انسانی جسم کے ایسے اعضا جو ماضی میں بہت کارآمد تھے مگر اب کسی کام کے نہیں

image


انسانی جسم ایک پیچیدہ مشین کی طرح ہوتا ہے جس کا ہر ہر حصہ اللہ تعالیٰ نے بہت مکمل بنایا ہے اور اس کی اہمیت اس جسم کے نظام کو چلانے کے لیے بہت لازم ہوتی ہے- مگر جس طرح ماضی میں انسان غاروں میں رہتا تھا اور پتھروں کے دور میں رہتا تھا اس کی گزر بسر شکار پر ہوتی تھی اور اس کی غذا کچا گوشت ہوتی تھی- جیسے جیسے انسان کے طرز زندگی میں تبدیلی آئی اور اس کی زندگی تہذیب و تمدن سے آشکار ہوئی تو اس کے جسم کے کچھ حصے جو کہ ماضی میں اس کے لیے بہت لازم ہوتے تھے ترمیم کے مرحلے سے گزرے اور اگرچہ انسانی جسم میں وہ عضو آج بھی موجود ہیں مگر اب ان کا استعمال ختم ہو گیا ہے اور وہ ایک فاضل چیز کی طرح جسم میں موجود ہیں-

1: اپنڈکس
اپنڈکس جو کہ انسان کی آنت کے ساتھ ایک انگلی نما علیحدہ سے جڑا عضو ہوتا ہے- ماہرین کا اس کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ جب انسان ایسے پودوں کو اپنی غذا کے طور پر استعمال کرتا تھا جس کے اندر سیلولوز کی بڑی مقدار موجود ہوتی تھی تو اس کو اس غذا کو ہضم کرنے کے لیے اپنڈکس کی ضرورت ہوتی تھی- مگر جیسے جیسے تہذیب نے انسان کی غذائی عادات کو تبدیل کیا تو انسان کی غذا میں پکے ہوئے کھانوں کا عمل دخل بڑھ گیا اور اپنڈکس ایک فالتو عضو کے طور پر انسانی جسم میں رہ گیا- کچھ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ اپنڈکس میں ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو کہ ہاضمے کے عمل کو بہتر بناتے ہیں-

image


2: عقل داڑھ
اس بات سے بچہ بچہ واقف ہے کہ انسان کے منہ میں 32 دانت ہوتے ہیں مگر یہ 32 دانت چار عقل داڑھوں کو شامل کر کے کہے جاتے ہیں جب کہ اس دنیا میں ایک بڑی تعداد میں انسان ایسے بھی ہیں جن کی عقل داڑھ ساری عمر نکلتی ہی نہیں -اور اکثر لوگوں کی جب یہ داڑھ نکل بھی آتی ہے تو وہ اس عقل داڑھ کو تکلیف کے سبب نکلوا بھی دیتے ہیں کیوں کہ یہ داڑھ صرف انسان کے لیے اس وقت تک فائدہ مند تھی جب تک کہ وہ کچی غذاؤں کا استعمال کرتا تھا- اور اس کو اس غذا کو ہضم کرنے کے لیے یا توڑنے کے لیے بہت مضبوط جبڑوں کی ضرورت ہوتی تھی- مگر اب غذائی عادات میں تبدیلی کے باعث نہ تو مضبوط جبڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی عقل داڑھ کی-

image


3: پلمارس لونگس پٹھے
یہ پٹھے ہاتھ کی کلائی سے لے کر کہنی تک موجود ہوتے ہیں اور اب دس فی صد افراد میں تو ان کا وجود بھی نہیں ہوتا ہے- کہا یہ جاتا ہے کہ ماضی میں انسان جب درختوں پر چڑھ کر اپنی غذا تلاش کرتا تھا یا پھر درختوں پر گھر بنا کر رہتا تھا اس وقت میں اس کے بازوں میں مضبوطی کے لیے یہ غضلات موجود ہوتے تھے جو کلائی کو مضبوطی فراہم کرتے تھے مگر اب انسان کے اندر یہ عضو معطل کے طور پر موجود ہوتے ہیں-

image


4: اریکٹر پلی
تاریخ کے ایسے دور میں جب انسان اپنے جسم کو پتوں سے چھپاتا تھا یا پھر جانوروں کی کھالوں سے اپنی ستر ڈھانپتا تھا ایسے دور میں انسان کے جسم پر بہت سارے بال موجود ہوتے تھے- اور اس دور میں اریکٹر پلی ایسے عضلات ہوتے تھے جو کل انسانی جلد پر بالوں کے بالکل نیچے موجود ہوتے تھے اور کسی بھی خطرے کی صورت میں یہ سکڑتے تھے جس سے انسانی جسم پر موجود بال کھڑے ہو جاتے تھے- اور ان رونگٹوں کے کھڑے ہونے سے جسم کی ساخت بڑی ہو جاتی تھی اور جس سے اپنے جسم پر ہیبت طاری کرنے میں مدد ملتی تھی- مگر اب جیسے جیسے جسم پر سے بال کم ہوتے گئے اور طرز زندگی میں تبدیلی کے باعث ان رونگٹوں کی حاجت نہیں رہی تو یہ بھی انسانی جسم میں فاضل ہو گئے ہیں-

image


5: آریکیولر پٹھے
آریکیولر مسلز انسان کے بیرونی کان کے پاس موجود ہوتے ہیں عام طور پر یہ مسلز ان جانوروں میں بہت ایکٹو ہوتے ہیں جو کہ اپنے شکار کی آواز کے بارے میں کانوں کی حرکت سے پہچانتے ہیں- مگر انسان کے اندر یہ مسلز اب کارآمد نہیں رہے ہیں اور اس کی جگہ انسان کی گردن نے لے لی ہے جس کی حرکت کی مدد سے انسان اردگرد کی آوازیں سن سکتا ہے-

image
YOU MAY ALSO LIKE: