جہاں دین کی الف اورب سے نابلدہران پڑھ،جاہل اورمیراثی
مفسر،مبلغ،خطیب اورعلامہ بناپھرتاہو۔وہاں پھرجھوٹوں اوربے حیاؤں کے
وجودکاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔جہاں ایک ٹکٹ میں دومزے کارواج یاکام کاج
برسوں سے عام ہو۔اخلاق ،حیاء اورسچائی سے عاری اینکرشریف جہاں ایک طرف نیم
برہنہ حالت میں ٹاک شوزاورنیوزمیں جلوے دکھاتے ہوں وہیں پھروہ دوسری طرف
رمضان المبارک میں دین پرلیکچرزاوروعظ ونصیحتیں کرتے ہوں۔ جہاں ٹک ٹاک کی
معصوم گرلزکوعالمہ اورفاضلہ کیا۔۔؟مفتیہ تک سمجھاجاتاہووہاں پھرلفظ بے
حیائی کے استعمال کوگناہ کبیرہ اورننگی گالی تصور نہیں کیاجائے
گاتواورکیاکیاجائے گا۔۔؟ جہاں صبح سے شام تک جھوٹ بولنے اورلکھنے والے ٹی
وی اینکرز،تجزیہ کار،کالم نگاراورنام نہاددانشورجیبوں میں سچائی کے
سرٹیفکیٹ لیئے پھرتے ہوں۔جہاں جھوٹ کوسچ اورسچ کوجھوٹ کاجامہ پہنانے
کاطریقہ اورسلیقہ اس قدرعام ہوکہ خاص کیا۔۔؟عام بھی اس سے محفوظ یادورنہ
ہوں۔وہاں پھرکسی کوجھوٹایابے حیاکہناواقعی نہ صرف بہت بڑاگناہ ہے بلکہ ایک
ناقابل معافی وتلافی جرم بھی ۔مولاناطارق جمیل نے جانے یاانجانے میں سب کے
سامنے اس گناہ اورجرم کاارتکاب کرلیاہے سواب وہ اس کی سزابھگتنے کے لئے بھی
تیاررہیں۔مولاناطارق جمیل بھی انتہاء یاکمال درجے کے سادہ ہیں ۔وہ شیشہ
بیچتے ہیں اوروہ بھی اندھوں کے شہریادیس میں۔الیکٹرانک میڈیاکے مبارک ماتھے
پر،،جھوٹ،،کاداغ لگاتے ہوئے مولاناطارق جمیل یہ بھی بھول گئے کہ یہاں نامی
گرامی ٹی وی چینلزکے اکثرپروگراموں کی میزبانی کے فرائض اﷲ کے ایسے بڑے بڑے
ولی سرانجام دیتے ہیں جن کے ماتھوں سے ہروقت نور ٹپکتارہتاہے۔ کئی کے مبارک
ماتھوں پرتوزیادہ سچائی اورحیاء کی وجہ سے محراب بھی بن چکے ہیں لیکن افسوس
زمانے کے ان ولیوں کے ماتھوں پرچمکنے والے یہ محراب بھی مولاناطارق جمیل
کونظرنہیں آئے۔ایسے ولیوں اورتہجدگزاروں کے بارے میں بدگمانی کااظہارکرکے
مولانانے واقعی جرم بہت بڑاجرم کیاہے۔دنیاجہاں کے ہرجھوٹ کوسچ کالبادہ
یاجامہ پہنانے کاجن کواتناوسیع تجربہ ہو۔ان کے بارے میں اس طرح کی بدگمانی
یقینی طورپرمناسب نہیں۔جنہوں نے خودزندگی بھرجھوٹ کوکبھی جھوٹ نہیں
کہا۔بھلاوہ اپنے لیئے اب ،،جھوٹے،،کالفظ کیونکرقبول کریں گے۔۔؟ٹی وی
اینکرزکومولاناسے سب سے زیادہ گلہ اوران کاواویلاصرف یہ ہے کہ مولانانے
انہیں جھوٹاکیوں کہا۔اوران کایہ گلہ بجابھی ہے کیونکہ جن کاجھوٹ سے کوئی
لینادینانہ ہو۔جولوگ ساری عمرچندٹکوں کی خاطرجھوٹ کوسچ کی شکل میں پیش کرتے
آئے ہوں ۔جھوٹ کوپھرایسوں کی طرف موڑنے کاکوئی تک نہیں بنتا۔جھوٹ پرلب
کشائی سے پہلے مولاناکوکم ازکم ان اینکرزسے جھوٹ کی تعریف تومعلوم کرنی
چاہیئے تھی۔کیاپتہ ۔۔؟مولاناجس چیزکوجھوٹ سمجھ رہے ہوں یہ اینکرزانہیں سچ
گردان رہے ہوں۔پھرآج کی صحافت اوراینکرزکی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں ۔مرچ
مصالحے کے بغیرسالن توپک سکتاہے مگرمیڈیاکاپہیہ نہیں چل
سکتا۔سوکودوسوبناکرپیش کرنایاکسی کی پگڑی اچھالنایہ توصحافت میں ثواب کاکام
سمجھاجاتاہے۔ ایک کام کہیں ہوانہیں اوراینکرنے کہہ دیاکہ ہوگیاہے تویہ بھی
کوئی عیب اورگناہ والی بات نہیں۔الیکٹرانک میڈیاپرتوچندایک کے علاوہ سارے
ٹی وی چینلزپراکثر اینکرزصبح سے شام تک اﷲ اﷲ کرکے ثواب کمانے والے کام
کرتے ہیں ۔طارق جمیل صاحب توصرف ایک خطیب اورمولاناہیں یہاں توبڑے بڑے مفتی
بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔کیاکرناہے اورکیانہیں کرنا۔۔یہ بھی ان سے
