عبدالحفیظ کاردار لاہور کے مشہور محلے اندرون بھاٹی گیٹ
میں 17 جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد جلال الدین کاردار پنجاب میں
کواپریٹوتحریک کے بانی شمار کئے جاتے ہیں وہ پنجاب کواپریٹو بینک کے
ڈائریکٹر تھے۔ بنیادی طور پرکاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی زرعی
اراضی لاہور کے مضافات کے علاوہ جھنگ مگھیانہ اور پیر محل میں تھی۔
یہاں یہ ذکر بے محل نہیں کہ ابھی آپ نہایت کمسن ہی تھے کہ آپ کو دیکھ کر
ایک بزرگ نے فرمایا کہ یہ بچہ نہ صرف خاندان بلکہ ملک و قوم کا روشن کرے گا
۔ بزرگ کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ آپ کے والد کے ذہن میں ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے نقش ہوگئے اور انہوں نے عبدالحفیظ کی تربیت اور تعلیمی صلاحیتوں میں
نکھار پیداکرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ ہر اعتبار سے انہیں ایک مکمل
انسان بنانے کی جستجو کی ۔
عبدالحفیظ کاردار نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی
سکول لاہور سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ کرکٹ کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ مزید
حصول کے لیے والدگرامی نے آپ کو دیال سنگھ کالج لاہور میں داخل کرایا تاکہ
کھیل میں زیادہ وقت ضائع نہ ہو۔ ایف اے کاامتحان پاس کرنے کے بعد اسلامیہ
کالج لاہور سے بی اے کیا۔ سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی آپ نے فرسٹ کلاس
کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی پھر یہ شوق انہیں کرکٹ کی بلندیوں پر لے گیا۔
خوش قسمتی سے سکول ہی میں خواجہ سعید احمد جیسے عظیم کرکٹر اور استاد کی
زیر نگرانی ٹریننگ اور تربیت کا موقع میسر آیا۔ خواجہ سعید احمد لاہور میں
کرکٹ کے روح رواں تھے۔ ان کی زیر نگرانی میں عبدالحفیظ کاردار کے علاوہ نذر
محمد ٗ گل محمد ٗ محمد شریف ٗ امتیاز احمد اور ذوالفقار احمد جیسے نامور
کرکٹر ز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ تقسیم ہند سے قبل لاہور میں
اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج کے کرکٹ میچوں کے علاوہ ممدوٹ کلب اور
کریسنٹ کلب کے میچ بھی بہت شہرت کے حامل تصور ہوا کرتے تھے۔ خواجہ سعید
احمد اور ان کے زیر تربیت کھلاڑی کریسنٹ کلب کی طرف سے کھیلتے۔ کریسنٹ کلب
کے کپتان اس وقت شہاب الدین تھے جن سے عبدالحفیظ کاردار نے فاسٹ باؤلنگ
سیکھی۔ کاردار بائیں ہاتھ سے درمیانی رفتار سے باؤلنگ کرواتے تھے اور بائیں
ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے کیلئے مشہور تھے۔ آپ نے سولہ سترہ سال کی عمر
میں پنجاب یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کی قیادت کی۔ شروع ہی سے کمزور ٹیم کی طرف سے
کھیلنے کے مواقعوں نے عبدالحفیظ کاردار کو آہنی اعصاب کا مالک بنا دیا اور
اس خوبی نے ان کو میدان کرکٹ میں بے شمار مواقع پرمشکلات سے عہدہ برآ ہونے
کے قابل بنا دیا ۔ 1945ء کے بعد سے ہی آل انڈیا میچوں میں آپ کو شریک ہونے
کا موقع ملا۔ بمبئی میں پنجاب یونیورسٹی اور بمبئی یونیورسٹی کے میچوں سے
بہت سے فائدہ مند سبق حاصل کئے۔
1946ء میں نواب پٹودی کی کپتانی میں آل انڈیا ٹیم میں شامل کئے گئے اور
اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے آپ کو سخت محنت سے گزرنا پڑا۔ اپنی
یادداشوں میں کاردار لکھتے ہیں کہ صبح تین چار میل کی دوڑ‘ چالیس پچاس گز
کی تیز سپرنٹ کی پریکٹس‘ فیلڈنگ کی پریکٹس ہوتی اور شام کو کئی گھنٹوں پر
محیط نیٹ پریکٹس کرنی پڑتی۔ پریکٹس کے بعد پھر ایک میل کی دوڑتربیت میں
شامل تھی۔
تقسیم ہندوستان سے پہلے بمبئی اور راجکوٹ کرکٹ کے مشہور مراکزہوا کرتے تھے
جہاں مشہور زمانہ رانجی ٹرافی کے میچ ہوتے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار نے ناردرن
انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے حصہ لیا اور نہایت کامیاب رہے۔ ان میچوں
کو Pentangularکا نام دیا جاتا تھا۔ ان میچوں کے بعد آپ نے متعدد زونز کے
میچ کھیلے جن کے بعد آپ آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے لیے منتخب ہوگئے جو 1946ء میں
نواب پٹودی کی قیادت میں انگلستان کا دورہ کرنے والی تھی۔ انگلستان میں
ہونے والے ایک میچ میں آپ نے 173 رنز بنائے۔اس دورے کے دوران آپ کو بین
الاقوامی کرکٹ کے اسرار و رموز سمجھنے کا بے حد موقع ملا۔
عبدالحفیظ کاردار کے مطابق کرکٹ ایسا کھیل ہے جو انسان سے اس کی تمام تر
صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا مطالبہ کرتاہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت
اور شخصیت جتنی کرکٹ میں نمایاں اور اجاگر ہوتی ہے کسی اور کھیل نہیں ہوتی۔
کرکٹ کا کھیل ذرا سی بھی بے توجہی برداشت نہیں کر سکتا۔ ذرہ برابر بھی بے
توجہی ہوئی اور ناکامی مقدر ہوئی۔
اکتوبر 1946ء میں عبدالحفیظ کاردار نے آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ درخواست
داخلہ بھجوانے کے بعد تقریباً 12 مختلف کالجوں نے انہیں داخلے کے لئے
بلایا۔ بالآخر آپ نے یونیورسٹی کالج آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں
جنگ عظیم دوم سے فارغ شدہ نوجوان کثیر تعداد میں داخلے کے خواہش مند تھے
اور تمام برطانوی مقبوضات اور کالونیوں سے انگلستان کا رخ کر رہے تھے۔ اس
لیے مقابلہ بہت سخت تھا۔ مگر نواب پٹودی اور کرکٹر C.B.Fry کی اعانت سے یہ
مرحلہ باآسانی طے پاگیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی آپ نے تعلیم اور کھیل
کے میدان میں جلد ہی نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ فلسفہ‘ معاشیات اور سیاسیات
آپ کے مضامین تھے اور کھیلوں میں کرکٹ کے علاوہ رگبی‘ فٹ بال‘ کراس کنٹری‘
کشتی رانی میں ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں
کے درمیان بڑے کانٹے کے میچ ہوا کرتے تھے ۔ ان میچوں میں آپ نے نمایاں
کامیابی حاصل کی ۔ بطور بیٹسمین اور باؤلر دونوں حیثیتوں میں کامیاب رہے۔
1946-48ء کا زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ میں گزارنے کے بعد دو سال تک
یعنی 1948-50ء کاؤنٹی کرکٹ میں حصہ لیا اور آپ واروک شائر کاؤنٹی کی جانب
سے دو سال کرکٹ کھیلتے رہے۔ 1951ء میں واروک شائر کاؤنٹی انگلستان کی
کاؤنٹی کرکٹ چمپئن بنی جس میں آپ کی کارکردگی نمایاں تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی تقسیم کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا۔ برصغیر کے
مسلمانوں میں جوش ولولہ کی کیفیت طاری تھی لیکن ملک سے باہر ہندو پاک کے
سیاسی حالات خصوصاً مسلمانوں کی حالت کا بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ اس وقت
پروفیسر رادھا کرشنن آکسفورڈ میں فلسفہ کے پروفیسر تھے اور کرشنا مینن
انگلستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے۔ پاکستانی طلبہ نے پاکستان
سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی جس میں عبدالحفیظ کاردار‘ اے ٹی ایم مصطفی‘ ریاض
حسین (جج سپریم کورٹ) اور نسیم احمد شامل تھے۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے اس
طلبہ جماعت کی کوئی مدد ‘اعانت اور حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ایک واقعے کے
بارے میں کاردار اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ کرشنا مینن نے برائس کلب
(Bryceclub) کی میٹنگ میں شرکت کرکے مسئلہ کشمیر پر تقریر کرتے ہوئے
پاکستان کی بھرپور مذمت کی۔ عبدالحفیظ کاردار نے برائس کلب کے سیکرٹری کو
آمادہ کیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی تقریر کے لیے مدعو کیا جائے۔ مگر
پاکستانی ہائی کمشنر نے اس کلب کے دعوت نامے کو بالکل بھی اہمیت نہ دی اور
