موجودہ دورمیں سوشل میڈیاتیزسے تیزترہوچکاہے۔اس کاثبوت
ہمارے موبائل فون ہیں جوہرلمحے کسی نئے پیغام یاٹوئیٹ کے آنے سے بجتے رہتے
ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ اب وقت بدلنے والاہے۔جس طرح فاسٹ فوڈکی
مقبولیت نے1980 ءکی دہائی میں’’سلو فوڈ‘‘(Slow Food)مہم
کاآغازکیااور2000ءکی دہائی میں رئیلٹی ٹی وی پروگرامات کی بھرمارنے
’’سلوٹی وی‘‘ (Slow TV)کی شروعات میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح اب یہ خیال
کیاجارہاہے کہ2020ءمیں ’’سلوسوشل‘‘ (Slow Social)یعنی نسبتاًسست سوشل
میڈیاکوفروغ ملے گا۔اس تبدیلی کاآغازبھی ہو چکاہے۔سماجی رابطے کے ادارے جو
ماضی میں اپنی خدمات کو آسان اورتیزتربنانے پرتوجہ دیتے تھے اب اپنے اس
رویے میں تبدیلی لارہے ہیں ۔
گزشتہ سال جولائی میں واٹس ایپ نے یہ پابندی عائدکردی کہ کوئی بھی پیغام
ایک وقت میں پانچ سے زائدافرادکونہیں بھیجاجاسکتا۔انسٹاگرام نے بھی ایک
ایسی خصوصیت متعارف کروائی ہےجس میں تمام نئی تصاویردیکھنے کے بعدصارفین کو
یہ پیغام موصول ہوتاہے کہ اب وہ تمام نئی تصاویر دیکھ چکے ہیں۔ اس پیغام
کامقصدیہ ہے کہ صارفین اب اپناوقت دیگر سرگرمیوں میں صرف کریں۔ اسی طرح فیس
بُک نے بھی ایک خصوصیت متعارف کروائی جس سے صارفین یہ جان سکیں گے کہ وہ
سوشل میڈیاپرکتناوقت صرف کررہے ہیں۔گزشتہ سال ستمبرمیں ٹوئیٹرنے اعلان
کیاتھا کہ وہ صارفین کوپرانی ٹائم لائن پرجانے کی اجازت دے گا۔پرانی ٹائم
لائن پرٹوئٹس نئی ٹائم لائن کے برعکس سادہ اندازمیں نظرآتی تھیں۔
ٹوئیٹرکی نئی ٹائم لائن اورواٹس ایپ پرپیغامات بھیجنے کے آسان طریقے نے
خبروں کوبہت تیزی سے پھیلانے(وائرل کرنے) میں اہم کرداراداکیا۔ اس کے بہت
بھیانک نتائج سامنے آئے۔گزشتہ سال بھارت میں پُرتشدد واقعات کی ایک لہرچل
پڑی تھی۔ان واقعات کی وجہ واٹس ایپ پروائرل ہونے والی افواہیں تھیں۔ان
واقعات کے بعدسوشل میڈیاپرخبروں کوبے لگام طریقے سے پھیلنے سے روکنے
کیلئےاقدامات شروع ہوئے۔فیس بک جیسی سماجی رابطے کی بڑی کمپنی جس کی ملکیت
میں انسٹاگرام اورواٹس ایپ بھی ہیں ،کی اب یہ خواہش ہے کہ صارفین سوشل
میڈیاکااستعمال شعوری،مثبت اور متاثر کن اندازمیں کریں ۔یہ اس بات کاثبوت
ہے کہ سماجی رابطے کے ادارے بھی سوشل میڈیا کے منفی اثرات کوتسلیم کرچکے
ہیں اوراب وہ یہ چاہتے ہیں کہ صارفین اِن منفی اثرات کے باعث سوشل میڈیا
کوترک کرنے کے بجائے اس کا مثبت استعمال سیکھیں۔سماجی رابطے کے اداروں کی
جانب سے متعارف کی گئی مذکورہ بالاخصوصیات اس بات کااشارہ ہیں کہ یہ ادارے
ٹیکنالوجی کے تیز رفتارسفرکوشعوری طورپرسست کرناچاہ رہے ہیں۔ سال 2019ءمیں
اس حوالے سے مزیداقدامات متوقع ہیں۔
ٹیکنالوجی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی خیرپرمبنی چیزہے۔ان کاخیال ہے
کہ معلومات اس بات کاتقاضاکرتی ہیں کہ اس کومحدودنہیں رکھاجائے۔ معلومات
کاتبادلہ جتنازیادہ ہواتناہی بہترہے۔جن کمپنیوں نے دنیاکوباہم جوڑنے کادعویٰ
کیاتھا ان سے بھی یہی توقع کی گئی تھی کہ وہ معلومات کے تبادلے میں معاونت
فراہم کریں گی۔سِلی کون ویلی کی بنیاد میں بھی یہی خیال پوشیدہ تھا۔گزشتہ
کچھ عرصے میں ٹیکنالوجی کی دنیامیں کئی انقلابات برپاہوئے۔ایپل نے اسمارٹ
فون کومقبول ِعام بنایا، فیس بک نے 2ارب سے زیادہ افرادکو ایک دوسرے سے
جوڑدیا،گوگل کے ذریعے کم وبیش ہر سوال کاجواب میسر ہے ۔ اس کے علاوہ
ایمازون،نیٹ فِلکس اوراُوبرجیسی کمپنیوں نے خودکوعوام کی کثیرتعداد
کیلئےناگزیربنالیاہے۔ان تبدیلیوں کے کچھ غیرمطلوبہ نتائج بھی
ظاہرہوئے۔لاکھوںصارفین کی شناخت اورڈیٹا،ہیکرزکے ہاتھوں چوری ہوا۔ سوشل
