تعلیم ایک ایسا عنصر ہے جس کے بغیر مہذب معاشرے کا قائم
ہونا رات کو سورج دیکھنے کے مترادف ہے۔ تعلیم ایسا زیور ہے جو انسان اور
حیوان میں تفریق واضح کر تا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کا بھی یہ فیصلہ،جس
کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ پڑھنے لکھے اور ان پڑھ ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔
ثابت یہ ہوا کہ تعلیم معاشرے کی ترقی و فلاح کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اس
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت وقت اپنا کردار ادا کرتی ہے، جب حکومت اس
تعلیمی فرائض کو کسی بھی اعتبار سے صحیح طور پر سر انجام دے نہیں پاتی تو
پرائیویٹ سیکٹر نمودار ہوتا ہے۔ اسے کاروبار کا نام دے لیں یا تعلیمی
ضروریا ت کو حکومت کے ساتھ مل کر کمی کو پورا کرنے میں معاونت کہہ لیں۔ پھر
بھی یہ ماننا پڑے کا یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے معاشرے کی بقاء کے لیے مصروف
عمل ہیں۔ بعض اوقات پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کو چلتے چلتے رستے میں
کچھ دانشور روڑے اٹکانے شروع کر دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے وہی لوگ یہ اہم
رول ادا کرتے ہیں جن کے اپنے بچے پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے
باوجود کہ ان کے علم میں بھی ہوتا ہے کہ پرائیویٹ ادارے اپنی مدد آپ کے تحت
چل رہے ہوتے ہیں، حکومت وقت کی مالی معاونت نہیں کرتی، جس سے پرائیویٹ
تعلیم مہنگی پڑتی ہے۔ پھر بھی پرائیویٹ سکول کو ترجیحی کیوں دی جاتی ہے اس
کا جواب ان دانشوروں سے ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔ پبلک سکیٹر یعنی گورنمنٹ
سکول میں ایک طالب علم معاشرے کو کم و بیش 2000 سے 4000 ہزارو پے فی سٹوڈنٹ
پڑتا ہے، کبھی نام نہاد دانشوروں کا خیال اس جانب نہیں گیاکیوں؟ پرائیویٹ
سکول کی مختلف کیٹگریز ہیں، تقریباً 95%پرائیویٹ سکول کی بلڈنگزکرایہ پر
ہوتی ہیں، سکول والے کی آمدن ہو یا نہ ہو اس نے کرایہ ادا کرنا ہے، کرایہ
کے ساتھ ساتھ سٹاف سیلری، بل بجلی، بل ٹیلیفون، وغیرہ وغیرہ ادا کرنا ضروری
ہیں۔ لوگ بھی کیٹگری کے مطابق اپنے بچوں کواس پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں
داخل کرواتے ہیں۔ جب لوگوں کے وسائل مختلف ہیں تو سکول فیس بھی مختلف ہی ہو
گی۔ پرائیویٹ سکولز تعلیم، روزگار اور معاشرہ کی بناوٹ میں کندھے سے کندھا
ملا کر حکومت کی معاونت کر رہے ہیں، جبکہ ان کے بے بہا مسائل کو حل کرنے
میں حکومتی ادارے ہچکچاتے ہیں۔ اس تعلیمی ادارے کو قائم و دائم رکھنے کے
لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہ ایک الگ ایشو ہے۔ اگر آج کسی بھی طور
ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ختم کر دیا جائے کیا ہماری حکومت اس قابل ہے
کہ اس پریشر کو سنبھال سکے۔ اتنی بے روزگاری کو روزگار میں تبدیل کرنے کے
اہل ہے، کیا اتنی تعداد میں فری ہونے والا طالب علم گورنمنٹ سیکٹر میں بمعہ
سٹاف بٹھانے کے قابل ہے۔ جب کسی بھی ملک کا کوئی نظام ایسا نہیں ہو سکتا،
گریڈ، مقام، عہدے، تنخواہیں، پنشنز، مزدوری، عدل و انصاف مختلف ہو سکتا ہے
تو پھر ان سکولز کے مسائل بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ 14-11-2018 میں عدالتی
فیصلے میں اسی فیس کو اٹھایا گیا اور فیصلہ صادر فرمایا گیا کہ وہ سکول جو
5000 روپے سے اوپر فیس وصول کر رہے ہیں وہ موسم گرما کی چھٹیوں میں 20فیصد
فیس میں رعایت دیں۔ ایک کٹیگری واضح ہو گئی۔ سال 2020میں کورنا تشریف لے
آیا۔ اللہ کی طرف سے آزمائش آئی جس میں حکومتی حکمت عملی، وزیروں اور
مشیروں کی کارکردگی کا وقت آیا، وہاں روزگار، بے روزگار، کاروباری حضرات سب
سے بڑھ کا دیہاڑی دار متاثر ہوا۔ حکومت نے 20فیصد فلیٹ ریٹ پر حکم جاری کر
دیا جبکہ لوگوں کے وسائل مختلف اور سکول فیس بھی مختلف ہیں۔ حکومت وقت نے
دیہاڑی دار اور سرکاری ملازم کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا۔ چھوٹا کاروبار،
روز کی روز کمانے والا آدمی اور دیہاڑی دار تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسے
رعایت جائے لیکن ایک سرکاری ملازم کس زمرے میں آتا جسے وقت سے پہلے تنخواہ
جاری ہو گئی۔ تھوڑا آگے چلتے ہیں۔ اگر ایک پرائیویٹ سکول کو واقعی سارے
والدین فیس ادا کریں تو وہ سکول جس کے پاس 115 بچے ہیں، جن کی اوسط فیس
1200 روپے بنتی ہو، تو اس کی کل آمدنی 138000 روپے ہوئی۔ اس میں سے 20فیصد
حکومت کے آرڈر کے مطابق منہا کر دی جائے تو 27600 روپے اڑ گئے، باقی ر قم
110400 روپے بچ گئے، اب اداکرنا ہے کرایہ اس بیلنس میں سے لگ بھگ 37000
روپے کرایہ نکال دیں تو باقی 73400 روپے، اس ادارے کے پاس 9کا سٹاف ہے جس
کی اوسط تنخواہ فی کس 7000 روپے بنتی ہو، تو کل 63000 روپے، اس کو بیلنس
رقم میں سے نکالیں تو بقیہ رقم 10400 روپے رہ گئی، اس میں بل بجلی، بل
ٹیلفیون، بل گیس بھی ادا کرنا ہے۔ جب کہ پرائیویٹ سکول اونر کے بچے بھی زیر
تعلیم ہونگے ان کی فیس کا کون ذمہ دار ہو گا۔ یہ بندہ اور اس کا خاندان
چوبیس گھنٹے کا روزہ بھی رکھے تو کیا خیال ہے 10400 روپے سے اپنی گزر بسر
کر سکتا ہے، اس کے بچوں کی بھی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہو نگی؟ وہ کیسے پوری
کرے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے سامنے اربوں کا خزانہ
دیکھتے ہوئے اس طرح کے فیصلے لینا یا کرنا ان وزیروں اور مشیروں کے لیے
کوئی لمحہ فکریہ نہیں رکھتے۔ اگر کورونا میں ڈسکاؤنٹ دینا ہی تھا تو پالیسی
دی جاتی ہے کہ یہ پالیسی سرکاری ملازمین پر لاگو نہیں ہوگی اور سکول والے
اپنی ایمانداری کا ثبوت دیتے ہوئے چھوٹے دکاندار، سفید پوش اور دیہاڑی
کو20کی بجائے 30فیصد کی رعایت دیں تو یہ اور بھی خوشی کی بات ہو گی۔30فیصد
کی رعایت نہ دینے پر تو حکومت کی طرف نوٹس، وارننگ جاری تو ہو سکتی ہیں۔
لیکن جو والدین فیس ادا نہیں کر رہے اس زمرے میں حکومت کے پاس کوئی جواب ہے
یا ہو گا۔ لیکن حکومت نے کسی کپڑنے کی اندسٹری برانڈ کی طرح فلیٹ ریٹ رعایت
کا فیصلہ دے کر ایک عام پرائیویٹ سکول کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ مجھے سو
فیصد یقین ہے کہ اگر یہ لاک ڈاؤن جون کو کراس کرتا ہے تو بہت چھوٹے سکول
مالکان خیر باد کہہ دیں گے، اس وجہ سے جو بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ
گئے، جو ٹیچرز بے روگار ہو گئے، تو ان کا سب کا ذمہ دار وقت کا حاکم ہو گا۔
جس کا وہ روزِمحشر جواب دہ بھی ہو گا۔ ذرا سوچیں اگر اس طرح فیصلے آتے رہے
اور دیگر چھوٹے ادارے بھی بے بسی کا شکار ہو کر دستبردار ہو تے گئے تو ہم
کس منزل کے راہی ہونگے۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے آمین، ہم سب کو سوچنا
ہو گا، وقتی سہولت سے ایسا نہ ہو کوئی دوسرا آپ کی مدد اور راشن کا انتظا ر
کر رہا ہو۔کورونا کی جگہ دوزخ ٹھکانا بن جائے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ہم
سب برابر کے شریک ہونگے۔ (دل آزاری ہو ئی تو معذرت) ایک ناقص رائے آپ کے
سامنے رکھ، کیونکہ تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں، یہ ایک پہلو ہے۔
|