میری طرح اور بھی اس دنیا میں بہت سے لوگ ہوں گے جو یقینا
دنیا میں گھوم کر لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں ان کو جاننا چاہتے ہیں اور ان سے
سیکھنا چاہتے ہیں میں لوگوں سے اس لیے ملنا چاہتے ہو تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ
ان کے اندر کتنی خوبیاں ہیں یہ جاننے کے لئے نہیں کہ اندر کتنی خامیاں ہے
یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ کس طرح وہ دوسروں کو خوشیاں دے سکتے ہیں میں نے
سوچا میں لوگوں سے ملو گی ان کی اچھائیاں دیکھوں گی جانو گی پھر ان کا اپنے
ساتھ موازنہ کروگی تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں کیوں کہ انسان کی برائیاں
جاننے کے لیے دنیا گھومنا ضروری نہیں ہوتا زندگی میں کسی ایک لمحے میں ایک
انسان سے ملکر ہے آپ کو اس میں ایک نہ ختم ہونے والی خامیوں کی ایک لسٹ نظر
آئے گی جو بعض اوقات ہمیں خود کو بھی ہمارے ضمیر کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے
اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ واقعی ہم انسان ہونے کا حق ادا کر
رہے ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالی نے ہم اس دنیا میں اپنی عبادت کرنے کے لئے
بھیجا ہے اور دوسروں کی خدمت کے لیے لیکن ہم لوگ اس دنیا میں آ کر اپنی
خوشی ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ خوشی رونے کے ساتھ اللہ کے احکامات پر عمل
کرنا بھی ضروری ہے۔ خوش رہنے کے لیے ہمیں خوشی کو پیدا کرنا ہوگا اور غموں
کو ناپید کرنا ہوگا۔ اور خوشی ہمیں ایک عام انسان سے ایک خاص بندہ بن کر ہی
مل سکتی ہے۔ کیا عام سا بندا وہ ہوتے ہیں جو عام سے کپڑے پہنے عام عام سا
کھانا کھائے اور کوئی عام سا کام کرے؟ نہیں بلکہ عام سے بندہ وہ ہوگا جو
اپنے نفس پر کبھی کبھار قابو پانے کی ضرورت محسوس کر لیتا ہے اور کبھی
کبھار اپنا احتساب کرتا ہے اسے کبھی احساس نہیں ہوتا کہ روز کتنے گناہ کرتا
ہے اور خاص بندہ تو وہ ہوگا جس کا اپنے نفس پر قابو ہوگا جو اپنی نیکیوں کا
اچھائیوں کا حساب یاد رکھے یا نہ رکھے لیکن برائیوں کو اپنے قریب بھی نہ
آنے دے۔ جب بھی بات کرے تو اچھائی کی کریں یعنی وہ پہلے اچھائی پکاتا ہے
اچھائی کھاتا ہے اور یقینا اچھائی ہی بانٹے گا,،کیونکہ انسان دوسروں کو وہی
دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے خاص بندہ تو اچھا یے وہ اپنے دادا
سکون حاصل کر لیتا ہے اس لئے عام بندے کو خاص بننے کے لیے ایک جنگ لڑنی
ہوگی اپنے نفس کے خلاف، برائیوں کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا اور جو اچھائی خود
حاصل کرتا ہے اسے دوسرے میں بھی باٹنا ہوگا کیونکہ وہ یہ جنگ لڑنے کے بعدہی
سکون حاصل کر پائے گا اور اصل خوشی تو سکون حاصل کرنے سے ہی ملتی ہے۔ اور
اللہ تعالی کو تو اپنا ہر بندہ ہی پیارا ہے چاہے وہ بندہ کتنا ہی گنہگار
کیوں نہ ہو اور اللہ تعالی نے ہم سب کو بیسٹ بنایا ہے مرے جسم کا ہر ارگن
بنایا ہے صورت دی اور بصیرت بھی دی؟ کیوں کہ اللہ خود بیسٹ ہے، تو کیا ہمیں
بھی اللہ کے پاس عام انسان کی حالت میں جانا چاہیے یا خاص بندہ بن کر؟ اور
یہ آپ کے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کیا آپ کس کیٹگری میں جانا چاہتے ہیں ؟ایک عام
سے بندے کی کیٹیگری میں یا خاص بندے کی کیٹگری میں؟
کیا خوب لکھا ہے شاعر مشرق نے
میں تجھ کو تجھ سے زیادہ چاہوں گا
مگر شرط ہے اپنے اندر میری جستجو پیدا کر
|