میڈیاکو انارکی پھیلانے اورسیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا۔اس
کے علاوہ مصنوعی ذہانت اور چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی کئی
خدشات اورخطرات موجود ہیں۔
ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی سراٹھا رہاہے کہ آخر
ہمارااورآنے والی نسلوں کامستقبل کیساہوگا، ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی
جذبات پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوں گے۔ٹیکنالوجی ماہرین نے پالیسی ساز
افراد،تعلیمی ماہرین اور صارفین کے ساتھ مل کران سوالات کے جوابات تلاش
کرنے کی کوششوں کاآغازکردیاہے۔ان ہی میں سے کچھ افراد سے مستقبل کے
چیلنجوں کے بارے میں دریافت کیاگیاجس کے یہ جوابات سامنے آئے ہیں۔
بریڈاسمتھ،صدرمائیکروسافٹ کاکہناہے کہ چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی ہرگزرتے دن
کے ساتھ انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا کررہی ہے۔تاہم اس ٹیکنالوجی کے کچھ
نقصانات بھی نظرآرہے ہیں۔اب تک حکومتیں اس ٹیکنالوجی کوکنٹرول کرنے میں
ناکام رہی ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ ساتھ
عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کیلئےقانون سازی کی جائے۔ہمارامستقبل
ایساہوناچاہیے جس میں کمپنیوں کومعاشرتی ذمہ داریوں اورکاروبارمیں سے کسی
ایک چیزکا انتخاب نہ کرناپڑے۔ مورن سرف، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے مطابق
اب تک ہم دنیامیں کاروباراورمعاش کے شعبوں میں عدم مساوات کا مشاہدہ کرتے
رہے ہیں۔ہوسکتاہے کہ آنے والے وقت میں ذہنی عدم مساوات بھی ایک چیلنج بن
جائے۔ذہنی عدم مساوات کامطلب ہے کہ لوگ اپنے دماغ میں چپ نصب کروا کرسوچنے
کی صلاحیت کوبڑھالیں گے اوردوسروں سے زیادہ ذہین ہوجائیں گے۔اس ٹیکنالوجی
کی وجہ سے خیالات میں تبدیلی واقع ہونے کاخدشہ بھی موجودہے۔ نیوروسائنس دان
اب اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ مصنوعی طریقے سے انسانی دماغ میں خیالات داخل
کرسکیں۔سوال یہ ہے کہ کیاہم خود سوچے گئے خیالات اورمصنوعی خیالات میں فرق
کرسکیں گے؟
نئی نسل کی حفاظت کے سلسلے میں کیتھی ہرش پاسِک،جوشوااسپیرونے تسلیم کیاکہ
انسانی معاشرے کی ترقی اوربہبود کا دارومدارافرادکے مابین سماجی تعلقات
پرہوتاہے۔حالیہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب والدین اپنی توجہ
کمسن بچوں سے ہٹاکراپنے فون پرمرکوزکرتے ہیں تودراصل وہ ان سماجی تعلقات
کونقصان پہنچارہے ہوتے ہیں۔والدین کے اس عمل کابچوں پرمنفی اثرہوتاہے۔ہم
دیکھ رہے ہیں کہ بچے معاشرتی طورپر مکمل ہم آہنگ نہیں ہورہے ہیں۔اس کے
علاوہ پری پرائمری سے آٹھویں جماعت کے اساتذہ کاکہناہے کہ بچوں میں
بڑھتاہوا ذہنی اورجذباتی دباؤ اس وقت ان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ان دونوں
مسائل کی اصل وجہ اسمارٹ فون متعارف ہونے کے بعد معاشرے میں آنے والی
تبدیلیاں ہیں۔مشہورزمانہ جوشوا کور مین،سائبر سیکورٹی ماہرنے اپنے ایک
مضمون میں لکھاہے کہ میں نے ایک رضاکارانہ پروگرام شروع کیاہے جس کامقصد
اسپتالوں کی سائبرسیکورٹی کی جانچ پڑتال کرکے انسانی زندگیوں کاتحفظ
کرناہے۔ہم نے اسپتالوں کی نقل (Simulation) تیارکی اورپھرہیکنگ کے ذریعے
جان بچانے والےآلات کوبند کردیا اور مریضوں کے ریکارڈمیں خطرناک تبدیلیاں
کیں۔ظاہرہے یہ سب ہم حقیقت میں نہیں کررہے تھے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ
حقیقت میں ایساکچھ نہیں ہو سکتا۔آج کل ڈاکٹرٹیکنالوجی اورمشینوں پر مکمل
بھروسارکھتے ہیں لیکن یہ سہولیات کبھی کبھی خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
|