جس بات سے واقف نہ ہوں اس پر تبصرہ نہ کریں

مولانا طارق جمیل نے کہہ دیا کہ ہمارے ہاں جھوٹ بہت ہے۔ تو ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس کرونا میں جس قدر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔اور اس جھوٹ کی وجہ سے دنیا کی معیشت بر باد ہو گئی ہے۔

ہر چمپین کو شکائت ہے کہ باقائدہ ٹسٹنگ نہیں ہو رہی ہے۔ ٹسٹنگ کے آلہ کا خالق کہتا ہے کہ یہ مریض کی تشخیص کے لئے نہیں ہے۔ اب اس کے نتائج پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بڑے ڈاکٹر نے کہا کہ اس ٹسٹنگ میں اور دس آدمی کھڑے کرکے اکّڑ بکّڑ بمبے بو اسّی نوّے پورے سو سو میں لگا تاگہ چور نکل کر بھاگا۔ جس آدمی پر بھاگا آ جائے وہ آدمی پازیٹیو ( مثبت) ہو گیا۔ کوئی فرق نہیں ہے۔

گوذرا سی بات میں برسوں کے یارانے گئے پر اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے۔ اس وائرس نے بڑے بڑے جغادریوں کی علمیت کا پول کھولدیا ہےہے۔ آہستہ آہستہ کرونا کا فراڈ کھلتا جا رہا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سب افلاطون اسی خوف کو پھیلا رہے ہیں۔ بہت سے یوروپ اور امریکہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ کرونا معمولی سے زکام کے جیسا ہے۔ پھر لوگ کیوں مر رہے ہیں؟ جواب ہے کہ کرونا سے نہیں پھیلائے ہوئے خوف سے مر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے ایک مثال دی کہ ایک لیب میں ایک سائکالوجیکل Behaviour (رویہ )پر ریسرچ تھی ڈاکٹرز نے سزائے موت کے ایک قیدی کو لیا کہ اگر یہ بچ گیا تو اس کی قسمت ۔ تجربہ کیا تھا ۔ اسکو ہاسپٹل میں بیڈ پر لٹا کر اسے چادااڑھا دی اور یہ بتایا کے ہم ایک سانپ سے کٹوائیں گے۔ پھر اسکے پیروں پر دو سویّاں (نیڈلز) چبھوئیں سانپ تو دور دور بھی نہیں تھا مگر قیدی تھوڑی دیر بعد مر گیا۔

دنیا امریکہ اور اسکے جھوٹ سے اچھی طرح واقف ہے مگر ہم سب اسکی باتوں پر بے حد یقین کر لیتے ہیں۔ امریکہ کے جھوٹ گنوادوں یہ چاند پر گئے تھے کیا واقعی؟ جب انکے نیل آرم اسٹرانگ نے امریکی پرچم لگایا تو وہ لہرا رہا تھا ۔ میں نے دیکھتے ہی کہا یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ یہ کسی سیٹ پر یہ فلم بنا رہے ہیں۔ چاند پر ہوا کہاں ہوتی ہے جو یہ پرچم لہرارہا ہے ۔ بھلا کیسے ممکن ہے ۔

9/11 کاڈرامہ سب کے سامنے ہے۔ مگر یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی بھی بہت سے چیمپین یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کام اسامہ بن لا دن کا ہی تھا۔ عراق میں بڑی تباہی کا اسلحہ بتا کر حملہ آور ہوئے۔ وہ اسلحہ نکلا؟ در اصل صدّام حسین نے ڈالر میں تیل بیچنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح لیبیا کو نشانِ عبرت بنا دیا۔