جب آپ نے ذاتی طور پر ہائی کمشنر سے استدعا کی تو انہوں نے معاملہ پریس
اتاشی کے حوالے کردیا اور انہوں نے بھی معاملے کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ٹال
دیا۔ اس افسوسناک واقعہ کی یادیں ابھی تازہ تھیں کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔
پاکستان ہائی کمیشن کی ایک دعوت میں آپ کی ملاقات پاکستان کے وزیر خارجہ سے
ہوئی جو ان دنوں یو این او کی کسی میٹنگ میں شرکت کیلئے پیرس آئے ہوئے تھے۔
کاردار نے ان سے اس مسئلے پر بات کی تو وزیر خارجہ پاکستان نے کاردار کی
بات سنی ان سنی کردی اور کسی کلب سے خطاب کرنے سے معذرت کرلی۔ لیکن دو تین
دن کے بعد حفیظ کاردار کو ایک ہندوستانی دوست کی طرف سے چائے کی دعوت ملی
جس میں یہ بھی تحریر تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ بھی اس دعوت میں شریک
ہوں گے۔ یہ اس قدر تعجب کی بات تھی کہ وزیر خارجہ نے کشمیر کا پاکستانی
موقف ایک منتخب تعلیم یافتہ طبقہ میں پیش کرنے کا موقع مصروفیت کا بہانہ کر
کے ضائع کردیا لیکن پھر آکسفورڈ کا سفر کر کے ایک ہندو دوست کے لڑکے سے
ملاقات کا وقت نکال لیا۔پاکستانی ہائی کمشنر اور وزیر خارجہ کے رویے آپ کی
دل شکنی کا باعث بنے ۔
اکتوبر 1950ء میں حفیظ کاردار پاکستان واپس آئے اور ایک آئل کمپنی میں
ملازمت اختیار کرلی۔ راولپنڈی کے پاس بلکسر آئل فیلڈ پر تین ماہ کی ٹریننگ
کے بعد آپ کو چٹاگانگ مشرقی پاکستان بھیج دیاگیا جہاں آپ نے ایک انتظامی
عہدہ سنبھالا اور پتیہ (چٹاگانگ) اور پتھاریہ (سلہٹ) میں تیل اور گیس کی
ڈرلنگ کے کام کی نگرانی ان کے ذمہ لگائی گئی۔ مشرقی پاکستان میں قیام کے
دوران جسٹس حمود الرحمن‘ جسٹس صدیقی‘ جسٹس مرشد اور اے ٹی ایم مصطفی سے بہت
دوستانہ رہا۔ اس زمانے میں جسٹس کارنیلیس پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین
تھے۔ ان کی طرف سے حفیظ کاردار کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی پیشکش کی
گئی تاکہ نومبر دسمبر 1951ء میں MCC کے دورہ پاکستان کے موقع پر انگلستان
کے خلاف اپنی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ آپ نے یہ پیشکش
قبول کرلی۔ ایم سی سی کے خلاف پہلا میچ لاہور میں ہار جیت کا فیصلہ ہوئے
بغیر ختم ہوا لیکن کراچی ٹیسٹ میں پاکستان نے ایم سی سی کو چار وکٹوں سے
شکست دے دی۔ جو ایم سی سی کرکٹ ٹیم کی برصغیر میں پہلی شکست تھی۔ میچ میں
کامیابی کے بعد پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ حاصل کرلیا اور ایم سی سی نے
پاکستانی کرکٹ ٹیم کو 1954ء میں انگلستان کے دورے کی دعوت دی۔
1952ء میں حفیظ کاردار نے بھارت کے دورے کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کی
قیادت کی۔ اس دورے میں آپ نے 416 رنز بنائے جس میں مدراس ٹیسٹ کے 79 رنز
نمایاں رہے اور 13وکٹیں بھی حاصل کیں۔ حفیظ کاردار کے کھیل کا عروج ان کی
1954ء میں انگلستان کے دورے کے موقع پر نظر آیا جب انہوں نے پاکستان ٹیم کی
قیادت کرتے ہوئے ٹیسٹ سیریز برابر کی اور اوول کے میدان میں انگلستان کی
کرکٹ ٹیم کو شکست دی۔ اس مشہور میچ میں آپ نے پاکستا ن کے مجموعی سکور133
میں سے 26 رنز بنائے۔ اس کے بعد بھارتی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی
ٹیسٹ میں بھارت کے خلاف 93رنز بنائے۔ 1955-56ء میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو
شکست دی اور سیریزجیت لی ۔1956ء ہی میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلتے ہوئے 59
رنز بنائے جو اس میچ کا ٹاپ سکور تھا۔1957-58ء ہی میں ویسٹ انڈیز کے مقابلے
میں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن کاردار کے 253 رنز یادگار سکور رہا۔ اس
سیریز میں حفیظ کاردار نے وزیر محمد کے ساتھ مل کر چھٹی وکٹ کی شراکت میں
168 رنز بنائے۔ یہ ریکارڈ 2000ء میں ویسٹ انڈیز کیخلاف انضمام الحق اور
عبدالرزاق نے توڑا۔
