کیا آپ بھی؟

غیبت ہمارے معاشرے کا وہ پہلو ہے جس کا شکار معاشرے کا تقریبا ہر فرد ہے غیبت تو ایسی اخلاق رضیلہ بیماری ہے جس نے بادشاہوں کی بادشاہت،دوستوں کی دوستیاں، ماوں کی گودیں، نسلوں کی نسلیں،خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیے ۔عصر حاضر میں ہماری بہت سی پریشانیوں،مشکلوں اور تناؤ کی وجہ چغلی یعنی غیبت ہے۔

مشاہدہ
ذاتی مشاہدے کے مطابق جب تک کوئی آپ کی زندگی یا پھر آپ کسی کی زندگی کو موضوع بحث نہیں بناتے تو اس صورت میں ہم لوگ کافی حد تک ذہنی تناؤ سے دوور رہتے ہیں۔کیونکہ جب ہم کسی دوسرے کو موضوع بحث بناتے ہیں تو بحث ختم ہو جانے کہ بعد بھی اس کے عثرات ذہن پر رہتے ہیں اور دوسرا شخص (جس سے غیبت کی گئی ہو) کی حالت بھی کچھ ایسی ہی رہتی ہے ۔غیبت کے وقت جب ہمارے خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے تو موضوع بحث شخص کے بارے میں ہمارے خیالات بدل جاتے ہیں کچھ ہم دوسرے کو باتیں بتاتے ہیں جن کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا اور کچھ ایسی باتیں وو ہمیں بتاتا ہے جن کا علم ہمیں نہیں ہوتا۔ایسے میں موضوع بحث شخص کا خود سے ہم پر بنایا تاثر نیست و نابود ہو جاتا ہے ۔دراصل ہر شخص کا اپنا ذہن ہوتا ہے لیکن ہم لوگ دوسروں کو اپنے نظریے سے دیکھتے ہوے دوسروں پر جنت و دوزخ واجب کر دیتیں ہیں ۔ انسانی فطرت ایسی ہے کے ہم سے خود کے معملات حل ہوتے نہیں اور دوسروں کے معملات سہی کرنے چل پڑتے ہیں۔

اتنا بھی نہیں سو چتے کہ یہ خدا کا کام ہے ۔"جس کا کام اسی کو ساجھے "۔غیبت ویسے کسی وائرس سے کم نہیں ہے ۔اس سے بچنے کے لیے اِک احتیاتی تدبیر ہیں ۔وہ جملہ جو میری رفیقوں نے مجھے اکثر کہتے سنا
" Don't disks others"
''دوسروں کو ڈسکس نا کرنا '' ہے ۔اگر اپنی بات کروں تو ایسا نہیں ہے کہ میں بلکل اس برای سے پاک ہوں لیکن کوش کرتی ہوں اس سے پاک رہوں ۔کیونکہ لوگ ہماری زندگی کا بہت بڑا حصہ ہیں اس لیے ان کے سک دکھ میں ان کا ساتھ دینا بھی ہمارا فرض ہے۔لکین ان کی عزت کا خیال رکھنا اور جب وہ ہمارے سامنے موجود نا ہوں تب بھی ان کے بارے میں نیک خیالات رکھنا دوستی کی علامت ہے۔مشہور معکولہ
"جیسا کرو گے ویسا بھرو گے "
اگر آپ کسی کے ساتھ برا کرتے ہو خدا اس کا بدلا آپ سے لے ہی لیتا ہے کہیں بھی کبھی بھی ۔کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔اس لیے کہتے ہیں خدا پر چھوڑ دو ۔کیونکہ مظلوم کی آہ عرش حلا دیتی ہے ۔لکھا تھا
"Never pass the negative sentences for others because it is said that you will not die until the same negative words will not pass for you by others."
(2M)
ااسلام میں غیبت کا مفہوم:
اسلام میں غیبت کو لعنت کرار دیا گیا ہے ۔اللہ تعالی
نے مسلمانوں کو اس گناہ سے بچنے کی تلقیں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کے:
"ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے برا نا کہو،بھلا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاے پس تم اسے ناپسند کرو گے ۔"
غیبت کو اتنے گھٹیا فعل سے تشبیہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اس کی کراہٹ کا احساس کرتے ہوئے اس سے بچا رہے ۔
غیبت کی مذمت حدیث میں:
آپ نے جہنم میں ایک گروہ دیکھا جس کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے،تو آپ کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزت و آبرو بگاڑتے ہیں
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا ہے کہ:
"غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ترین گناہ ہے ۔حصابہ نے پوچھنا کہ غیبت زنا سے کس طرح زیادہ سخت گناہ ہے؟تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی زنا کرتا ہے اور توبہ کر لیتا ہے تو ہو سکتا ہے اللہ اس کی کی توبہ قبول کر کہ اسے معاف فرما دے لیکن غیبت کرنے والےکی اس وقت تک بخشش نہیں ہوتی جن تک وو خود اس کو معاف کر دے جس کی غیبت کی گی ہے "
زرہ سوچیے :
ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا زیادہ تر وقت ہی اس کام میں گزرتا ہے ۔کیا ہمیں معافی مل جائے گی؟؟شاید آپ لوگوں کو لگتا ہو گا کے آپ تو یہ نہیں کرتے اگر ہاں تو آپ نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔تو سوچیے۔

