بیوہ اور اس کا بچہ

بیوہ اور اس کا بچہ

مصنف: خلیل جبران
مترجم: خلیل الرحمان

رات کی گہری تاریکی چھا چکی تھی اور شمالی لبنان کی وادی قادیشا میں برف کی چادر نے اردگرد کے سارے دیہاتوں کو مکمل طور پر ڈھانپ لیا تھا اور کھلیانوں و میدانوں پرایک ایسی دبیز چادر پھیلا دی تھی جس پر فطرت اپنی سوزن کاری کے نمونے کندہ کر رہی تھی۔جب خاموشی نے رات کو اپنی آغوش میں لیا تو لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آ چکے تھے۔

انہی دیہاتوں میں سے ایک تنہا گھر میں ایک خاتون رہتی تھی جو کہ آتشدان کے پاس بیٹھی اون بن رہی تھی، جس کے پاس ہی اس کا بچہ بیٹھا ہوا کبھی آگ کو تکتا تو کبھی اپنی ماں کو۔

بادلوں کی دل دہلا دینے والی گرج سن کر چھوٹا لڑکا ڈر کے مارے کانپ اٹھا۔اس نے اپنی بانہیں اپنی ماں کے گرد حمائل کیں ، تاکہ وہ فطرت کی ہولناکی سے بچ کر اس کی ممتا میں پناہ گزیں ہو سکے۔ماں نے اسے سینے سے لگا کر چوما؛ اپنی گودی میں بٹھایا اور بولی،'' میرے بچے ! ڈرو مت ، یہ تو فطرت اپنی عظیم طاقت کا انسان کی بے بسی کے ساتھ محض موازنہ کر رہی ہے۔برف کے اڑتے ہوئے گالوں ، بھاری بھرکم بادلوں کی گھن گرج اور طوفانی ہواؤں کے اس پار ایک عظیم ہستی ہےاور وہ اہل زمین کی ضروریات سے آگاہ ہے جو کہ اسی کی اپنی ہی تخلیق ہیں ؛ وہ کمزوروں کو اپنی مہربان آنکھوں سے تکتا ہے۔''

''بہادر بنو، میرے پیارے بیٹے،فطرت بہار میں مسکراتی ہے،گرمیوں میں کھلکھلاتی ہےاور خزاں میں جمائی لیتی ہے،لیکن اب وہ رو رہی ہے اور اس کے یہی آنسو پھر زندگی سینچتے ہیں،زندگی جو کہ زمین کی تہوں میں کہیں پنہاں ہوتی ہے۔''

''سو جاؤ میرے لخت جگر؛ تمہارے بابا ہمیں ابدیت کے اس پار سے دیکھ رہے ہیں – یہ یک بستہ برف اوربادلوں کی گھن گرج ہمیں اس وقت ان کے بہت قریب کر رہی ہے۔''

''سو جاؤ میری جان، کہ برف کا یہ سفید کمبل جو کہ ہمیں سردی سے ٹھٹھراتا ہے،یہی زیرزمین بیج کو گرمی پہنچاتا ہےاور جب نیسان شروع ہو گا تو یہی ہولناک چیزیں دھرتی پر خوبصورت اور رنگا رنگ پھول اگائیں گی۔''

''تو، میرے بچے، جب تک انسان غم و آلام سے روشناس نہ ہو،ہجر کی سختیاں نہ جھیلے ،صبر آزما حالات اور مصائب سے آشکار نہ ہو ، تب تک وہ محبت کی فصل نہیں کاٹ سکتا ۔ اب سو جاؤ ، میرے ننھے فرزند،سو جاؤ، تاکہ تمہاری روح ، جو کہ کالی رات کی مہیب تاریکی اور کاٹ کھانے والی ٹھنڈ سے خوفزدہ ہے ،وہ حسین خواب دیکھ پائے۔''

'' بچے نے اپنی نیند آلود آنکھوں سے ماں کی جانب دیکھا اوربولا،''ماں میری آنکھیں نیند کی وجہ سے کھل نہیں پا رہی ہیں ، لیکن میں دعا کیے بغیر نہیں سوؤں گا۔ ''

''ماں نے اس کے معصوم چہرے کو دیکھا جو کہ اس کی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کی وجہ سےٹھیک سے نہیں دکھ پا رہا تھا۔وہ بولی،''میرے بیٹے ، میرے پیچھے پیچھے دہراؤ---خداوند،غریبوں پر رحم فرما اور انہیں ٹھنڈ سے بچا؛ ان کے باریک پوشاکوں والے اجسام کو اپنے گرم ہاتھوں کے لمس سے حدت پہنچا، بھوک اورٹھنڈ میں مبتلا،مفلس زدہ گھروں میں رہنے والے یتیموں پر کرم فرما۔اے رب کریم، ان بیواؤں کی فریاد سن، جو کہ بے یارومددگار ہیں ، اور اپنے معصوموں کی وجہ سے خوف کے مارے کانپتی ہیں۔پروردگارا،تمام انسانوں کے دلوں کوکھول دے تاکہ وہ کمزوروں کی مفلسی کودیکھ سکیں۔ان غریبوں پر رحم فرما جو لوگوں کے دروں پر دستکیں دیتے ہیں اور راہروؤں کی گرم جگہوں کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔اے مالک،دیکھ ان ننھے پرندوں کی خیر فرما اور درختوں اور کھیتوں کوطوفانوں کی شدت سے محفوظ فرما۔ کیونکہ تو سب سے بڑھ کر مہربان اور محبت کرنے والا ہے۔''

''جب بچے پر نیند غالب آ گئی تو ماں نے اس کو بستر پر سلا دیا اور اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے اس کی آنکھوں کا بوسہ لیا۔پھر وہ واپس اپنی انگیٹھی کے پاس جا کر پوشاک بنانے والی اون بننے لگی۔ ''
 

Khalil Ur Rehman
About the Author: Khalil Ur Rehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.