آپ لوگوں نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ، '' نیکی کر دریا میں
ڈال..''
نیکی بھی ایسے کرو کہ آپ کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ کء دنوں سے میں
سوشل میڈیا پہ دیکھ رہی ہوں کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کرونا وائرس کی
وجہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے باعث ہر غریب طبقے کو تو نہیں لیکن جتنے بھی
غریب لوگوں میں راشن تقسیم کیا جارہا ہے، ان کو راشن فراہم کرنے والا صرف
امیر طبقہ ہی نہیں بلکہ کچھ عام لوگ بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کر رہے ہیں،
انہیں باقاعدہ راشن فراہم کر رہے ہیں۔ جو کہ ایک نیک عمل ہے لیکن اس کے
ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ راشن دینے والے ضرورت مند کے ہاتھ
راشن تھماتے ہوئے تصویر یا سیلفی بھی لے رہے ہیں۔ اور پھر تصویر لینے کے
بعد پورے سوشل میڈیا پہ ہر جگہ ان تصاویر کی تشہیر کی جارہی ہے کہ جی
دیکھیں ہم نے آج یہ فلاں غریب کو راشن فراہم کر کے نیک کام سر انجام دیا ہے،
لیکن کیا فائدہ؟ آپ نے نیکی بھی کر لی اور اسے جتا بھی دیا وہ بھی پوری
دنیا کے سامنے۔
ہر انسان کی اپنی ایک عزت ہے۔ان غریب لوگوں کی بھی تو عزت ہے نا؟ ٹھیک ہے
بھء آپ لوگوں کو راشن ضرور دیں یہ ایک نیک ترین عمل ہے کہ کسی بھی ضرورت
مند کی آپ مدد کر رہے ہیں۔ لیکن ایسی مدد کا، ایسی نیکی کا کیا فائدہ جس
میں آپ اسے پوری دنیا کے سامنے دکھا کر جتا رہے ہیں؟ اس غریب کی کوء عزت
نفس نہیں جن کی تصاویر آپ لوگ پوری دنیا کے سامنے لا کر یہ دکھا رہے ہیں کہ
فلاں غریب انسان کی آج میں نے مدد کی؟ معزرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بھء
آپ ایسی نیکی اپنے پاس رکھیں۔ کوء غریب بھوک سے مرے یا نہ مرے لیکن شرم سے
ضرور مر جائگا۔ وہ بچارے تو مجبور ہیں ان کی بھی فیملیز ہیں جن کا انہوں نے
پیٹ پالنا ہے جو کہ اس وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے باعث نہیں
کما پا رہے۔ ان بچاروں کا بھی تو دل ہے وہ بھی تو محسوس کرتے ہیں ہماری طرح۔
اور کریں بھی کیوں نا؟ آخر انسان ہیں وہ بھی۔ ان کی بھی تو عزت نفس ہے جیسے
ہم سب کی ہے۔ ایک غریب بچارہ کیا سوچتا ہو گا؟ کتنی ندامت محسوس ہوتی ہوگی
اسے۔ اس پہ کیا گزرتی ہوگی آپ کی اس حرکت کی وجہ سے؟ یہ کبھی نہیں سوچا؟
صرف یہ ہی نہیں ایک اور حقیقت میں آپ کی نظر کرتی چلوں کہ آج کل اس حرکت سے
ایسا بھی ہورہا ہے کہ راشن لیتے ہوئے غریب لوگوں کو اتنی اس چیز کی عادت
ہوگء ہے کہ راشن دینے والا اگر تصویر یا سیلفی نا اتارے تو غریب شخص یہ ہی
سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ شائد ان حضرات نے تصویر نہیں اتارنی۔ لیکن ان
بچاروں کو کیا پتا راشن دینے والا اپنے ہمراہ پہلے سے ہی کسی کو ساتھ لایا
ہوتا ہے جسے کسی ایسی مخصوص جگہ پہ کھڑا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ باآسانی
اور چپ کر کے تصویر اتار سکے اور بچارے غریب کو پتا بھی نہ چلے اور نہ وہ
اپنا دل جلا سکے اور نہ تکلیف سے گزر سکے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا
مجھے کہ کچھ غریب لوگ اگر بالفرض پوچھ بھی لیں کہ بھاء آپ نے تصویر نہیں
بنانی؟ یا سیلفی نہیں لینی؟ تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ جی وہ سامنے دیکھیں
اُس دور بیٹھے شخص نے آپ کی تصویر لے لی ہے یا ویڈیو بنا لی ہے۔ اور پھر ان
ویڈیوز کو باقاعدہ ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر بھی چڑھایا
جاتا ہے۔ کسی غریب کی عزت کا ٹھیک ٹھاک جنازہ یونہی نکل جاتا ہے۔
آج آپ کسی کے ساتھ برا کرتے ہیں تو کیا لگتا ہے کل کو آپ کے ساتھ نہیں
ہوسکتا برا؟ چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو وہ خدا کو بہتر پتا۔ تو کیا خدا
کے ''مکافات عمل'' کے اصول کا علم نہیں جو اٹل ہے؟ کچھ دیر کے لیے سوچیں کہ
اگر اس غریب کی جگہ آپ ہوں یا کل کو آپ پہ وہ وقت آتا ہے اور آپکو ایسے ہی
راشن کی ضرورت بھی درکار ہوتی ہے اور بلکل اسی طرح آپ کی تصویر بھی لی جاتی
ہے اور سوشل میڈیا پہ لگا کے پوری دنیا کے سامنے اپ کو دکھایا جاتا ہے تو
کیسا لگے گا آپ کو؟ کیا محسوس کریں گے آپ؟ کیا گزرے گی آپ پہ جب آپ کو
لوگوں کی نظروں میں غریب کی حیثیت سے سامنے لایا جائے گا جس میں آپ کے لیے
یہ الفاظ استعمال کئیے جائیں گے کہ، ''فلاں غریب یا ضرورت مند شخص کو راشن
فراہم کرتے ہوئے ایک تصویر آپ کی نظر.. ''
اس لئے دوسروں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ کل کو
آپ پہ بھی وہ وقت آسکتا ہے اور آپ کی اس نیکی کا کوئی فائدہ نہیں جس میں آپ
دکھاوا کر کے اسے پوری دنیا کے سامنے لائیں۔ دوسروں کو بھی اپنے جیسا
سمجھیں وہ سب بھی انسان ہیں اور کسی میں بھی اﷲ نے کوء فرق نہیں رکھا۔
لہٰزا دوسروں کو سمجھنا سیکھیں تاکہ آپ کو بھی سمجھا جاسکے۔۔
|