COVID-19ایک مصیبت،آزمائش، بیماری وباء اور اللہ کی طرف
سے ایک پکڑ کا نام،ہر ملک اور مذہب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے ہی
انداز میں اس کو سمجھا اور جانا اور پھر اس کے لیے اقدام اُٹھائے۔ COسے
مراد کورونا VI سے مراد وائرس اورD-19 سے مراد دسمبر 2019۔ یعنی یہ موذی
وباء دسمبر2019 میں اس دُنیا فانی میں نمودار ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ چین کے
شہر ووہان سے شروع ہو کر پوری دُنیا میں تہلکہ مچادیتی ہے۔ ہر ملک نے اپنے
انداز اور طبی ماہرین کی مشاورت سے اس پر قابو پانے کی کوشش کی اور کوشش
جاری و ساری ہے۔ چین چونکہ ایک منظم قوم ثابت ہوئی اس نے اپنے شہر ووہان کو
لاک ڈاؤن کرکے وہاں کے محصور عوام کو وقت پر کھانا اور دیگر سہولیات باہم
فراہم کیں۔ کورونا کی لپیٹ میں امریکہ جیسا ملک بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
ہو گیا،پاکستانی حکومت جنوری میں اس وباء سے بچنے اور قابو پانے کے لیے
مختلف وزیروں، مشیروں سے بیٹھک کرتی ہے۔ اس کی روک تھام طبی سامان اور عوام
کی بہتری کے لیے گرانٹس جاری ہوتی ہے۔ ان گرانٹس پر مختلف انداز میں مختلف
بیانیے سامنے آئے، آرہے ہیں اور آتے رہیں گے، خیر 13-03-2020کو لاک ڈاؤن کا
حکم نامہ جار ی کر دیا جاتا ہے۔ کور کمانڈر کی بیٹھک ہوتی ہے، پاک آرمی کے
جنرل افضل صاحب کو NDMA (National Disaster Management Authority)کا
چیئرمین بنا دیا جاتا ہے، یہ ایک خاموش حکمت ِ عملی تھی کہ وزیر اعظم
پاکستان کے وزیر مشیر کس قابل تھے۔ لاک ڈاؤن میں تمام سکولز،کالجز،
یونیورسٹیز کو بند کر دیا جاتا ہے، پھر پبلک ٹرانسپورٹ ترتیب وار سارے
کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی ایک ہی روئیداد کہ دیہاڑی
دار مزدور، روز کی کماکرکھانے والا پس جائے گا، بے بس ہو جائے گا، اس کا
بھی سوچنا ہے، پھر ا حساس پروگرام کا مرحلہ آتا ہے، حکومت اپنے طو ر پر
غریبوں کی مدد کرنا چاہتی ہے، لیکن اس سے بیوروکریٹس ذہنی غربت والے بھی
استفادہ حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔ لاک ڈاؤن بڑھتا گیا معاشی حالات نے کروٹ
لی، مخیر حضرات سامنے آئے، کسی نے اللہ کی رضا کے لیے تو کسی نے خود نمائی
کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔بہت سی فاؤنڈیشن بھی میدان میں آئیں۔ دن رات
راشن پیک ہو کر لوگوں کی دہلیز پر پہنچایا جانے لگا۔ جو غریب تھا، روز مرتا
اور جیتا تھا اس نے تو لائن میں کھڑے ہو کر، بچوں کی بھوک کا رونا روکر
راشن تقسیم سے کچھ حاصل کر لیا، کچھ بانٹنے والوں نے اپنے طور پر اپنوں کے
ساتھ ساتھ تعلق واسطے کا بھرم بھی رکھتے ہوئے ان کے گھروں تک پہنچا دیا
شاید جن کو ابھی ضرورت نہیں بھی تھی، اس ساری کھیڈ میں ہوا کیا جو سفید پوش
تھا وہ اس راشن تقسیم سے کچھ فائدہ حاصل نہ کر سکا، نہ وہ باہر نکل کر لائن
میں کھڑا ہو سکا اور نہ ہی کسی کو اپنا پلہ اٹھا کر پیٹ ننگا کر کے دکھا
سکا، اور مزے کی بات جس گلی محلے سے رضاکار اور راشن تقسیم کرنے والے مخیر
حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا انہوں نے بھی ان سفید پوشوں کی سفید پوشی کو
سامنے رکھتے ہوئے بغیر جانچے راشن تقسیم سے لا تعلق کردیا۔ بھئی ٹھیک ہے۔
صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، موٹرسائیکل ہے اور بچے سکول پڑھتے ہیں وغیرہ
وغیرہ، پھر راشن کی بندر بانٹ کچھ اس طرح سے بھی ہوئی کہ غریب ایک طرف سے
راشن لیتا اور دوسری طرف دکاندار کو فروخت کر دتیا پھر موقع پاکر یہی مشق
دہراتا۔ حکومتی سطح پر احساس پروگرام کا ڈیٹا بیس ایسا جال تھا جس میں
سفیدپوش نہیں آ سکتا تھا۔ البتہ بیوروکریٹس ضرور شامل ہو سکتے تھے اس کی
واضح مثال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔ جنہوں نے احساس پروگرام میں شامل
ہونے کے لیے دیئے گئے نمبر پر شناختی کارڈ سینڈ کیا وہاں سے رسپانس ملا کہ
آپ کے کاغذات کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے، آپ کو مطلع کر دیا جائے گا۔ جو آج
تک انتظار میں ہیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے اربوں کا راشن یا مالی امداد
تقسیم ہوئی کہ کسی کو ہاتھوں ہاتھوں خبر ہی نہ ہوئی کہ وہ کہاں گیا، پوچھنے
پر علم ہوا کہ انہوں نے اس طرح تقسیم کیا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ خیر
اس راشن تقسیم کا پاکستانی عدلیہ نے خود نوٹس لیا، اس کا کیا فیصلہ آتا ہے۔۔۔
اللہ بہتر جانتا ہے۔۔ایک اور تحصیل میں بھی راشن تقسیم ہونا شروع ہوا کچھ
مخیر حضرات نے کسی ایک کو مالی امداد دی کہ بہتر طریقے سے راشن کو Manageکر
کے تقسیم کر دینا۔ مال خریدا گیا، واپسی پر پیک تیار ہو گئے، کسی کو خبر ہو
گئی کہ ہماری دی گئی رقوم، مالی امداد میں خردبر د ہے، انہوں نے اپنے طور
پر پتہ جوئی کی یہاں سے مال خرید ہو ا وہاں تک پہنچ گئے، وہاں سے علم ہوا
کہ جو اسٹاک جو ابھی تک سیل نہیں ہوا یعنی پرانا ہے، سستے داموں خرید کر
راشن تقسیم کا حصہ بنایا اور اس میں کم و بیش پانچ تا سات لاکھ کی ڈنڈی
ماری گئی۔ مزے کی بات یہ اس فلاحی تقسیم سے بھی سرمایہ دار ہی خریدو فرخت
سے لاکھوں روپے کما گیا اور سفید پوش پھر گھر کا گھر ہی رہ گیا۔ چند ایک
سفید پوش کو تومیں بھی جانتا تھا، اس علاقے میں تقسیم کنندگان یا اثرو رسوخ
رکھنے والے سے مَیں نے کہا، یا ر کچھ سفید پوش میرے علم میں ان تک راشن
نہیں پہنچا، وہ کہنے لگا سر جی آپ سے رابطہ کرتا ہوں آج پانچواں دن ہے وہ
نہیں آیا۔ میرے سے جو ہو سکا ان سفید پوش کے ساتھ کیا لیکن وہ ناکافی تھا۔
میرے دوستو! مخیر حضرات اور رضاکارو آپ سب کو اپنے اپنے محلہ اور گلی کا
بخوبی علم ہے کہ کون دیہاڑی دار، کون چھوٹا دکاندار، چھاپڑی والا یا ریڑھی
والا بظاہر اچھا نظر آتا ہے لیکن وہ روز کی روز کما کرکھانے والا ہے۔ جب
تقسیم کے لیے نکلو تو پہلے پلیز تنہائی میں بیٹھ کر اپنی گلی اور محلہ کا
جائزہ لینا ایسا نہ ہو ہم حاتم طائی بن کر دور دور تک راشن تقسیم کردیں
لیکن اپنا پڑوسی بھوکا رہ جائے، کیونکہ سب سے پہلے سوال بھی پڑوسی کے بارے
میں پوچھا جائے گا، ایسا نہ ہو آپ کی محنت، دیانتدار، آپ کے گلے کا پھندا
بن جائے کہ تو نے اپنے پڑوسی کی خبر تک نہ لی۔ ذرا سوچیں اگر ہم سب اپنے
اپنے ایک ایک پڑوسی کا خیال رکھنا شروع کر دیں تو انشاء اللہ رب کریم کی
رحمت سے اس کورونا جیسے ایشو سے نکل جائیں گے، غریب اور سفید پوش بھی بھوکا
نہیں سو ئے گا۔ اور حقدار تک اس کا حق پہنچ جائے گا۔۔ دُعا کریں کہ اللہ
تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے آمین۔
|