رمضان، غریب پروری اور دینی مدارس

الحمد ﷲ زندگی میں ایک دفعہ پھررمضان المبارک کی با برکت گھڑیاں آچکی ہیں۔ کورونا وائریس کے سبب مساجد پر پابندیاں ہیں جس کی بنا پر کچھ رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ البتہ مشکل کی اس گھڑی میں ان شاء اﷲ ہر گھر مسجد کا منظر پیش کرے گا۔ غم گساری کے اس مہینے میں مسلمان باقی عبادات کے ساتھ ساتھ غرباء کی مدد کیلئے عطیات بھی بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کے مطابق رمضان شریف کا مہینہ جہاں نیکیوں کا موسم بہار ہے وہاں غریب پرور بھی ہے۔ ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے اس ماہ مبارک کو غمگساری اور ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ قرار دیا ہے۔اگر ہر مسلمان اپنی پوری زکوۃ نکال کر مستحقین میں تقسیم کرے تو عملا غربت ختم ہو جائے۔ دنیا کی زندگی دار الامتحان ہے۔ اﷲ کریم نے کسی کو امیر کرکے امتحان لیا تو کسی کو غربت رکھ کے۔ پھر امیروں کے مالوں میں غریبوں کا حق رکھ دیا اور فرمایا ’’وفی اموالہم حق للسائل والمحروم (الذاریات19)‘‘کہ ہم نے ان صاحب ثروت لوگوں کے مال میں دست سوال دراز کرنے والوں اور محروم طبقات کا حق رکھ دیا ہے۔ جن کو عطیات دیے جائیں ان کو احسان جتلانے اور عزت نفس مجروح کرنے سے بھی روکا گیا۔ اس سے صدقات و خیرات کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ صدقۃ الفطر کو ہر صاحب حیثیت پر اسی لئے فرض کیا گیا تاکہ غرباء بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ اس کی بظاہر حکمت بھی یہی دکھائی دیتی ہے کہ اﷲ کریم اپنے بندوں کو ایک پیغام دیتے ہیں کہ اے بندے تو نے اپنے لیے راہ نجات کی تلاش اور میری خوشنودی کیلئے مہینہ بھر بہت عبادات کیں۔ لیکن میرے حکم کے باوجود میری زمین پر بسنے والے ایک غریب آدمی کو پیٹ بھر کے کھانا تک نہیں کھلا سکا۔ جب تم اسے کھانا کھلاؤ گے تو میں تیری عبادات کو بھی شرف قبولیت عطا کردوں گا۔ وہ لوگ جو اپنے عطیات غرباء تک خود نہیں پہنچا سکتے ان کی وکالت کرتے ہوئے فلاحی ادارے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ان خیراتی اداروں پر بھی بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جن غریبوں اور بے کسوں کی غربت و لا چارگی کے نام پر عطیات اکٹھے کرتے ہیں ، پوری ذمہ داری کے ساتھ ان تک پہنچائیں۔ لوگ ان خیراتی اداروں پر اعتماد کرتے ہیں لہذاکسی بھی صورت اس اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین کامل ہے کہ یوم حساب بہت قریب ہے اور احکم الحاکمین کی عدالت میں پائی پائی کا حساب دیناہوگا۔ قرآن پاک کی رو سے یتیموں کا مال کھانے والا پیٹ میں جہنم کے انگارے ڈال رہا ہوتا ہے، حد درجہ احتیاط لازم ہے۔ انفرادی طور پر بھی لوگ اپنے اپنے آبائی علاقوں میں رقوم بھیج کر یتیموں، بیواؤں اور بے کسوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سال غریب ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے غرباء اور دہاڑی دار مزدوروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، اس لئے بڑھ چڑھ کر ان لاچار، بھوک و افلاس کے شکار لوگوں کی خدمت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات متاثر ہوئے وہاں دینی ادارے بھی بہت حد تک متاثرہیں۔ اس وقت وہ مخیر حضرات جن کے تعاون سے مساجد و مدارس کا نظام چلتا ہے، ان کی زیادہ تر توجہ معاشرے کے دیگر طبقات اور مسائل کی طرف ہے۔علاوہ ازیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار اور ذرائع آمدن میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ان حالات اور عدم توجہی کی صورت میں دینی مدارس اور مساجد انتہائی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ کہیں بھی مساجد و مدارس کے ساتھ تعاون کرتے تھے ان حالات میں بھی اپنا معمول کا تعاون جاری رکھیں تاکہ اﷲ کے یہ گھر اور دین کے مراکز آباد رہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت تک حکومت نے مساجد اور دینی مدارس کیلئے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا۔ اس وجہ سے ان اداروں میں خدمات سرانجام دینے والے ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں زیر تعلیم بچے متاثر ہوں گے۔ بیرون و اندرون ملک مقیم اصحاب ثروت کا فرض منصبی ہے جہاں غرباء و مساکین کی مدد کر رہے ہیں، وہاں خصوصی طور پر دینی اداروں کو بھی ہر گز نہ بھولیں۔ ان کے ساتھ مالی تعاون کر کے ان کے نظام کو بحال رکھیں اور انہیں بند ہونے سے بچائیں۔ ان مدارس کے فیض یافتہ علماء اور سکالرز بھی اس حوالے سے اپنے فرض منصبی کو بطریق احسن نبھائیں۔ لبرلز اور اسلام دشمنوں کی طرف سے دینی مدارس کے خلاف منفی پراپیگنڈہ اور ہرزہ سرائی بھی دیکھنے سننے کو ملتی رہتی ہے اس لئے ان اداروں کی اہمیت کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں پراک طرف الحاد کی صورت میں اعتقادی و فکری اور دوسری جانب بے راہ روی اور فحاشی کی یلغار کی جارہی ہے۔ ان یلغاروں کی سامنے اگر کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور اسلام کے قلعے ہیں تو وہ بلا شبہ ’’دینی مدارس‘‘ ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس طلبہ کو مفت تعلیم دے کر شرح خواندگی کے گراف کو بلند کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دینی مدارس کا نظام روزانہ کم از کم دس لاکھ لوگوں کو مفت روٹی، کپڑا اور رہائش فراہم کرتا ہے۔ہے کوئی این ۔جی۔ او یا فلاحی نظام جو پاکستان میں روزانہ دس لاکھ لوگوں کی مفت خوراک اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کر رہا ہو؟ دعوت و تبلیغ اور دینی اخبارات و جرائد کا نظام دینی مدارس کا ہی مرہون منت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کے تشخص کو ہر زمانے میں قائم رکھنے کا ذریعہ بھی مدارس دینیہ ہی ہیں۔ایک موقع پرشاعر مشرق علامہ اقبال رح نے دینی مدارس کے متعلق کہا تھا کہ ’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں ہوا۔مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا سلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔ اﷲ کریم اس رمضان شریف میں ہمیں اپنا شکرگزار بندہ بننے کی توفیق دے۔ کورونا وائریس کی صورت میں اس آفت سے نجات عطا کرے۔ آمین
خوشا مسجد و مدرسہ خانقاہے کہ در وے بود قیل و قال محمدﷺ

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218985 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More