بہتروزیادہ اورکون جانے۔۔؟پھرشرم وحیاء کانیانیاکلچربھی تواسی الیکٹرانک
میڈیاکے مارننگ شوزکے ذریعے پابندی کے ساتھ متعارف ہورہاہے۔نقاب،برقعہ،مکمل
لباس اورسرپرچادروڈوپٹہ یہ توان شرفاء کے ہاں پسماندنگی کی نشانیاں
اورجاہلانہ ذہنیت کی میراث ہے اس کے مقابلے میں توان ٹی وی چینلزسے جین
،نکر،پینٹ شرٹ اورنیم برہنہ اورجدیدماڈرن لباس کے فوائداورطورطریقے نہ صرف
فرض نمازوں کی طرح بتائے جارہے ہیں بلکہ پابندی کے ساتھ سکھائے بھی جارہے
ہیں۔شرم وحیاء سے کوسوں دورکمرشل اشتہارات اورانڈین کلچروثقافت کی نقل میں
بننے والے ڈرامے تواس سے الگ ہے۔میراجسم میری مرضی کے فکراورنظریئے نے اسی
راستے سے نہ صرف جنم لیابلکہ انہیں سچائی کے ان نام نہادعلمبرداروں نے اپنے
اپنے پروگراموں میں بڑھاچڑھاکرپیش کرکے اس ملک میں پروان بھی چڑھایا۔پھربھی
اس ملک کی گلی اورمحلوں میں میراجسم میری مرضی کے لگنے والے نعرے نہ بے
حیائی ہے اورنہ ہی صبح سے شام تک بغض عمران یانوازشریف اورآصف علی زرداری
کی مخالفت میں جھوٹ پرجھوٹ بولنے والوں کاجھوٹ ۔۔کوئی جھوٹ ہے۔اگرجھوٹ ہے
تووہ صرف یہ کہ ایک مولانانے جھوٹوں کوجھوٹاکیوں کہا۔۔اوربے حیائی ہے تووہ
یہ کہ مولانانے ننگے سر،ننگے جسم اورقوم کی بچی کانام کیوں لیا۔یہ جومرضی
کرتے پھریں۔جھوٹ کوسچ اورسچ کوجھوٹ لکھیں اور بولیں ۔یہ قوم کی ماؤں ،بہنوں
اوربیٹیوں کوٹی وی چینلزپرتماشابنائیں۔ان کومیراجسم میری مرضی کے پلے
کارڈتھمائیں۔انڈین فلموں اورڈراموں کی تشہیرکرکے اس ملک سے ہماری
ثقافت،شرافت اورشجاعت کاجنازہ نکالیں ۔پھربھی یہ نہ جھوٹے ہیں اورنہ بے
حیا۔جھوٹاہے تووہ وقت کاولی جس نے ساری زندگی قال اﷲ اورقال رسول ﷺکی
صدابلندکرتے ہوئے گزاری۔بے حیاہیں تووہ مولاناطارق جمیل جنہوں نے طوائفوں
کوبھی ماں ،بہن اوربیٹی کادرجہ دے کران کے ایک دونہیں بے شمارکنجرخانے
بندکرائے۔پہلے ہاتھ جوڑکر قوم کے اماموں سے معافیاں مانگی جاتی تھیں مگراب
ہم بے حیائی اورجھوٹے پن کی اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں کسی
مولانایاقوم کے کسی امام کی وعظ ونصیحت کوقبول کرنے کی بجائے الٹاان سے یہ
مطالبے کررہے ہیں کہ وہ ہم سے معافی مانگیں۔اس سے بڑی بدقسمتی اورہماری
کیاہوگی کہ آج اﷲ کاایک ولی اوقوم کاایک امام اٹھ کرہم سے معافیاں مانگ
رہاہے۔وقت کے جھوٹوں اورکنجروں سے مولاناطارق جمیل کی معافی بحیثیت قوم یہ
ہم سب کے لئے ڈوب مرنے کامقام ہے۔کسی بھی انسان کی تباہی اوربربادی
کاآغازتب ہوتاہے جب کوئی مجبور،لاچاریاکوئی شریف شخص ان کے شرکی ڈروخوف کی
وجہ سے اس سے معافی مانگیں۔ مولاناطارق جمیل نے معافی مانگ
کراپناقداوراونچاکردیاہے لیکن مولانانے جن سے معافی مانگی ہے انہیں اب اپنے
ایمان اورآخرت کی فکرضرورکرنی چاہیئے۔باطن تواﷲ جاننے لیکن بظاہرمولاناطارق
جمیل اﷲ کے ایک داعی ،قوم کے امام اورانبیاء کے ایک وارث ہیں ۔اﷲ کے ایسے
داعی اورانبیاء کے ایسے نمائندے جن کے ہاتھ پراب تک ہزاروں لوگ کلمہ شہادت
پڑھ کراسلام میں داخل ہوچکے ہوں ۔جن کے چہروں کی نورانیت اورچمک نے ہزاروں
ولاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کوراہ راست پرلایاہو۔جن کومادہ پرستی کے اس
دورمیں بھی امت کی فکرکھائی جارہی ہو۔ایسے لوگوں کی شرافت،خاموشی اورکسی
کمزوری سے نہ صرف بے لگام اینکرزبلکہ ہم سب کو ڈرنا اور ضرور
ڈرناچاہیئے۔ہمارے ان اعلیٰ تعلیم یافتہ ،باشعور،سچے
اورباحیااینکرزکومولاناطارق جمیل کوایک جھوٹااوربے حیامولوی سمجھ کرہی ان
سے معافی مانگنی چاہیئے کیونکہ اسی میں ان کی بھلائی ہے۔
|