کورونا وبا کے اس دور میں آج یکم مئی دنیا بھر میں یومِ
مزدور(لیبر ڈے) کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے والے
عالمی لاک ڈاؤن کی زد میں بھی مزدور اور محنت کش آیا ہے۔یہی دیہاڑی دار
زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔اس دن کی مناسبت سے سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں ۔
ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ اس دن کو دنیا کی مختلف مزدور تنظیمیں اپنے اپنے
انداز میں مناتی ہیں ۔ مقصود مزدور کی عظمت کو دنیا بھر میں اُجاگر کرنا
اورشگاگو کے شہدا سے یکجہتی ہوتا ہے۔ دنیا کے چند خطوں میں یکم مئی کو جشن
بہاراں کے طور اور پھولوں کے کھلنے کی خوشی میں بھی منایا جاتا ہے۔تا ہم
زیادہ معروف مزدور تحریک ہے۔ شگاگو کے مزدور کیا چاہتے تھے؟صرف اپنا انسانی
حق ۔مزدوری کے اوقات کار کا تعین۔ جب وہ ڈیوٹی پر آتے تو واپسی کا انحصار
مالک،صنعت کار یا سرمایہ دار کی مرضی پرہوتا۔ 12،14یا 16گھنٹے گزر جاتے،
ڈیو ٹی ختم ہی نہ ہوتی۔یہ تصور آج کل یہاں کئی نظاموں میں پایا جاتا ہے۔ اس
ظالمانہ اور غلامانہ طرزِ عمل کا خاتمہ اور چند جائز مراعات، یہی مزدوروں
کا مطالبہ تھا۔ شکاگو کے ھے مارکیٹ چوک میں جمع ہونے والے ان مزدوروں پر
جارحیت کی گئی۔ انھوں نے اپنے گماشتوں،ہر دور میں ریاستی جبر کے کارگر اور
آزمودہ ہتھیار، پولیس کے ذریعے نہتے اور پرامن مزدوروں پر اندھا دھند
فائرنگ کرائی گئی اور الزام یہ لگایا گیا کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس
پارٹی پربم پھینکا گیا تھا۔ اس جارھانہ فائرنگ کے نتیجے میں کتنے لوگ زخمی
ہوئے یا مارے گئے، صحیح تعدادکبھی بھی معلوم نہ ہو سکی۔بعد ازاں گرفتا ریوں
کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو ااور نامور مزدور رہنما گرفتار کر لیے گئے۔
ان پر مقدمہ قائم کیا گیا۔ 21جون 1886ء کو مزدور رہنماؤں سمیت کل آٹھ افراد
کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ ملزمان کے خلاف پولیس پارٹی پر بم پھینکنے
میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔حتیٰ کہ ٹرائل کے دوران مئیرنے بھی
اعتراف کیا کہ مظاہرین کی جانب سے کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی کا کوئی
ثبوت نہیں مل سکا۔ سٹیٹ اٹارنی اس بات پر اَڑے رہے کہ یہی لیڈرز ہیں اور
تمام تر معاملات کے ذمہ دار یہی آٹھ افراد ہیں۔ انھوں نے گرینڈجیوری پر زور
دیاکہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیں اور ایک مثال قائم کر دیں۔ 19اگست کو7
رہنماؤں کو سزائے موت جبکہ ایک رہنما کو 15سال قید کی سزا سنائی گئی. دنیا
بھر میں اس جانبدارانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کی مذمت کی گئی۔ ان مزدور
رہنماؤں کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر مہم بھی چلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں
حکومت نے مجبور ہو کردوکی سزائے موت عمر قید میں بدل دی جبکہایکنے اپنے سیل
میں خودکشی کر لی ۔ پھانسی کی سزاسن کر ایک مزدورنے عدالت کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا کہ ہمیں پھانسی دینے سے مزدور تحریک ختم نہیں ہو جائے گی ،ایسا
