پر وقار شخصیت ‘عظیم کرکٹر عبدالحفیظ کاردار کی یادیں

عبدالحفیظ کاردار کانام زبان پر آتے ہی ایک پروقار شخصیت کا احساس ابھر کر سامنے آتا ہے ‘ وہ لاہور کے مشہور محلے اندرون بھاٹی گیٹ میں 17جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے ۔ان کے والد جلال الدین کاردار ‘پنجاب میں کواپریٹو تحریک کے بانی شمار کیے جاتے ہیں ‘ بنیادی طور پر آپکا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے ۔آپ نے میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول سے پاس کیا ۔ انٹردیال سنگھ کالج اور بی اے کاامتحان اسلامیہ کالج سے پاس کیا‘ کرکٹ کا شوق تو بچپن ہی سے تھا۔ ابتداہی سے آپ کو خواجہ سعیداحمد جیسے عظیم کرکٹر کی سرپرستی حاصل ہوئی جو اس سے پہلے نذر محمد ‘گل محمد ‘امتیاز احمد جیسے نامور کرکٹر قومی سطح پر متعارف کرواچکے تھے ۔عبدالحفیظ کاردار بائیں ہاتھ سے میڈیم پیس باولنگ اور جارحانہ بیٹنگ کرتے تھے ۔ رانجی ٹرافی میں ناردرن انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے حصہ لیااور کامیاب کھلاڑیوں میں شمار کیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کی قیادت کے بعد آپ 1946ء میں نواب آف پٹودی کی کپتانی میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں منتخب کرلیے گئے جو انگلستان دورے پر جارہی تھی ‘اس دورے میں آپ کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں کیا گیا ۔بعد ازاں مزید حصول تعلیم کے لیے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں فلسفہ ‘ معاشیات اور سیاسیات ان کے مطالعہ میں شامل تھے ‘ کرکٹ کے ساتھ ساتھ رگبی ‘ فٹ بال ‘ کراس کنٹری ‘ کشتی رانی میں بھی حصہ لیتے رہے اور ہر کھیل میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔آکسفورڈیونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ دو سال تک انگلستان میں ہی واروک شائر کاؤنٹی کی جانب سے کرکٹ کھیلتے رہے۔قیام پاکستان کے چند سال بعد آپ وطن (پاکستان ) لوٹ آئے اور ایک آئل کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔ چند ماہ کی تربیت کے بعد آپ کو مشرقی پاکستان کے شہر چٹاکانگ میں تعینات کردیاگیا۔وہاں قیام کے دوران جسٹس حمود الرحمان ‘ جسٹس صدیقی ‘ جسٹس مرشد اور اے ٹی ایم مصطفی سے دوستانہ رہا ۔اس زمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جسٹس کارنیلیس تھے ‘ ان کی طرف سے آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی پیش کش ہوئی کیونکہ نومبر دسمبر 1951ء سے ایم سی سی کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آرہی تھی ۔آپ نے پیشکش قبول کرتے ہوئے ایم سی سی کے خلاف پہلا میچ لاہور میں کھیلا جو ہارجیت کا فیصلہ ہوئے بغیر ختم ہوگیا جبکہ کراچی ٹیسٹ میں کاردار کی قیادت میں ایم سی سی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔برصغیر پاک وہند میں یہ ایم سی سی ٹیم کی پہلی شکست تھی ۔اس سے پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ مل گیا ۔1952میں حفیظ کاردار کی قیادت میں ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کادورہ کیا اس دورے میں کاردار نے 416رنز بنائے اور 13وکٹیں حاصل کیں۔1954ء میں انگلستان کے دورے کے دوران اوول میں آپ ہی کی قیادت میں انگلستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔پھر یکے بعد دیگر ے انڈین کرکٹ ٹیم ‘ نیوزی لینڈاور آسٹریلیاکی ٹیموں کے خلاف کھیلتے ہوئے نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ اپنی آل راؤنڈ کارکردگی بھی سب سے نمایاں رہی ۔