کرونا وائرس کی وباء نے جہاں عالمی گاؤں میں قیامت صغری
برپا کی ہے وہاں ملک عزیز میں بھی تباہی پھیلا ئی ہوئی ہے۔اگر ایک طرف اپنے
وقت کی سپر پاور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری طرف تیسری دنیا کے
ممالک میں بھی انسانیت سسک رہی ہے۔ تا ہم لائق تحسین ہیں مک عزیز کے ڈاکٹرز،
نرسز، پاک فوج اور پولیس کے جوان جو اس وباء کے سامنے سینہ سپر دیوار بنے
ہوئے ہیں۔ اور لائق تحسین ہیں وہ شخصیات جو اس بحرانی کیفیت میں بھی امید
کا دامن نہیں چھوڑتے اور انہوں نے نسل نو کی تدریس جاری رکھتے ہوئے ایک
انقلابی قدم اٹھایا ہے اور آن لائن تدریس کا سلسلہ وہاں سے شروع کردیا ہے
جہاں سے یہ منقطع ہوا تھا۔مبارکباد کے مستحق ہیں وہ اساتذہ کرام جن کی
شبانہ روز محنت سے ایسا ممکن ہوا اور یوں گھپ اندھیرے میں امید کی شمع روشن
کرنے میں کامیاب رہے اسی لئے تو انہیں معماران قوم کہا جاتا ہے۔سکولز طلباء
و طالبات کے لئے ٹی وی چینل کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ملک بھر کی
یونیورسٹیوں نے بھی آن لائن ایجوکیشن دینا شروع کر دی ہے۔جس کی حکومتی سطح
پر حوصلہ افزائی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی زندہ رہنے کے لئے کسی بھی جاندار
کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اگر چہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں آن لائن
ایجوکیشن کو کامیاب بنانا اتنا آسان نہیں کیوں کہ ایشوز بے شمار ہیں ۔اول
تو بجلی نہی ہوتی اگر لائیٹ ہو تو غربت کی چکی میں پسی عوام انٹرنیٹ کہاں
سے لائے۔ بعض علاقوں میں تو سرے سے 3G اور 4G سروس ہی نہیں۔ بہت سے دوسرے
تکنیکی مسائل بھی ہیں
امید ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسائل حل ہوتے جائیں گے اور آن لائن
ٹیچنگ میں بھی نکھار آ جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین ،اساتذہ،
طلباء ، میڈیا اور حکومت اس منصوبے کو کامیاب کرائیں۔ کیوں کہ یہ ایک مقدس
مشن ہے۔
والدین اپنے بچوں کی نگرانی کریں۔اپنے بچوں کے لئے اپنی بساط کے مطابق
وسائل فراہم کریں۔کسی بھی محلے میں صاحب ثروت افراد ایسے نادار طلباء کی
مالی مدد کریں اور اپنے حجروں میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اپنے
انٹرنیٹ، ٹی وی اور دوسرے وسائل قوم کے بچوں کے لئے حاضر کر دیں ان کا یہ
صدقہ جاریہ ضرور رنگ لائے گا۔اس سلسلے میں الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا
پر بھر پور آگاہی مہم چلائے۔دانشور حضرات، علماء کرام اور ٹیچرز صاحبان کی
خدمات حاصل کی جائیں-
علمائے کرام والدین کو اس جانب توجہ دلوائیں اور نوجوان نسل کو اس جانب
راغب کریں۔قرآن و سنت کی تعلیم کی روشنی میں بچوں و بچیوں کی اخلاقی تربیت
کی جائے۔21 ویں صدی کے اس دور جدید میں والدین پر دوہری ذمہ داریاں عائد
ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کا بندوبست کریں، اور
دوسری طرف انہیں جدید دور کی تعلیم سے بھی آراستہ کریں ۔حکومتی سطح پر ان
تعلیمی اداروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی جائے ۔ایسے اداروں کی مالی
مدد کی جائے۔ٹیچرز کو جدید خطوط پر آن لائن ٹریننگ دی جائے۔ان کی خاطر خواہ
حوصلہ افزائی کی جائے۔غریب گھرانوں کے چشم و چراغ کی مالی معاونت کی جائے۔
اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری خود طالب علم پر عائد ہوتی ہے ۔ چونکہ یہ
سب کچھ اس طالب علم کے بہتر مستقبل کے لئے کیا جارہاہے، اس لئے ذمہ داری کا
بوجھ بھی اسی پر زیادہ ہے۔ طلبا کو اس نظام کی کامیابی کے لئے زیادہ سے
زیادہ وقت دینے کی ضرورت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ طلباء ہی تمام تعلیمی سرگرمیوں
کا مرکز و محور ہے۔اور درحقیقت یہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا بڑا سٹیک ہولڈر
بھی ہے ۔آن لائن تدریس کے حوالے سے بے شمار چیلنجز بھی ہیں جو تمام سٹیک
ہولڈر باہمی مل جل کر اس میں کمی لا سکتے ہیں ، اسی طرح اپنے وقت اور
مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر یہ طویل عرصہ
اٰرام سے گھر میں بیٹھ کر گزارا جائے، تو بعد میں ان طلبا کو پڑھائی کی
عادت کی طرف مائل کرنے پر کا فی محنت کرنی پڑے گی اورمزید وقت ضائع ہوگا۔
جو ڈگری ان طلبا کو ایک خاص وقت پر ملنی تھی وہ نہیں مل سکے گی۔ کیونکہ
بگڑتے حالات کے پیش نظر مجھے نہیں لگتا کہ اگلے دو ماہ امتحانات لینا ممکن
ہوسکے۔ یہ جو بات کی جارہی ہے کہ جون کے مہینے تک گرمیوں کی چھٹیاں کیں
جائیں، یہ ذرا سوچا جائے کہ کیا خیبر پختونخواہ کے وسطی اور جنوبی اضلاع
میں جون اور جولائی میں کلاسز لینا ممکن ہے ۔ یہ بہت ہی مشکل ہے کہ اپریل
اور مئی کے مہینوں کو گرمیوں کی چھٹیاں قرار دی جائیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں
اگست تک جائیں گی۔ لہذا گھروں میں فضول وقت ضائع کرنے کی بجائے بچے اپنی
تعلیم پر توجہ دیں۔ موجودہ حالات کا کوئی پتا نہیں کہ کب کورونا وائرس سے
نجات ملے گی اور نہ جانے کب حالات نارمل ہونا شروع ہونگے، اور کب حقیقی طور
پر ہمارے بچے کلاسز میں بیٹھ جائیں گے۔ اس وقت یونیورسٹیاں جتنی مدد آن
لائن ایجوکیشن پروگرام کے تحت فراہم کررہی ہے اس کو غنیمت جانیں، اور زیادہ
سےزیادہ وقت اپنی پڑھائی پر لگائیں۔ آن لائن ایجوکیشن کے بغیر فی الحال
کوئی چارہ نہیں۔ ورنہ نقصان ہی نقصان ہوگا۔ بچوں کا بھی، والدین کا بھی اور
بحیثیت قوم سب کا بہت نقصان ہوجائے گا۔ یقینا وقت ہمیں للکار کے کہ رہا ہے
کہ اب بھی وقت ہے ذرا سنبھل جاو ورنہ داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔``` |