غرض کہ 1958ء تک حفیظ کاردار نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کر کے اسے ایک
مضبوط ٹیم کے طور پر مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ پاکستان ٹیم کے پہلے
23ٹیسٹ میچوں میں ٹیم کی قیادت کی۔ حفیظ کاردار کی کوششوں سے B.C.C.P بورڈ
آف کرکٹ کنٹرول آف پاکستان کے مرکزی دفتر کا قیام عمل میں آیا یہ ان کا بڑا
کارنامہ ہے۔ دفتر کے قیام سے قبل بورڈ کی چند فائلیں جو عہدیداران تھے۔ ان
کے گھر پر ہی رکھی ہوتی تھیں اور کوئی مرکزی دفتر نہ تھا۔ حفیظ کاردار کو
1972ء میں BCCP کا صدر نامزد کیا گیا۔ ان کی کوششوں سے قذافی اسٹیڈیم میں
مرکزی دفتر قائم کیا گیا۔ دفتری عملہ اور آفس فرنیچر کا انتظام کر کے اسے
دوسرے ممالک کے ہم پلہ بنا دیا گیا۔
حفیظ کاردار نے مرکزی حکومت میں بطور ڈپٹی ایجوکیشن ایڈوائزر 1955ء سے
1964ء تک کام کیا اور اس کے بعد مستعفی ہو کر 1964ء سے 1968ء تک مشرقی
پاکستان میں جوٹ کا کاروبار شروع کیا۔ اس دوران اپنی یادداشتوں میں ایک
واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہیں ایک اچھی رقم کے اوور ڈرافٹ کی
ضرورت پڑی اور اس کی منظوری کیلئے انہیں ڈھاکہ سے کراچی آنا پڑا کیونکہ
تمام بینکوں کے مرکزی دفاتر کراچی میں تھے۔ اگر مغربی پاکستان کے کسی صنعت
کار یا تاجر کو ایک معمولی کام کے لئے ڈھاکہ یا میمن سنگھ جانا پڑے تووہ
کیامحسوس کرے گا۔ حکومت کی پالیسیاں مستقلاً ایسی رہیں کہ مشرقی پاکستان کے
عوام کو بجا طور پر شکایت پیدا ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں قیام کے دوران
انہیں وہاں کے لوگوں کے کردار اور مشکلات کو سمجھنے کا قریب سے موقع ملا۔
کاردار کے مطابق اگر انہیں بنگالیوں کو عزت و احترام اور جائز مقام دیا
جائے تو وہ بھی بہت عزت سے پیش آتے ہیں لیکن وہ اپنے حقوق کے بارے میں بہت
حساس ہیں۔ 1956ء میں کراچی ٹیسٹ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی۔ اس
کے بعد جب حفیظ کاردار مشرقی پاکستان گئے تووہاں جوش کا سماں تھا ہر شہر
میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ ہر سٹیشن پر بینڈ باجے کے ساتھ عوام کا
جم غفیر موجود ہوتا لیکن جن افسران نے ان استقبالیہ دوروں کا انتظام کیا
تھا وہ 1971ء میں مغربی پاکستان کے پکے مخالف بن گئے۔
مغربی پاکستان کے افسروں کے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے عبدالحفیظ کاردار ایک
جگہ لکھتے ہیں کہ ڈھاکہ کی بلبل اکیڈمی میں ایک شو منعقد ہونا تھا۔ مشرقی
پاکستان کے چیف سیکرٹری مغربی پاکستان کے افسر تھے جو اس امید میں تھے کہ
انہیں بطور چیف گیسٹ مدعو کیا جائے گا لیکن جب ایسا نہ ہوا تو انہوں نے عین
تقریب کے وقت بجلی منقطع کرا دی اور منتظمین کو موم بتی کی روشنی میں اپنا
شو جاری کرناپڑا۔ یہ ایک مثال ہے جس سے مغربی پاکستان کے افسران کی ذہنیت
کا اندازہ ہوتا ہے اور جو بعد میں مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کی صورت میں
علیحدگی کا اہم سبب بنا۔
حفیظ کاردار نے جب سیاست میں قدم رکھا تو ان کاانتخاب پیپلز پارٹی ٹھہری۔
1970-71ء کے الیکشن میں پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور اس کے بعد
محکمہ خوراک اور کوآپریٹو‘ محکمہ تعلیم‘ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور
محکمہ انڈسٹریز کے وزیر کے طور پر 1972ء سے 1977ء تک کام کرتے رہے۔وزیر کی
حیثیت سے آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ سرکاری وسائل اور سرکاری گاڑی کا
استعمال صرف حکومتی معاملات تک ہی محدود رہے جبکہ اپنی نجی مصروفیات کے لیے
اپنی ذاتی گاڑی استعمال کرتے ۔
1975ء میں پنجاب کابینہ سے استعفیٰ دیا لیکن منظور نہ ہوا۔ بالآخر 1977ء
میں کابینہ اور پیپلزپارٹی دونوں سے بھی استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کرکٹ
بورڈ سے بھی مستعفی ہو گئے۔ 1983ء میں آپ نے گروپ 83 کے نام سے ایک تنظیم