1957-58ء میں ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن کاردار کے 253رنزیادگار حیثیت اختیار کرگئے ۔اس سیریز میں کاردار اور وزیر محمد کی چھٹی وکٹ کی شراکت 168رنز رہی ۔یہ ریکارڈ 2000ء میں ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف کھیلتے ہوئے انضمام الحق اور عبدالرزاق نے توڑا ۔1958ء تک حفیظ کاردار نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ایک مضبوط ٹیم کے طور پر مستحکم بنیادوں پر استوار کیا اس طرح پہلے 23ٹیسٹوں میں آپ نے قومی ٹیم کی کامیاب قیادت کی ۔1955ء سے 1964ء تک وفاقی حکومت میں بطور ڈپٹی ایجوکیشن ایڈوائزر کی حیثیت سے کام کیا ۔1964ء سے 1968ء تک مشرقی پاکستان میں جاکر جوٹ کا کاروبار کیا ۔ بعدازاں آپ اپنے پسندیدہ شہر لاہور میں قیام پذیر ہوئے ۔ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا بہت زور شور تھا چنانچہ آپ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے 1970-71کے الیکشن میں پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے ۔منتخب ہونے کے بعد آپ کو محکمہ خوراک اور کواپریٹو ‘ محکمہ تعلیم ‘محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اور محکمہ صنعت کے وزیر بنا دیاگیا آپ اس عہدے پر 1972ء سے 1977ء تک کام کرتے رہے ۔اسی دور میں آپ نے کابینہ اور پیپلز پارٹی دونوں سے استعفی دے دیا ۔1983ء میں عبدالحفیظ کاردار نے گروپ 83کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کے تحت مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل و موضوعات پر تقاریر اور مباحثے منعقد کرائے جاتے تھے ۔ان کاایک اور کارنامہ امپریل کرکٹ کانفرنس کانام تبدیل کرکے انٹر نیشنل کرکٹ کانفرنس رکھ دیاگیا ۔آئی سی سی کی میٹنگ کے دوران پہلے سری لنکا کو ٹیسٹ پھر بنگلہ دیش کو ایسوسی ایٹ ممبر کا درجہ دلایا ۔دسمبر 1974ء میں ایشین کرکٹ کانفرنس کا انعقاد لاہور میں ہوا۔ انگلستان اور آسٹریلیا کی کوشش تھی کہ اسرائیل کو آئی سی سی کی رکنیت مل جائے لیکن کاردار کی کوششوں کی بدولت ناکامی ہوئی ۔ ِ کرکٹ ‘ کاروبار اور سیاست کے ساتھ تالیف و تصنیف کی دنیا میں اپنی حیثیت اور قابلیت کا لوہا منوایا ۔آپ نے یکے بعد دیگر آٹھ کتابیں لکھیں ۔آپ کو 1991سے 1993تک سوئزرلینڈ میں پاکستان کا سفیر تعینات کیا ۔عارضہ قلب کے باعث آپ مستعفی ہوکر وطن واپس لوٹ آئے ۔ یاد رہے کہ یہی وہ دور تھا جب بذات خود میں نے چند ماہ تک ان کے ساتھ بطور سٹینو گرافر کام کیا ۔ان دوران میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا کہ وہ بہت اصول پسند شخصیت تھے یہی تمام خوبیاں ان کے بیٹے شاہد حفیظ کاردار میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔جنکو پہلے وزیر خزانہ پنجاب اور بعد میں گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے عہدہ جلیلہ پر فائز کیاگیالیکن وہ اختلاف رائے کی بنا پر دونوں عہدوں سے مستعفی ہوئے ۔شاید ہی کوئی شخص ہوگا جو اتنے بڑے عہدوں کو ذاتی اختلاف کا بہانہ بنا کر مستعفی ہوجائے ۔ یہ صفت انہیں اپنے عظیم والد سے ملی ۔ بہرکیف عبدالحفیظ کاردار 21اپریل 1996ء کواس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور میانی صاحب قبرستان (بہاول پور روڈ ) میں آسودہ خاک ہوئے ۔اﷲ ان کی قبر کو جنت کاباغ بنا دے ۔ آمین


 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 658840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.