاراستے بدلتے ہیں،اس کی اجازت سے ہڈیوں سے
بیماریاں پھوٹتی ہیں اوراس کی رضامندی سے زوال پذیر قومیں عروج پاتی ہیں
اورعروج پرکھڑی اقوام زوال کی ڈھلوانوں میں لڑھکتی ہیں لیکن اللہ کے حکم،رب
کی رضامندی کے باوجودانسان پرکوشش فرض ہے۔دنیاکوبہتربنانے،اپنے حالات،اپنی
غربت،افلاس بیماری بھوک کے خلاف لڑناانسان کافرض بھی ہے اورذمہ داری بھی۔
آپ میڈیکل سائنس کولیجئے،دنیاکاہرطبیب جانتاہے کہ اگرکسی انسان
کوکینسریاایڈزہوجائے تواس کاانجام موت ہے لیکن اس کے باوجود تمام ڈاکٹرآخری
وقت تک مریض کاعلاج کرتے ہیں،ہارٹ اٹیک کی صورت میں جب مریض کادل خاموش ہو
جاتا ہے،نبض تھم جاتی ہے اورسانس رک جاتی ہے تواس وقت بھی مریض کوزندہ کرنے
کی کوشش کی جاتی ہے،اس کے دل میں انجکشن لگایاجاتاہے،اس کوبرقی جھٹکے دیئے
جاتے ہیں،کیوں؟کیونکہ میڈیکل سائنس دل کے خاموش ہونے کے بعدبھی مریض کی
زندگی سے مایوس نہیں ہوتی،مرنے کے بعد بھی زندگی کی ایک موہوم سی امید قائم
رہتی ہے اوریہ امید اسے آخری کوشش پرابھارتی ہے۔یہ توہے انسان کی
کوشش،انسان کی امیدلیکن کیاکیجئے ہمارے تمام حکمران کھربوں کے مالک ہیں
لیکن غربت توختم نہیں کرسکے تاہم غریب ختم ہوتے جارہے ہیں۔
یقیناًغربت،افلاس،بھوک بیماری صرف اللہ ہی دورکرسکتاہے،کسی انسان میں اتنی
استطاعت نہیں لیکن اس کے باوجود کوشش انسان پرفرض ہے اورجب انسان بے لوث
ہوکرکوشش کرتاہے توکسی خوشگوارلمحے میں اللہ کوانسان پرپیارآجاتا ہے، وہ
دیکھتا ہے کہ یہ ایک کمزوربے بس ابابیل ہے، یہ ابابیل اپنی کمزوری اوربے
بسی سے بھی واقف ہے لیکن اس کے باوجوداپنی چونچ میں پانی کے دوقطرے
بھرکرآتشِ نمرودچل پڑاہے،اللہ کواپنے اس ابابیل کی اطاعت،اس فرمانبرداری
پرپیارآجاتاہے اوروہ آتشِ نمرودکو ِگلزارہونے کاحکم دے دیتاہے اورپھروہ
ابابیل تاریخ کاحصہ بن جاتی ہے ۔ خلوص،عاجزی اوراس انکساری میں لپٹی ہوئی
کوشش اوردعااتنی قیمتی ہوتی ہے کہ اللہ سوت کی اٹی میں یوسف تک عنائت
کردیتاہے،پھریہ غربت کیاچیزہے۔
قوموں کوکوشش درکارہوتی ہے،اعترافِ شکست نہیں،ناکامی کااعتراف نہیں۔اس وقت
ہمارے حکمرانوں کے ہاں خلوص نام کی کوئی شئے موجود نہیں۔اپنی حکومت کو
بچانے کیلئے اگرتمام ادارے بھی داؤپرلگانے پڑیں توبعید نہیں کہ وہ ایساکر
گزریں گے۔ اعلیٰ عدلیہ نے اوپرتلے جوفیصلے دیئے ہیں،حکومت اس فیصلے کے خلاف
نظرثانی کی اپیل دائرکرچکی ہے اوراب آنے والے حالات اورواقعات کسی نئے
سیاسی طوفانوں کاپتہ دے رہے ہیں۔پچھلے کئی دنوں سے عدلیہ کے فیصلوں پر