کی بنیاد رکھی جس کے تحت مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل و موضوعات پر
تقاریر اور مباحثے منعقد کرائے گئے۔
حفیظ کاردار کا ایک اور کارنامہ امپیریل کرکٹ کانفرنس کا نام تبدیل کرا کے
انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس رکھنا تھا۔ اس کانفرنس میں انگلستان اور آسٹریلیا
کو ویٹو کے اختیارات حاصل تھے۔ کاردار نے ویٹو کے حق اور اختیار کی سخت
مخالفت کی اور اسے ختم کرا کے دم لیا۔ ICC کی میٹنگ میں کئی بار شرکت کی۔
سری لنکا کو ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ دلانے کا سہرا بھی عبدالحفیظ کاردار کی
کوششوں کے سر ہے۔ بنگلہ دیش کو بھی ایسوسی ایٹ ممبر کا درجہ دیا گیا۔ دسمبر
1974ء میں ایشین کرکٹ کانفرنس کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ انگلستان اور
آسٹریلیا کی کوشش تھی کہ اسرائیل کو بھی ICC کی رکنیت دی جائے لیکن آپ کی
کوششوں نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
عبدالحفیظ کاردار جہاں عظیم کرکٹر ٗ بہترین کاروباری اور وطن سے والہانہ
محبت کرنے والے مخلص انسان تھے وہاں وہ صاحب تصنیف بھی تھے۔ مختلف کتب کی
اشاعت کے علاوہ ان کے شمار مضامین اخبارات میں وقتا فوقتا شائع ہوتے رہے۔
ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں-:
1- Inaugural Test Matches
2- Test status on Trial
3- Green Shadows
4- Memoirs of an All-Rounder
5- People's Commitment
6- Pakistan's Soldiers of Frontiers
7- An Ambassador's Diary
8- Failed Expectations
عبدالحفیظ کاردار کے بارے میں ان کے دیرینہ دوست مسعود حسن اپنے کالم لاہور
ڈائری میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں -:
عبدالحفیظ کاردار بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے ذکر کرتے تھے…… ’’ہم
تینوں دوست تھے‘ مگر ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک تھے مسٹر ایم ایل
(محمد قریشی) جنہوں نے پوری زندگی پاکستان کی خدمت میں بسر کی اور دوسرے
’’کھدر‘‘ تھے……‘‘ کاردار ٗ مسعود کھدر پوش کو پیار سے کھدر کہہ کر پکارتے
تھے اور وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے…… ’’کھدر میری رہائش گاہ پر صبح
سویرے ہی آ جایا کرتے تھے (وہ دونوں گلبرگ میں رہتے) اور میری کھڑکی پر
پتھر پھینک کر مجھے جگاتے۔ جب میں گھر سے باہر آتا تو کھدر پوش یا تو سر کے
بل باغ میں کھڑے ہو کر ذہنی صحت بحال کرنے یا کثیر مقدار میں تازہ گاجریں
اور مولیاں کھا کر جسمانی صحت بنانے کی کوشش میں مصروف ہوتے۔ جب وہ کچھ
عجیب وغریب قسم کی جسمانی حرکات سرانجام دے لیتے تو ہم لطیف قریشی کے گھر
کی طرف چل پڑتے۔ وہاں پہنچ کر کھدر پوش ایک مرتبہ پھر سنگ باری شروع کرتے
اور یہ مشق ستم اس وقت تک جاری رکھتے جب تک مسٹر قریشی جو کہ ایک دانشور
قسم کے ریٹائرڈ شخص تھے‘ اپنی رہائش گاہ سے آنکھیں ملتے ہوئے برآمد نہ ہو
جاتے۔ اس کے بعد ہم مزید سیر کرتے‘ مزید گاجریں اور مولیاں کھاتے جاتے‘
جبکہ لاہور کی صبح اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو رہی ہوتی تھی۔
ہم نظر آنے والی چیزوں اور افراد پر دلچسپ تبصرے بھی کرتے۔‘‘ یہ اندازِ
گفتگو جو میں اکثر عبدالحفیظ کاردار‘ جن کو لاہوری پیار سے ’’کرکٹ والا
کپتان‘‘ کہا کرتے تھے‘ سے سنا کرتا تھا۔
اپنے آخری برسوں میں وہ اکثر مجھے فون کیا کرتے تھے اور پوچھتے کہ کیا عمدہ
کافی کے امکانات پائے جاتے ہیں؟ یقین دہانی پر وہ تشریف لاتے اور اس معاملے
میں وہ وقت کے بے حد پابند تھے۔ ’’گرتے پڑتے پہنچا ہوں……‘‘ وہ کہتے اور
ساتھ ہی خالص پنجابی لہجے میں ہنستے اور یہ بات بہت ہی تعجب خیز معلوم ہوتی
کیونکہ وہ لباس کے معاملے میں بہت ہی صاحب ذوق تھے اور ان کی ٹائیوں کا
انتخاب تو کلاسیکل ہوتا تھا…… ایسا اکثر ہوتا تھا کہ وہ کافی میرے ساتھ
