عورت

ایک مرد یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ ایک عورت جو ساری زندگی گزار رہی ہو اس کے ساتھ آہستہ آہستہ اندر سے مرتی کیوں جارہی ہیں وہ پہلے جیسے شوق کیوں نہیں رہے اب اس کے ،وہ چہرے پر تازگی کیوں نہیں رہی، اب کیوں ختم ہو رہی ہے وہ اندر سے، رفتہ رفتہ خاموش کیوں ہوتی جارہی ہے وہ پہلے جو اس کے پاس ڈھیروں باتیں ہوتی تھیں اب کہاں گئی وہ ساری باتیں کہانیاں اور قصے ۔

عورتیں جب ماں باپ کے گھر ہوتی ہیں تو باپ کے جیسے حالات ہوتے ہیں ویسے ہی ان کا گزارا چلتا ہے ہر بیٹی صبروشکر سے زندگی گزار کے چل دیتی ہے شوہر کے گھر ۔اب شوہر کے حالات پر منحصر ہے کہ وہ بیوی کو کیسے رکھتا ہے کیا پہناتا ہے اور کیا کھلاتا ہے ۔ عزت دیتا ہے عورت کو یا پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے ۔اب جو بھی ملے رہنا تو شوہر کے ساتھ ہی ہے اگر خوش اخلاق شوہر ہے بیوی پہ بھروسہ رکھتا ہے پیسہ اور خود اعتمادی بھی دی ہے عورت کو تو عورت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی،خوش رہے گی جوان رہے گی اور خوبصورت رہے گی لیکن اگرعورت میں صرف نقص ہی نظر آتے رہے شوہر کو اور وہ قربانیاں نظر نہ این جو تقریبا ہر عورت ہی روز دیتی ہے اپنے گھر میں کبھی گھر کے لئے تو کبھی بچوں کے لئے تو کبھی شوہر کے لئے تو یہ کافی ہےایک عورت کو اندر سے ختم کرنے کے لئے ۔جب شوہر کو ضرورت ہوتی ہے تو عورت اپنا زیور تک بیچ دیتی ہے ،کبھی اپنا جہیز میں آیا زیور بچوں کی شادیوں میں دے دیتی ہے تاکہ شوہر پہ بوجھ نہ پڑے، کبھی اپنے جہز میں ملا مکان بیچ دیتی ہے تاکہ شوہر کے مسائل حل ہو سکیں ،گھر میں سب کا خیال تو ایک عورت ہی رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی آدمی کو لگتا ہے کے عورت کے بغیر گھر چل سکتا ہے ۔ایک عورت کو سالانہ کپڑے اور جوتے دلانے سے اس کے احسانات کا بدلہ نہیں اتارا جاسکتا ۔جتنی قربانیاں ایک عورت چپ چاپ دیتی ہے بدلے میں اس کو ملتی ہے وقت بے وقت شوہر کی طرف سے ناقدری گھر سے نکال دیے جانے کی دھمکی تم موٹی ہو تم بد شکل ہو تم پھواڑ ہو تم سے شادی کرکے میں پچھتا رہا ہوں اور پھر آخر میں کسی دن بھی غصے میں آکر طلاق ،یہ ہے ایک عورت کی کہانی سچ ہی کہتے ہیں عورت کا تو کوئی گھر ہی نہیں ہوتا باپ کا گھر اپنا نہیں ہوتا پھر شوہر کا گھر کبھی اپنا نہیں ہوتا کیونکہ وہ کسی بھی دن بیوی کو گھر سے نکال سکتا ہے طلاق دے کر کیونکہ اس کو اختیار ہے اس بات کا اور جب بیٹے جوان ہو جائیں تو بہو ساس کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے گھر سے باہر نکال کر کھڑا کر سکتی ہے کیوں کہ شاید اس کو بھی اختیار ہے اس بات کا ۔

Sabina Rashid
About the Author: Sabina Rashid Read More Articles by Sabina Rashid: 13 Articles with 15436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.