احساس:
غور فرمایے گا.اگر آپ کسی کو دل سے چاہتے ہوں اور اس کو اپنا سچا دوست سمجھتے ہیں اور آپ کو کسی اور سے پتا چلتا ہے کہ وہ آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا جس کا اظہار اس نے کبھی آپ کے سامنے کبھی کیا نا ہو اور آپ کے پیٹھ پیچھے اس نے یہ بات کی وہاں دوستی تو اپنے انجام کو پہنچتی ہے لیکن کہین ہمارا اعتبار دوستی سے اٹھ جاتا ہے پاوں کے نیچے سے زمین نکل جاتی ہے اور آسمان گھر جاتا ہے اور پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے بھی کسی کے ساتھ کبھی ایسے کیا تھا جو آج ہمارے ساتھ ہوا۔اور زرہ اس شخص پر غور فرمائیے گا جس نے آپ کو بات بتائ اور سوچیے گا کہ وہ شخص کس کا سگا تھا آپ کا جس نے آپ کے با رے میں پہلے مزہ لینے کے لئے سن لیا اور بات کو ترکہ لگانے کے لیے آ کر آپ کو بتا دیا ۔یا پھر آپ کے بارے میں بات کرنے والے کا،جس نے اس کا راز تک نہ رکھا۔آپ کے سامنے آپ کا اس کے سامنے اس کا ہمدرد۔آخر میں نقصان پتا کس کا ہوا ہمارا اور ہماری دوستی کا۔لوگوں کے ساتھ مل کر ہم لوگ اپنے پیاروں کے با رے میں ایسی ویسی بات تو کر لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے جس کے ساتھ مل کر کرتے ہیں کیا وہ ہمارا ہے کہ بھی نہیں ۔بعد میں وہی جا کہ کہتا:
"چنگا اے نہ ہون پتا چلیا سو "

یہ دنیا بڑی ظالم ہے جی یہاں ہم خود پر اور اپنے خدا پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے ہیں ۔اکثر اوقات تو چغلی اس شخص کو بھی آپ کے خلاف کر دیتے ہے جس سے نہ آپ کبھی ملے اور نہ وہ آپ سے ۔

میرے خیال سےاگر آپ کو کسی کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی یا اگر کوئی اور مسلہ ہو تو آپ کو اس سے بات کرنی چاہئے نہ ہی کہ کسی اور سے ۔شاید ہو سکتا ہے کہ اس کا مقصد وہ نہ ہو جو آپ کو لگا ہو۔اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو آپ کو کسی اور سے بات کرنے سے اچھا ہے کہ آپ اپنی بات دل میں رکھیں اور اللہ پر چھوڑ دیں وہ وقت انے پر ضرور آپ کا مسلہ حل کر دے گا۔

نظرہ ثانی:
ہو سکتا ہے کہ اس تحریر میں بات کو بیان نہ کر پائ ہوں لیکن میں نے اس میں وہ لکھا جو میں نے مشاہدا کیا۔کسی شاعر نے کہا کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت مگر پرواز رکھتی ہے

بے شک نہ چاروں انگلیاں برابر ہوتی ہے نہ ساری دنیا ۔ضروری نہیں کہ ہر انسان ایسا ہو لیکن اکثریت ایسی ہے ۔میرے نظریے سے ہر شخص اپنی جگہ اور دل سے اچھا ہوتا ہے ۔بس حالات انسان کو ایسا بنا دیتے ہیں ۔ میرا تھوڑا اصول ہے اور میں اکثر دوسروں سے کہ دیتی ہوں کہ اگر ان کو میری کوئی بات اچھی نہ لگے وہ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں ان سے معذرت کر لوں یا پھر وضاحت کر دوں ۔اسی طرح اگر کسی کو میری راے سے اختلاف ہے یا پھر میرے علم میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو وہ ای میل کر سکتا ہے۔

Maryam Mehboob
About the Author: Maryam Mehboob Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.