پیتے اور بیتے دنوں کی باتیں‘ جبکہ میں‘ ان کی شخصیت سے مرغوب‘ سوچتا کہ
کپتان مجھے میری توقع سے بڑھ کر عزت بخشتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ
وہ میرے بھائی خالد حسن سے پیار کرتے تھے اور وہ ان کی کمی محسوس کرتے ہوئے
مجھ سے باتیں کرتے تاہم مجھے یہ محسوس ہو چلا تھا کہ انہیں مجھ سے باتیں
کرنا اچھا لگتا ہے۔
ایک روز آفتاب گل نے مجھے بتایا…… ’’کاردار صاحب اب ریٹائرڈ ہیں اور ان کے
پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ تم چونکہ ایک اچھے ’’سامع‘‘ ہو اس لئے وہ تم سے
باتیں کرتے ہیں‘‘ …… ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو۔ بے شک کاردار صاحب نے
مجھے اس بات کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا بلکہ ہر روز مجھے ان کے رویے سے
یہ تاثر ملتا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک ٹائی
بھی دی جو انہوں نے لندن کے ایک مشہور سٹور سے خریدی تھی مگر سب سے بڑھ کر
وہ طویل گفتگو تھی جس کا وہ مجھے شرف بخشتے تھے۔ وہ بہت سے موضوعات پر
گفتگو کیا کرتے تھے مگر کرکٹ پر بہت کم بولتے۔ جب کبھی وہ کرکٹ پر بات کرتے
تو ان کے تبصرے بہت ہی پرمغز ہوتے‘ کیونکہ وہ ایک ایسے شخص کی طرف سے ہوتے
جسے کرکٹ کا بھرپور علم تھا تاہم تمام نابغہ روزگار افراد کی طرح وہ بھی
اپنے علم اور تجربے کے ڈھنڈورے نہیں پیٹتے تھے۔ ان کے بارے میں عام تاثر یہ
تھا کہ وہ سخت گیر ہیں‘ مگر میں نے ان کو ہمیشہ زندہ دل اور پیار کرنے والا
انسان پایا۔ جو لمحے میں نے ان کے ساتھ بسر کئے وہ میری زندگی کا سرمایہ
ہیں۔
کاردار صاحب کو ہم سے بچھڑے سولوں بیت گئے ہیں۔ ہر سال جب بھی اپریل آتا ہے
تو ان کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ ان جیسے بہت کم لوگ اس عالم
فانی میں پائے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں تو ویسے بھی قحط الرجال ہے۔ اب جبکہ
یہ ملک لالچ‘ بدعنوانی‘ جھوٹ اور منافقت کی دلدل میں دھنس رہا ہے تو ان کی
یاد شدت سے آتی ہے۔ آج میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس مکر وفریب
پر ان کا تبصرہ کیا ہوتا؟…… زیادہ امکان ہے کہ وہ سگریٹ سلگاتے اور ایک یا
دو پرمعانی الفاظ ادا کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے۔
کچھ لوگ ان کی کپتانی کے دور میں اور بعد میں بھی یہ شکایت کرتے تھے کہ ان
کا رویہ سخت اور غیرلچک دار تھا مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں سورج تلے
اندھیرا ہے‘ ہر اصول پرست سخت گیر ہی کہلائے گا تاہم ہمارے معاشرے میں
پھیلی افراتفری‘ لالچ اور فساد کے مقابلے میں اصولوں پر مبنی سخت گیری ہی
بہتر ہے۔ میرا خیال ہے اگر کاردار صاحب جیسے کچھ اور لوگ بھی ہمارے ہاں
ہوتے تو آج پاکستان بہت مختلف ملک ہوتا۔ کاردار صاحب کی کرکٹ کے علاوہ
صلاحیتوں کا کبھی کسی نے ادارک نہیں کیا۔ شاید اس میں ان کا اپنا بھی قصور
تھا کیونکہ وہ سامنے نہیں آنا چاہتے تھے۔ میں اکثر اوول ٹیسٹ کی یادگار
تصویر دیکھتا ہوں جب پاکستان نے 1954ء میں تیسرے ٹیسٹ میں انگلینڈ کو شکست
دی۔ کپتان کے چہرے پر بہت گہری مسکراہٹ ہے‘ جیسے کہ وہ خود کو کہہ رہے
ہوں…… ’’حفیظ یہ کام تمہارے ہاتھوں ہی سرانجام پانا تھا۔ کرکٹ کے بانیوں کو
ان کی سرزمین پر ہرانا کوئی معمولی بات نہیں……‘‘ وہ بہت سے معاملات میں
دوسروں کے مقابلے میں غیرمعمولی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر
پرجوش کپتان تھے اور دوسروں کو بھی متحرک اور باحوصلہ دیکھنا چاہتے تھے۔
اگر کوئی ان کی توقع کے مطابق نہ ہوتا تو وہ فوراً ٹیم سے باہر ہوتا۔ یہی
وجہ ہے کہ جب انہوں نے استعفیٰ دیا تو عمران خان نے کہا تھا…… ’’پاکستانی
کرکٹ کو بھیڑیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے……‘‘ خان صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
کیسے خون آشام بھیڑیئے کرکٹ بورڈ پر پل پڑے!
