ہاں میں ایک مزدور ہوں۔

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی۔
ایک انسان جو اپنے وطن کی خوشحالی اور اپنے بچوں کے رزق کے لیئے اپنی تمام تر کاوشوں کو بروئے کار لائے اور اپنے کام کو ذہنی و جسمانی محنت و مشقت سے سر انجام دے مزدو ر کہلاتا ہے، یکم مئی مزدور کی محنت اور عظمت کو تسلیم کرنے کا د ن کہلاتا ہے ، یہ یکم مئی کیا ہے آج ہم ذرا اس کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں آخرہم یوم مزدو ر کیوں مناتے ہیں اور اس کو منانے کا مقصد کیا ہے اس کے لیئے میں اپنے پڑھنے والوں کو ایک واقع سناتا چلو، یکم مئی 1886 کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں مزدوروں کے کام کے اوقات متعین نہیں تھے اور ایک مزدور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے تک کام کیا کرتا تھا حتی کہ اس کے پاس اپنے بیوی بچوں سے ملنے کا بھی وقت نہیں تھا، امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے ایک طبقے نے اس ہی ظلم کے خلاف آوازاٹھانے کا فیصلہ کیا اور مشہور زمانہ ہائے مارکیٹ کی جانب بڑھتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے کہ "دنیا کے مزدور ایک ہو جاؤ"یہ ہڑتال اتنی کامیاب ہوئی کہ پہیہ جام ہو گیا ، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا گویا کاروبار زندگی رک گیا ہو یہ پہلا موقع تھا جب محنت کشوں نے اتحاد و منظم طریقے سے علم بغاوت بلند کیا، وہ نعرے لگارہے تھے کہ "ظالم حاکموں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہمارے اوقات کار مقرر کرو "مزدوروں نے چوبیس گھنٹوں کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ کو دیں گے حکمران کب اپنے گریبانوں کو مزدور کے ہاتھوں میں دے سکتے تھے، حکمرانوں نے نہتے مزدوروں اور محنت کشوں پر اندھا دھند فائرنگ کروا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑک غریب مزدوروں کے خون سے تر بہ تر ہوگئی، ایسے میں ایک مزدور اپنی سفید قیمض کو اپنے خون سے تر کر کے ایک چھڑی پر آویزاں کر کے چلایاکہ مزدور و آج کے بعد یہی سرخ جھنڈا ہمار ا پرچم ہوگا ،آخر کار حکومت ، ملز مالکان اور سرمایہ داروں کو مزدوروں کے مطالبات ماننے پڑے اور اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر ہوگئے ، بعد ازاں حکومت نے سات مزدور رہنماؤں کے خلاف جھوٹا بغاوت کا مقدمہ دائر کر کہ ان میں سے چار کو سزائے موت کا حکم سنا دیاسزائے موت اور پھانسی بھی ان مزدوروں کو ان کے نصب العین اور نظریے سے پیچھے نہ دھکیل سکی ، ان رہنماؤں نے پھانسی کے پھندوں کو چومتے ہوئے گلے میں ڈالتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں
فشر نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے کام کے لیئے جان دے رہے ہیں ۔