موجودہ حکومت اوران کے ہمنواوں نے جوکھلی کھلی دھمکیا ں دیں،اعلیٰ عدلیہ نے
اس کاکیااثرلیاہے اس کاپتہ توچنددن میں پتہ چل جائے گا۔حکمران خودکو ملک کی
سلامتی کیلئے لازم وملزوم قراردیکراپنی ذات کو”باز”سے تشبیہ دی ہے اورترنگ
میں آکر اپنی نگاہوں کوخوردبیں قراردیتے ہوئے چوروں کی وارداتوں کو پیشگی
پکڑنے اورخطرے کوختم کرنے کی صلاحیت کا اعلان بھی کیاہے تویادرکھیں قوم
علامہ اقبال ؒ کے اس بازسے توبہت محبت کرتی ہے جودرویش صفات کامالک ہوتے
ہوئے کبھی اپنا گھر نہیں بناتا،جوپہاڑوں کی چوٹیوں پراپنانشیمن بناتاہے
لیکن یہ کیسابازہے جس کے رہنے کیلئے بنی گالہ جیسا پر تعیش محل ہے۔کیایہ وہ
بازتونہیں جوصرف اپنے آقاکے حکم پرمعصوم پرندوں کا شکار کرتاہے؟بازہمیشہ
آزاد فضاؤں میں بلندیوں میں پروازکرتاہے لیکن کچھ بازایسے بھی ہوتے ہیں جن
کوشکاریوں نے اپنی مرضی سے سدھاکران کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہوتی ہے
اورانہیں اپنے آقاکی مرضی کے مطابق ہی شکارپرجھپٹناہوتاہے اورشکارکواپنے
آقاکے قدموں میں لاکرسرخرو ہوتاہے۔
قوم کوایک بارپھرکھلی آنکھوں سے ملک کے معاملات پرگہری نظررکھنی ہوگی،اپنی
کاوشوں اورکوششوں کومہمیزکرناہو گااورپھراس کے بعدان معاملات کی ڈوری اللہ
پرچھوڑناہوگی۔ویسے تویہ کام حکمرانوں کاہے کہ وہ خلوص سے لبریز کوششیں کریں
اورباقی کام اللہ پرچھوڑدیں لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں میں چولستان کے اس
غریب کسان جتنا”توکل“نہیں ،جو ریت میں بیج پھینکتاہے اورپھرجھولی
پھیلاکراللہ سے بارش کی دعاکرتاہے اوراللہ کاکرم دیکھئے،وہ اگر بارش نہیں
برساتا توکسی نہ کسی طریقے،کسی نہ کسی ذریعے سے اسے ایک سال کارزق
ضرورپہنچادیتاہے اوریہ بھی دیکھئے جس سال وہ کسان اللہ کی رحمت سے مایوس
ہوکربیج نہیں بوتا،اسے اس سال رزق بھی نہیں ملتا،اس کے حصے کا اناج بھی اس
تک نہیں پہنچتا اوریہ وہی سال ہوتاہے جب چولستان کے لوگ نقل مکانی کرتے
ہیں۔
برطانیہ کے شمالی ساحل سمندرکے ایک خاص علاقے میں ہرسال ہزاروں من خوراک
سائبیریاکے ان مہمان پرندوں کیلئے پھیلا دی جاتی ہے جو شدید سردیوں کی
تعطیلات یہاں منانے کیلئے آتے ہیں اورتین مہینوں کے بعداپنے گھروں کولوٹ
جاتے ہیں۔آنکھیں کھولنے کیلئے صرف یہی ایک واقعہ کافی ہے۔
رہے نام میرے رب کاجورزاق بھی ہے!
اچھی گزررہی ہے دلِ خودکفیل سے
لنگرسے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے
دنیامرے پڑوس میں رہتی توہے
مگرمیری دعاسلام نہیں اس ذلیل سے
|