آپ کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے لیکن تیل اب بھی دنیا کی سب سے اہم چیز ہے۔
عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت عالمی
معیشت میں کیا ہو رہا ہے اس کے علاوہ مستقبل میں جو ہونے والا ہے اس پر بھی
اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔
اس وقت تیل کی قیمتوں سے ہمیں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ عالمی معیشت شدید مندی
کا شکار ہے ایک ایسا بحران جس کی سنگینی ابھی شرح نمو کے منفی اعداد و شمار
سے پوری طرح ہمارے سامنے نہیں آئی ہے۔ گذشتہ ہفتے اس وقت دنیا بھر کو ایک
شدید دھچکا لگا جب تیل کی قیمتیں منفی 40 ڈالر فی بیرل پر پہنچ گئیں۔ سب اس
پر حیران رہ گئے لیکن یہ ایسا نہیں تھا جیسا نظر آ رہا تھا۔
عالمی سطح پر تیل کی تجارت پہلے سے طے شدہ معاہدوں (فیوچرز) کی صورت میں
ہوتی ہے جو کسی متعین کردہ دن کو اپنی مدت پوری کرتے ہیں۔ جس کے پاس بھی یہ
معاہدے اور سودے ہوتے ہیں انھیں ان کی مدت پورے ہونے پر تیل وصول کرنا یا
اٹھانا ہوتا ہے۔ بہت سے افراد جو تیل کے سودے کرتے ہیں انھوں نے نہ کبھی
ایک بیرل بھی تیل دیکھا ہوتا ہے نہ کبھی دیکھتے ہیں اور ایسے میں تیل وصول
کرنا تو دور کی بات ہے۔
تیل کے سودے زیادہ تر فضائی کمپنیاں اور بڑے بڑے صنعتی ادارے اور کمپنیاں
استعمال کرتی ہیں تاکہ تیل کی قیمتیں اچانک بڑھ جانے کی صورت میں نقصان سے
بچا جا سکے۔
امریکہ میں تیل ذخیرہ کرنے کی ایک دائمی کمی کی وجہ سے تیل کے سودوں کی مدت
ختم ہونے پر اچانک قیمتوں میں کمی یا اضافہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کیونکہ
تیل کے بیوپاری نہیں چاہتے کہ ان کے پاس ایک بھی گیلن تیل بچ جائے۔
|