کبھی نہیں ہو گا۔ 11نومبر1887ء کوتین مزدوروں کو پھانسی دے دی گئی۔
تقریباًچھ لاکھ افراد نے شگاگو کے ان شہدا کی آخری رسومات میں شرکت کی
جبکہتین مزدوروں کی رہائی کی عالمی مہم جاری رہی بالآخر 26جون1893ء کو ان
مزدوررہنماؤں کی رہائی عمل میں آئی۔ سچ دیر سے سہی مگر سامنے آ گیا کہ
پولیس پارٹی پر جو بم پھینکا گیا تھا وہ سرمایہ داروں اور پولیس کیپٹن کی
ملی بھگت سے ان ہی کے ایک آلہ کارنے پھینکا تھا۔جس کا واحد مقصد مزدوروں کی
اس پرامن تحریک کو کمزور کرنا تھا۔
کام اور محنت انسان کی عظمت اور جدوجہد کی نشانی ہے۔ ہر انسان مزدور ہے۔
کام کی ہی عزت ہے۔ مگر آج عدم مساوات کا دور ہے۔ ایک کام کرے تو چند ہزار
اور دوسرے کو لاکھوں اجرت ملتی ہے۔ اس طرح کے کام بیگار سمجھے جاتے
ہیں۔ایگزیکٹیوز اپنے مفادات کے لئے پالیسیاں تشکیل دیتے، ان میں ترمیم کرتے
ہیں۔یہ بعض اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس دور میں کئی طرح کے
بیگار کیمپ کام کر تے ہیں۔ جو خون پسینہ خشک کیا ختم ہونے کے باوجود بھی
مناسب اجرت دینے سے گریز کرتے ہیں۔یہ خاندانوں کو حبس بے جا میں رکھتے ہیں۔
انہیں کمی اور مزارع بنا دیتے ہیں۔ بلاشبہ عظیم مزدور رہنما پھانسی کے
پھندے پر لٹک کر تاریخ میں زندہ ہوگئے۔ انھوں نے دنیا بھر کے مزدوروں کو
یکجہتی،صبر و تحمل اورجہدمسلسل کا پیغام دیا۔ دنیائے عالم کے سرمایہ داروں
کو بھی باور کرادیا کہ مزدور تحریک کوکسی بھی قسم کی دھونس،دھاندلی،غنڈہ
گردی، ریاستی جبراور سازش کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ذالڈگر سرینگرکے شہیدوں کا155 واں یوم شہادت
29 اپریل 1865 کوسرینگر کے ایک مرکزی علاقہ ذالڈ گر میں دو درجن سے زیادہ م
مزدور شال بافوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ کے
مظالم کے خلاف مزاحمتی تحریک کی بنیاد ڈالی۔کشمیری شال باف ظلم وجبر کے
خلاف ایک منفرد اور منظم جدجہد کی قیادت کر رہے تھے۔شالبافوں نے ڈوگرہ راج
کے ظلم و ستم کے خلاف اور غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے ذالڈگرکی طرف ایک
پرامن جلوس نکالا تو ڈوگرہ فوج کے گورنر دیوان دیوتا راج نے اسے بغاوت کا
نام دیکر اس تحریک کو کچلنے کے لئے کرنل بیجا سنگھ کو ذالڈگر کی طرف بھیج
دیا۔ ڈوگرہ فوج نے پرامن جلوس کو چاروں طرف گھیر کر فائرنگ کی۔ جس سے 28
شال باف شہید ہوئے اور سینکڑوں مظاہرین اپنے آپ کو بچانے کے لئے دریائے
جہلم میں کود گئے ۔ ان میں سے درجنوں دریا میں ڈوب گئے۔ ڈوگرہ فوج نے
سینکڑوں مظاہرین کوگرفتارکیا۔آج سے ڈیڑھ صدی پہلے شال باف تحریک نے
کشمیریوں کو ظالم کے خلاف لڑناسکھایا اور انہوں نے ا یک منفرد اور منظم
تحریک شروع کی جو آج تک جاری ہے۔کشمیر پر بیرونی جارحیت اور قبضے نے
کشمیریوں کی قربانیوں کی یاد منانے سے باز رکھا ہوا ہے۔ آج ذالڈ گر کے شہدا
ء کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔آج کا دن مزدور کی عظمت کی یاد
تازہ کرتا ہے۔ شکاگو کی تحریک ہو یا سرینگر ریشم خانہ کی تحریک ، یہ جدوجہد
ازل سے ابد تک جاری رہے گی۔ مگر جو قومیں مزدور کو عزت و احترام دیتی ہیں ،
وہ تیز رفتار ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
|