تیل کی قیمتوں میں کمی عموماً ایسی اقوام کے لیے خوشی کی نوید لے کر آتی ہے
جہاں اس کا استعمال بکثرت ہوتا ہے۔
عام حالات میں اوسطً ہر امریکی شہری روزانہ 10 لیٹر تیل یا تیل سے متعلقہ
مصنوعات استعمال کرتا ہے۔
مگر دوسری جانب تیل پیدا کرنے والے ممالک کے لیے خام تیل کی قیمت میں کمی
لاکھوں افراد کے لیے تباہی کا عندیہ لاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تیل کو ’کالا سونا‘ کہا جاتا ہے۔ جب تیل کی قیمت زیادہ تھی
تو اس سے حاصل ہونے والی آمدن تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں اور ممالک کی
تجوریاں بھر رہی تھی، اسی آمدن کی بدولت ایسے ممالک کی عوام کا گزر بسر ہو
رہا تھا اور عوامی سہولیات میسر ہو رہی تھیں۔
مگر ایسے ممالک کے لیے اب تیل کا ہونا ایک نعمت سے زیادہ زحمت بن رہا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی پہلے ہی متنبہ کر چکی ہے کہ اس صورتحال سے سب سے
زیادہ نائجیریا، عراق اور ایکواڈور متاثر ہوں گے اور ان ممالک کی آمدن 50
فیصد سے 85 فیصد کم ہو جائے گی۔ یہ اندازہ 30 ڈالر فی بیرل قیمت کی بنیاد
پر لگایا گیا تھا تاہم اب تیل کے ایک بیرل کی قیمت 20 ڈالر سے بھی کم ہے۔
یہ تینوں ممالک تیل پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور ان ممالک کی معیشتیں
پہلے ہی کافی دباؤ میں ہیں۔
عراق کی آمدن کا 98.5 فیصد انحصار تیل کی درآمدات پر ہے۔ باقی کی 1.5 فیصد
آمدن قیمتی نگینوں، دھاتوں اور پھلوں سے آتی ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ رواں برس عراقی حکومت کو اخراجات کی
مد میں 50 ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہو گا، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو
نکال کر بات کی جائے تو پہلے ہی سے زیر دباؤ صحت کے نظام پر اخراجات کم
ترین سطح پر ہوں گے۔
کوئی ملک تیل کی پیداوار پر جتنا پیسہ خرچ کرتا ہے یہ اس کی کمزوری کو بھی
ظاہر کرتا ہے۔ سعودی عرب تیل نکالنے پر سب سے کم خرچ کرتا ہے مگر اس کے
باوجود تیل پر سعودی عرب کا انحصار اس کے آمدن میں 100 ارب ڈالر کی کمی کی
شکل میں نکل سکتا ہے۔
سنہ 2014 میں تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی کے اثرات اب بھی سعودی معیشت
پر عیاں ہیں اور ابھی وہ اس سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور آمدن میں کمی
کا یہ خلا سیاحت یا کسی اور کمائی کے شعبے کو فروغ دے کر بھی پُر نہیں ہو
سکا۔
|