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کاردار صاحب ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے۔
انہوں نے اپنی ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز بائیس جون 1946ء کو لارڈز کے میدان سے کیا
تھا۔ اس وقت ان کی عمر اکیس برس تھی اور وہ متحدہ ہندوستان کی ٹیم میں سب
سے نوجوان کھلاڑی تھے۔ وسیع وعریض ہندوستان کی ٹیم میں جگہ بنانا ان کی بے
مثال صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اس ٹیم میں کیسے کیسے سٹار کھلاڑی
تھے! نواب منصور علی پٹودی‘ وی مکنڈ‘ لالہ امرناتھ‘ مشتاق علی‘ وی ایم
مرچنٹ‘ روسی مودی‘ سی ساروٹ‘ ایس بینرجی اور گل محمد۔ آٹھ سال بعد وہ
پاکستانی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے دورۂ انگلینڈ پر گئے جہاں انہوں نے ایک
ٹیسٹ ہارا‘ ایک برابر رہا‘ جبکہ آخری جو کہ تاریخی اوول ٹیسٹ تھا ٗ میں
کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے انگلینڈ کو ہوم گراؤنڈ پر ایک ایسی ٹیم کے ساتھ
شکست دی تھی جس میں زیادہ تر کالجوں اور مقامی کلبوں کے لڑکے تھے۔ ایک
مرتبہ انہوں نے مجھے ہنستے ہوئے بتایا کہ…… ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ
کس کو کس پوزیشن پر کھڑا کروں‘ کیونکہ وہ سب نہایت خراب فیلڈرز تھے‘‘…… پھر
بھی انہوں نے انہی ناتجربہ کار لڑکوں کو کمال مہارت سے لڑایا اور کرکٹ کے
بانیوں کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے والی تمام قوموں کو شکست دی۔ انہوں نے 23
ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی۔
کاردار صاحب صرف ایک اچھے کپتان ہی نہیں بلکہ غیرمعمولی حوصلہ والے جرأت
مند انسان بھی تھے۔ دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران انہوں نے برق رفتار گلکرسٹ‘
جس کی دہشت سے ایک جہان کانپتا تھا اور دیگر تیز گیند بازوں کا بڑی بے خوفی
سے سامنا کیا۔ اگرچہ ان کے جسم پر گیند لگنے سے نیل پڑ گئے تھے مگر وہ ہرگز
نہ گھبرائے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کھیل میں پیسے کی بجائے قومی وقار اہم
سمجھا جاتا تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے مگر افسوس‘ بہتری کے امکانات دھندلا گئے
ہیں۔ کم ازکم ہم اقدار سے تو تہی دامن ہو چکے ہیں۔ یہ زوال کا سفر جاری ہے
اور ہر روز طلوع ہوتا ہوا سورج کوئی نیا داغ دے جاتا ہے۔
کاردار صاحب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا رویہ تحکمانہ تھا اور وہ تنقید
برداشت نہیں کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے مگر پھر ان کے اصول
یاد آتے ہیں اور وہ بہترین سے کم پر سمجھوتہ کرنے والے نہیں تھے۔ اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ میدان اور میدان کے باہر یہ ان کی غیرلچک دار قیادت ہی
تھی جس نے پاکستان میں کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا۔
کرکٹ کے انتظامی شعبوں میں وہ صاحب بصیرت تھے۔ بہت سی تبدیلیوں کی سفارشات‘
جو انہوں نے 70ء کی دہائی میں کر دی تھیں‘ آج جدید کرکٹ کی روح ہیں۔ یہ
کاردار صاحب ہی تھے جنہوں نے لارڈز کی بالادستی سے مرغوب ہوئے بغیر ایشیائی
کرکٹ میں توسیع اور غیرجانبدار امپائر مقرر کرنے کی بات اس وقت کی جب دوسرے
اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سب سے بڑھ کر ان کو آنے والے زمانے
کی کمرشل قدروں کا احساس ہو چلا تھا‘ اس لئے انہوں نے کھلاڑیوں کو مالی
تحفظ دینے کے لئے سرکاری اور نجی شعبوں میں ملازمتیں دینے کی سفارش کی۔ یہ
سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ جب بھی کوئی ملین ڈالر اثاثے رکھنے والا کرکٹر
میدان میں داخل ہو تو وہ کاردار صاحب کو دعاؤں میں ضرور یاد رکھے گا کہ وہ
ان کی روزی کا بندوبست فرما گئے تھے۔
اس کے علاوہ کاردار صاحب بہت سی تبدیلیاں لانے کے خواہش مند تھے‘ مگر جب
کرکٹ کے تیور تبدیل ہوئے تو انہوں نے خود کو اس سے دور کر لیا۔ ان کو سیاست
کی سمجھ بوجھ بھی تھی مگر اس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ بہت سے لوگ اب محسوس
کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ان پر زیادہ بھروسہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ کاردار