افغانستان میں اسامہ کے پیچھے آئے ۔ ملّا عمر نے جواب دیا ثبوت لا ئو تو مجرم کو ہم خود سزا دیں گے۔وہ ہماری پناہ میں ہے ہم اسے حوالے نہیں کر سکتے۔ اتنی بڑی فوج لائے تھے مگر اٹھارہ سالوں میں طالبان نے امریکہ کا تورہ بورہ بنا دیا ۔کیا آپ صدّام، قزافی۔اور طالبان کا فرق سمجھتے ہیں؟ صدّام اور قزافی اپنے سرِ پر غرور کے ساتھ دین سے بہت دور تھے۔ جبکہ طالبان اپنی جنگ صرف رضائے الٰہی کے لیئے لڑ رہے ہیں۔وہ دن دور نہیں جب کرونا کا جھوٹ بھی طشت از بام ہو نے والا ہے ۔ مگر اسکا کیا کریں کہ ہمارا ایمان گوروں کی سوچ پر ہے۔ اور اللہ ہم کو نظر ہی نہیں آتا۔ صبح سے شام تک کرونا کی اموات کی کمنٹری کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا مہذب سمجھتے ہیں۔ یہ فطرت کا قانون نہیں سمجھتے کہ قضاء و قدر سے جو لوگ انتقال کرتے ہیں انکے اعداد و شمار کہاں گئے؟ ہمارے سیانے اور ڈاکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس کرونا کے خلاف کچھ بولے تو جا ہل کہلایئں گے۔ ہمارے ہاں ابھی کتنی ویکسین استعمال میں ہیں۔ مگر ہماری حکومت کی اس معاملے میں کوئی اہلیت نہیں ہے ۔کہ یہ تجزیہ کر سکیں کہ یہ ہمارے اور ہمارے بچّوں کے لئے نقصاندہ یا اسکا کوئی فا ئدہ بھی ہے۔مگر جو گورے نے کہہ دیا وہ بھلا غلط کیسے ہو سکتا ہے۔بلگیٹ کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہمارے ہاں بچوں کو ویکسین لگوا رہا ہے۔ یہ اللہ کا یہ فرمان بھول جاتے ہے کہ یہودو نصارہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ کرونا بھی بلگیٹ کا کارنامہ ہے۔ اور وہ نوید دے رہے ہیں کہ اب اس سے بڑی وباء آنے والی ہے۔بلگیٹ کی ویکسین سے بھارت میں ستّر ہزار بچّے معذور ہو گئے ہیں ۔

اپنوں نے بھی کم زخم نہیں لگا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں۔ کہ کسی کی موت پر اگر معلوم ہو جاتا ہے ۔ تو اسکی موت کو کرونا بتا کر لے جا تے ہیں۔ پھر لاش کے واپس لینے کے لئے بڑی خطیر رقم دینی پڑتی ہے۔ اس طرح قبرستان میں خطیر رقم دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح کاروبار کھولنے میں رشوت کا بڑا دخل ہے۔ عوام جائے تو جائے کہاں۔

ان حالات میں پورے ملک میں یک جہتی ہوتی تو کیا اچھّا ہوتا۔اٹھّارویں تر میم نے صوبوں خود مختاری کی راہ پر لگا دیا ہے۔ ان سے تعاون عبث معلوم ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاست اور جمہوریت کا بڑا تقدّس ہے۔ سیاست دان کسی بھی صورت میں کرپشن چھوڑنے پر راضی نہیں ہے۔ثبوت نہ مانگیں بلکہ سوشل میڈیا پر نظر رکھیں۔

ایک خبر کے مطابق جو لوگ کرونا کو جتنا خطر ناک بتا تے ہیں اتنا ہی مال پاتے ہیں۔ امریکہ میں کرونا مریض کے تین ریٹ۔ مثبت نکلے تو سرکار پانچ ہزار ڈالر ہسپتال کو ادا کرے گی۔ اگر اسکا علاج ہو گا تو تیرہ ہزار ڈالر اور ونٹیلیٹر لگانا پڑا تو پینتیس ہزار ڈالر ہسپتال کو ادا کئے جائیں گے۔ اس طرح ہسپتال کی کوشش ہو گی کہ جس کسی کو ممکن ہو کرونا کا مریض بتا دیئں۔

ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع رکھیں۔ اور خواہ مخواۃ بے جا خوف نہ پھیلائیں۔

ہمارے سیانے جب باہر سے پڑھ کر آتے ہیں تو لا شعوری طور پر یہ گوروں کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں

لہٰذا پاکستان کے لئے ان کی طرف سے کسی خیر کی توقع نہ کریں۔ انکی بےشرمی کا کیا اندازہ ہے۔

ان کی بڑی کوشش یہ ہے کہ مساجد مستقل بند کردی جایئں تو بہت اچھا ہو گا۔ پھر کرونا سے بھی نجات مل جائے گی۔چونکہ کرونا صرف مسجد سے پھیلتا ہے۔ نعوذ با اللہ۔

 

Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Read More Articles by Syed Haseen Abbas Madani: 58 Articles with 50321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.