کرہ ارض پر کو رونا وائرس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے
لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، تعلیمی ادارے بند ہو گئے اور لاک ڈاون کی کیفیت
ہے تو اس غیر یقینی صورتحال میں ایک تصور ابھر کر سامنے آیا ہے جسے ہوم
سکولنگ کہا جاتا ہے ۔اگرچہ بعض ماہرین تعلیم اسے نئی پیش رفت قرار دے رہے
ہیں لیکن حقیقت میں اس سروس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانیت کی۔سب
جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ ماں کی گود دنیا کی بہترین اور اولین
درسگاہ ہوتی ہے اسی لئے نپولین بونا پاٹ نے بھی کہا تھا کہ تم مجھے اچھی
مائیں دو میں آپ کو بہترین قوم دوں گا۔ہوم سکولنگ سروس کیا ہے؟اس کے خدوخال
کیا ہیں؟اس کو عملی جامہ کس طرح پہنایا جا سکتا ہے آئیے اس پر بحث کرتے ہیں
سب سے پہلے والدین اس بارے میں اپنے بجوں اور اساتذہ سے مشاورت کریں ٹیچرز
سے گائیڈ لائن لیں۔ان کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔ کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ان
سے گائیڈینس لی جا سکتی ہے ٹائم ٹیبل بناتے وقت کوئی بھی پیریڈ چالیس منٹ
سے زیادہ نہ ہو۔گھر کے لئے ایک ٹائم ٹیبل بنائیں اور اسے نمایاں جگہ پر
آویزاں کریں۔پہلا پیر یڈ قرآن و سنت اور اخلاقیات کی تعلیم پر مبنی
ہو۔ناشتے سے پہلے یا بعد میں جو بھی مناسب وقت ہو اپنے بچوں کو بٹھا کر
قرآن کریم کی کوئی آیت،حدیث شریف پڑھ کر مزاکرہ کریں ۔سوال و جواب
ہوں۔ڈسکشن ہو۔گزشتہ پڑھے ہوئے سبق کی دہرائی ہو۔اخلاقیات کی کتابوں سے بھی
مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ڈسکشن پر مبنی کلاس سے بچوں کی اسپیکنگ سکل میں
نکھار پیدا ہو گا اور ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت بھی ممکن ہو گی بچوں
کی تعمیر سیرت ہی کسی بھی نظام تعلیم کا اولین اور بنیادی مقصد ہوتا ہے۔
دوسرا پیریڈ صفائی کا ہو جس میں بلا تفریق گھر کے سب افراد حصہ لیں۔خاص کر
واش رومز کی صفائی بہت ضروری ہے مرد حضرات گھر کے باہر اپنے گھر سے متصل
گلی اور نالی کی صفائی کو یقینی بنائیں۔اس سے آپ کے بچوں میں نہ صرف عاجزی
پیدا ہو گی بلکہ ان کے عملی تجربے میں بھی اضافہ ہو گا۔آن کے اندر پریکٹیکل
سکل میں بھی اضافہ ہو گا۔ تیسرا پیریڈ بڑے مزے کا ہے۔والدین کی موجودگی میں
انٹرنیٹ سے مارل ویڈیوز ڈاون لوڈ کریں ۔گوگل۔گوگل سکالر، یو ٹیوب اور نیٹ
کا مثبت استعمال سیکھ سکتے ہیں گھر میں کمپیوٹر ٹی وی ایسی جگہ پر ہوں جہاں
والدین کی نظر پڑ سکے۔تاکہ مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے۔ کھیل کود اور
انر جائزر بھی تعلیم کا جزولاینفک ہے ۔ جسے چوتھا پیریڈ قرار دیا جا سکتا
ہے۔ بجے اپنی پسند کی کھیل کھیلیں تاکہ بچے فریش رہیں اور آن کی صحت بھی
بہتر اور موڈ بھی خوشگوار رہے۔
اور اب باری ہے سیلف سٹڈی کی جو آپکا پانچواں پیر یذ ہو گا محترم والدین
یاد رکھیں آپ کے بچوں کے پاس ٹیکسٹ بکس، نوٹ بکس اور نوٹس ہونے چاہئیں
۔والدین صرف نگرانی کریں اور حوصلہ افزائی کریں۔شاباش ویل ڈن اور واہ واہ
کی تکرار کریں۔بچوں کو نکما کام چور اور گدھا جیسے القابات سے نہ نوازیں
۔بچوں کو کہیں کہ ہر ایک مضمون سے مرحلہ وار تین سو معروضی سوالات
بنائیں۔سو کے لگ بھگ key پوائنٹس تلاش کر کے ایک یا دو لائن ڈیفی نیشن
بنائیں۔ پھر ان سے مختصر سوالات بنائیں اور انہی مختصر سوالات کو مفصل
سوالات کے قالب میں ڈال دیں۔ اسی طرح درسی کتب میں دی گئی مشقوں کو حل کریں
جہاں بھی کوئی مشکل درپیش ہو اپنے پاس پڑے ہوئے نوٹس سے استفادہ کرتے
جائیں۔بار بار کی اس مشق سے نہ صرف کورس پر عبور حاصل ہوتا جائے گا بلکہ
لکھنے کی مہارت میں بھی اضافہ ممکن ہو گا وقفے وقفے سے سیلف سٹڈی ساتویں
اور آٹھویں پیریڈ میں بھی جاری رکھیں اور مضامین بدلتے رہیں۔رٹا بازی اور
یاد کرنے کی بجائے سمجھ کر پڑھیں اور مختلف موضوعات کو لکھتے رہیں اور خود
ہی چیک کرتے رہیں ۔گھر بیٹھ کر سابقہ پرجات حل کئے جا سکتے ہیں ان کے پیٹرن
پر مضامین کی تیاری کی جا سکتی ہے۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ کہ بچوں کی خوشخطی پر زیادہ توجہ دیں بچوں کے لئے
رائیٹنگ بکس لائیں اور بچے پریکٹس کرتے جائیں اس طرح ایک دن وہ بڑے خوش
نویس بن جائیں گے اس مقصد کے لئے پنسل،قلم اور رنگ برنگے کٹ مارکرز کا
استعمال کیا جاسکتا ہے۔بچوں کی سننے کی صلاحیت کو چار چاند لگانے کے لئے
ضروری ہے کہ ان کو سبق آموز اور دلچسپ کہانیاں سنائی جائیں۔آج بھی وہ
کہانیاں یاد ہیں جو ہمیں دادی اماں سنایا کرتی تھیں یاد رکھیں ایسی کہانیاں
بچوں کی شخصیت پر بڑی اثر انداز ہوتی ہیں۔بچوں کی شخصیت سازی کے لئے یہ
اتنی ہی کارآمد ہیں جتنی زمانہ قدیم میں ہوا کرتی تھیں ۔کوشش یہ کی جائے ک
بچوں کا کتابوں سےرشتہ برقرار رہے۔آن کے لئے کورس کے علاوہ بھی ایسی بکس
لانی چاہیے جو بچوں کی دلچسپی کا سامان ہوں بلکہ گھر میں ایک چھوٹی سی
لائبریری بھی ہونی چاہئے جس میں ایک اخبار موجود ہو اسلامی کتب،جنرل نالج
لغات اور سبق آموز کتابیں موجود ہوں اس سے بچوں کی ریڈنگ اسکلز میں اضافہ
ہو گا والدین اپنے بچوں کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچے وہ
نہیں کرتے جو انہیں کہا جاتا ہے بلکہ بچے وہی کرتے ہیں جو والدین کرتے ہیں۔ |