صاحب اگرچہ سیماب صفت تھے‘ ان کی جماعت کو منظم بنیادوں پر استوار کرنے میں
اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر سکتے تھے تاہم وہ اپنی ذات میں مگن رہنے والے
شخص تھے اور چاپلوسی انہوں نے زندگی بھر کبھی نہیں کی تھی‘ اس لئے وہ پس
منظر میں چلے گئے۔ ان کو سفارت کاری پیش کی گئی مگر یہ ان کی طبیعت کے
مطابق نہیں تھی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان کا جنیوا میں گھر تمام آنے جانے
والوں کا ٹھکانہ بن گیا تھا اور بہت سے جو ان کی خاطر مدارت کا لطف اٹھاتے‘
نہیں جانتے تھے کہ کاردار صاحب سرکاری فنڈز کی بجائے اپنی جیب سے خرچ کر
رہے ہیں۔
عبدالحفیظ کاردار کو حکومت پاکستان کی طرف سے 1991ء سے 1993ء تک
سوئٹرزرلینڈ میں پاکستان کا سفیر نامزد کیا گیا۔ عارضہ قلب کے باعث 1993ء
میں مستعفی ہو کر وطن واپس آگئے اور 21اپریل 1996ء کو دل کی بیماری سے لڑتے
ہوئے خالق حقیقی سے جاملے اور قبرستان میانی صاحب (بہاولپور روڈ) میں آسودہ
خاک ہوئے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی
جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو تمغہ پاکستان اور اب ہلال قائداعظم سے
نوازا گیا ۔
اس لمحے جبکہ ہم جناب عبدالحفیظ کاردار کی گراں قدر خدمات کا ذکر کررہے ہیں
تو یہ خیال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسے بے مثال اوراصول پسند لوگ تو قوموں
کے لیے قابل تقلید (Roll model)ہوا کرتے ہیں لیکن ہم نے جہاں اور بے شمار
لوگوں کو فراموش کررکھا ہے وہاں عبدالحفیظ کاردار جیسے انمول لوگ اور ان کے
عظیم کارنامے بھی ذہنوں سے محو ہوتے جارہے ہیں ۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب
ہوں کہ ان کی شخصیت اورکارناموں کو کسی درسی نصاب میں جگہ دی جانی چاہیے
کیونکہ وہ اس کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ شاید اس ڈگمگاتی ہوئی پاکستانی قوم
کو ان جیسے لوگوں کی یاد حوصلہ دے اور وہ مشکل دور کے چیلنج سے نمٹ سکے۔
جیسے جیسے ہمارے قومی حالات مزید خرابی کی طرف گامزن ہورہے ہیں تو مجھے وہ
بہت یاد آتے ہیں۔
..........
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خود مجھے بھی اس عظیم کرکٹر اور باکردار
انسان کے ساتھ کام کرنے کا کچھ موقع میسر آیا ہے جب وہ بچوں کے لیے چھوٹے
چھوٹے کتابچے لکھنے میں مصروف تھے "پیسہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے"
۔اردو سٹینوگرافر کی حیثیت سے چند ہفتے مجھے ان کی سرپرستی میں گزارنے کا
جو موقع میسر آیا اس دوران میں بھی ان کی شخصیت کا معترف ہوں ۔وہ بہت اصول
پسند اور وقت کے پابند انسان تھے کئی بار ایسا بھی ہوا جب میں مقررہ وقت سے
چند منٹ بعد ان کے گھر پہنچا تو مجھے ان کے صاحبزادے شاہد کاردار (جو پہلے
وزیر خزانہ پنجاب اور بعد میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کے عہدے پر
فائز رہے ۔ ) مجھے آکر بتاتے کہ ابو انتظار کرکے اپنے سونے والے کمرے میں
جاچکے ہیں چنانچہ اب ملاقات نہیں ہوسکتی آپ کل وقت مقررہ پر آئیں اور اس کے
ساتھ ہی ایک کرنسی نوٹ میری جیب میں ڈال دیتے ۔ گھر آکر جب میں دیکھتا تو
وہ نوٹ پانچ سو روپے کا ہوتا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے اتنا کام نہیں
کیا تھا جتنا انہوں نے مجھے معاوضہ قبل از وقت اداکردیا تھا ایک لمحے کے
لیے یہ سوچ مجھ پر غالب آنے لگی کہ کہیں وہ مجھ سے پیسے واپس ہی نہ مانگ
لیں لیکن جو عظیم لوگ ہوتے ہیں ان کا یہ شیوہ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کبھی ان
پیسوں کا تذکرہ بھی نہیں کیا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے ۔حقیقت میں وہ
ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے بے شک بے شمار حکومتی اور کلیدی عہدوں پر
فائز رہے لیکن ان کا دامن ہمیشہ کرپشن ٗ اقربا پروری اور خیانت سے پاک رہا
۔وہ قائداعظم محمد علی جناح کے سچے شیدائی تھے اور انہی کے افکار کو
پاکستان کے ہر شعبے نافذ کرنے کے خواہاں تھے ۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شرکت
بھی انہی مقاصد کی تکمیل کے لیے تھی ۔
عبدالحفیظ کاردار بہت اچھے ٗ نفیس اور بااصول انسان تھے ۔اﷲ انہیں غریق
رحمت کرے ۔ آمین
|