کرونا وائرس کے مثبت پہلو اور مواقع

ماضی میں جتنے بھی حادثات ہوئے کسی ایک خطہ تک محدود رہے ہیں لیکن پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک وبا نے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔کسی بھی حادثہ یا بحران کی صورت میں منفی تبصرے کرنا اور مسائل کی خوفناک منظر کشی کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر دنیا بھر میں مایوسی اور پریشانی کا راج ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں بیشتر ترقی اور ایجادات بدترین حالات میں ہوئی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بحران کی صورت میں لوگوں کو حوصلہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے لیکن اگر ہمت کریں تو بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد کاروباری دنیا میں ای کامرس کو مقبولیت حاصل ہونے لگی جس میں کرونا وائرس کے بعدتیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے "ورک فرام ہوم" کی پالیسی نے دنیا بھر میں بزنس ماڈل کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔چونکہ دنیا بھر میں وبائی صورتحال کی وجہ سے لوگ گھروں سے باہر جانے سے قاصر ہیں اس لیے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دی جارہی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق موجودہ بحران کی وجہ سے صرف ایمازون نے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے لیے روزگار کا موقع فراہم کیا۔اسی طرح مائیکروسافٹ، ایپل، نیٹ فلکس اور دیگر ڈیجیٹل کمپنیوں کے بھی کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔چین نے جس طرح مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کو کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا ہے اس نے ٹیکنالوجی میں تحقیق کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔

کرونا وائرس سے قبل ہر ملک اپنی جنگی صلاحیت بڑھانے کی دوڑ میں شامل تھا لیکن اس وبا نے احساس دلایا ہے کہ صحت و صفائی کی ناقص سہولیات جنگوں سے بھی زیادہ جان لیوا ہیں۔امریکہ، برطانیہ،چین اور اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں اس وبا کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو اسلحہ کی نہیں بلکہ خوراک اور صحت کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت صحت کاشعبہ دنیا کی اولین ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں صحت کا شعبہ ہمیشہ کم مائیگی کا شکار رہا ہے۔کرونا وائرس کی وجہ سے حکومت نے صحت کے شعبہ میں ہنگامی اقدامات کیے اور ثابت کردیا کہ ہم مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وجہ سے نہ صرف ڈاکٹروں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا بلکہ دنیا نے دیکھا کہ وینٹی لیٹرز امپورٹ کرنے والا ملک اب خود وینٹی لیٹرز بنانے کے قابل ہوچکا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے معاشرے میں نمود و نمائش اور فضولیات عام ہو چکی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم بنیادی ضروریات میں بھی خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔شادی بیاہ پر بے جا نمود نمائش کرنا ہماری معاشرتی برائیوں میں شامل ہے لیکن آج کل سادگی سے شادیاں رواج پارہی ہیں۔میرے کئی ایسے واقف کار ہیں جن کی ماہانہ اچھی خاصی آمدن ہے لیکن گھر بیٹھنے کی وجہ سے وہ بھی مالی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمیں خاندانی سطح پر مستقبل کے لیے مالی بچت کی اشد ضرورت ہے۔کرونا وائر س کا ایک اور مثبت پہلویہ بھی ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ماحولیاتی آلودگی میں 35فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وبا کے خاتمہ کے بعد ہماری فضاء پہلے سے صاف ستھری ہوگی۔

دنیا میں روایتی کلاس رومز کے بجائے آن لائن تعلیم کا رواج بڑھ رہا ہے۔پاکستان میں آن لائن کلاسز کا تجربہ کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کیوں کہ ناکام ہونے کا خدشہ تھا۔چونکہ موجودہ صورتحال میں تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اس لیے آن لائن کورسز کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ہمارا بوسیدہ تعلیمی نصاب طلباء کو عملی تربیت دینے میں ناکام ہوچکا ہے۔دس سال معاشرتی علوم پڑھنے کے بعد بھی ہمارے نوجوان بنیادی آدابِ معاشرت سے ناواقف ہیں۔کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر میں صحت و صفائی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ہماری قوم کی ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ خود کو صحت مند رکھنے کے لیے ہمیں کونسی غذا کھانی چاہیے، کھانستے یا چھینکتے ہوئے چہرے کو کس طرح ڈھانپنا چاہیے اور صاف ستھرا رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔والدین کے بعد اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو آدابِ معاشرت سکھائیں جس کے لیے تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔

اس وقت دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔جس طرح چین کے ایک شہر میں ہونے والے حادثہ نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کرسکتا۔اگر دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنا وجود برقرار رکھنا ہے توانہیں غریب معاشرے کوبھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ کرونا وائر س نے عالمی سطح پر تمام ممالک کو متحد کر دیا ہے۔یہ مستقبل میں عالمی امن کی طرف مثبت پیش رفت ثابت ہوسکتی ہے۔امید ہے کہ آئندہ عالمی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے۔ کرونا جیسے وبائی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں میڈیکل سمیت دنیا بھر کے تمام شعبوں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے کہ گلوبل کمیونیکیشن کو فروغ دیا جائے۔

ہمارے ہاں ہنرمندوں کثیر تعداد موجود ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔اس وقت حکومت ان کی امداد کے لیے نقدر قوم تقسیم کر رہی ہے لیکن یہ اس مسئلہ کا طویل المیعاد حل نہیں ہے۔ہمیں چاہیے کہ ایک ٹاسک فورس بنائیں جو مقامی انتظامیہ اور مختلف شعبوں کے تعاون سے پندرہ روزہ پراجیکٹس تشکیل دے۔لاک ڈاؤن کی صورتحال میں بھی شجرکاری، ہسپتالوں اور قرنطینہ سنٹرز کی صفائی، فٹ پاتھ کی مرمت، گٹر کے ڈھکن لگانے اور سرکاری دفاتر کی مرمت وغیرہ سمیت کئی ایسے چھوٹے موٹے کام ہیں جو احتیاطی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح نہ صرف مزدوروں کو فوری روزگار میسر ہوگا بلکہ حکومت کو ہنر مند افراد کا ڈیٹا بیس بھی مل جائے گا۔مستقبل میں ان ہنرمندوں کو بنیادی ٹریننگ دے کر بیرون ممالک بھی بھیجا جاسکتا ہے جو ہماری معیشت کی بہتری میں اہم کردار اداکریں گے۔

گزشتہ کچھ عرصہ سے سائنسی ترقی نے انسان کو مادیت پرستی کی طرف مائل کر دیا ہے۔اس عالمی وبانے ہماری مشینی زندگی میں ایک ٹھہراؤ پیدا کردیا ہے۔اس وقت سے فائدہ اٹھا کر ہم ذاتی محاسبہ کرسکتے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے لیے نئی راہیں متعین کرسکتے ہیں۔آج کل لوگ اپنی فیملی کو وقت دے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام دوبارہ مضبوط ہورہا ہے۔دنیاوی مصروفیات میں الجھ کر خالقِ حقیقی کو بھول جانے والوں کے لیے بھی خدا سے رجوع کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔آخری بات یہ کہ ایسے وقت میں احتیاط اور صبر سے کام لیا جائے۔ماضی میں انسان نے کئی مصیبتوں کے سامنا کیا ہے اور ہردفعہ پہلے سے مضبوط بن کر ابھرا ہے۔اس لیے یہ مصیبت بھی جلد ہی گزر جائے گی لیکن اس مشکل گھڑی میں ہمارامثبت رویہ ہی آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ ہم ایک عظیم قوم تھے۔

Saad ur Rehman Malik
About the Author: Saad ur Rehman Malik Read More Articles by Saad ur Rehman Malik: 29 Articles with 31945 views Journalist by passion, Agronomist by choice, Leader by nature and Entrepreneur to be.. View More