اینجل نے کہا کہ تم اس آواز کو بند کر سکتے ہو لیکن ایک وقت آئے گا جب ہماری خاموشی ہماری آواز سے زیادہ گرج دار ہوگی۔
پٹرنسز نے کہا کہ تم ہمیں مار سکتے ہو لیکن ہماری تحریک کو نہیں ۔
اسپائنر نے کہا کہ حاکموں غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے ، یہ خوش آئند ہے کہ حکومت میگا انفراسٹریکچر پروجیکٹس ، شاہراؤں اور توانائی منصوبوں پر کام کر رہی ہے صرف خوشحال اور مطمئن افرادی قوت ہی بین الاقوامی مقابلے کی فضا کا سامنا کر سکتی ہے ، حکومت مزدوروں کو ان کا سماجی اور معاشی حق دلانے کے لیئے پر عزم ہے، جب کہ امید ہے ملکی امن اور خوشحالی کے لیے مزدور اپنا کردار جاری رکھیں گے کیونکہ عالی شان محلات اور آسمان کو چھوتی عمارتوں کی بنیادوں میں مزدوروں کا خون اور پسینہ موجود ہے، رسول اکرم ﷺ نے حکم فرمایا کہ مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہو نے سے پہلے ہی ادا کردیا کرو یعنی اس کا حق خدمت معاہدے کے مطابق وقت پر اد ا کردیا جائے، یہ رسول اﷲ ﷺ کی معروف حدیث مبارکہ ہے جو ہر شخص چاہے وہ مزدور ہو یا مالک سب کو یاد ہے ، مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اس حدیث مبارکہ کے علاوہ ایک حدیث قدسی بھی بڑی معروف ہے کہ اﷲ تعالی یہ ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے لیئے خود مدعی بنوں گا، ان میں ایک وہ مزدور ہوگا جس نے اپنا کام تو پورا کر لیا لیکن اسے اجرت نہیں دی گئی ، کسی بھی ملک کی معاشی بہتری تب ہی ممکن ہے جب وہاں کے مزدور مطمئن اور خوشحال ہوں، مزدور قوم و ملت کے لیئے معمار و ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ایسا معاشرہ ختم ہوجاتا ہے جو مزدور وں کا استحصال کرے اور محنت کی صحیح قیمت وقت پر ادا نہ کرے، اس وقت یوں تو کل 72مختلف لیبر قوانین موجود ہیں لیکن ان میں سے چند زیادہ اہم ہیں ،موجود ہ نافذالعمل مزدور قوانین کو چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ٹریڈ یونین اور صنعتی تنازعات سے متعلق قانون۔مزدوروں کی شرائط ملازمت سے متعلقہ قانون۔ تنخواہ سے کٹوتی اور معاوضے سے متعلق قانون۔ سوشل سیکورٹی اور پنشن سے متعلقہ قانون، ٹریڈ یونین اور صنعتی تنازعات کو حل کرنے کے لیئے قومی صنعتی تعلقات کا آرڈیننس 2002میں نافذ ہوا، اس کی خاص خاص شقیں حسب ذیل درج ہیں ،یہ قانون ماسوائے ان ملازمین کے جو کہ فوج ، پولیس سرکار کے قوانین پہ عمل درآمد کروانے والے اداروں ، ورکرز ویلفیئر اور ایسے ہسپتالوں اور کلینکوں پہ جو کہ آمدنی کے لیئے نہ ہوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ہر ادارے کے مزدوروں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کی یونین بنائیں اور خود ہی یونین کے قواعد و ضوابط بنائیں ، ایک ورکر ایک وقت میں صرف ایک ہی یونین کا ممبر بن سکتا ہے ایک دفعہ اگر کسی ادارے میں یونین بن جائے تو وہ صرف لیبر کورٹ کی اجازت سے ختم کی جاسکتی ہے اور وہ بھی جب کہ وہ اپنے آئین ، صنعتی تعلقات آرڈیننس اور اس کے تحت بنائے گئے رولز کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی جائے، اگر کسی یونین کا وجود ختم ہو جائے تو رجسٹرا ر اس کی رجسٹریشن منسوخ کرسکتا ہے ، ان اداروں میں جہاں یونین موجود ہو اگر ترمیم کر کے صنعتی تعلقات آرڈیننس کا اطلاق ختم کردیا جائے تب بھی یونین کی رجسٹریشن قانون کے ذریعے بھی منسوخ نہیں کی جاسکتی ، ہمارے ملک کی اکثریت چونکہ دیہات سے تعلق رکھتی ہے جہاں ذریعہ معاش کاشتکاری ہے ان بچوں کی اکثریت اپنے والدین کے ہمراہ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہو کر اپنے تمام حقوق خصوصا اپنے بچپن سے محروم ہوجاتے ہیں ، اس کے نتیجے میں وہ نہ تو کبھی ذمہ دار شہری بن پاتے ہیں اور نہ ہی وہ زندگی میں کوئی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ ساری عمر پیٹ کی جہنم بھرتے بھرتے خود بھی اس جہنم کا ایدھن بن جاتے ہیں ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بند ہ مزدور کے اوقات۔

بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں مزدور کو حقار ت سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ مکمل طو ر پر مادی معاشرہ ہو گیا ہے ہر شے پیسے کے گرد گھومتی ہے ، یہاں تک کے انسان مشرف بھی زر و سیم ہی کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے، جس کے پاس جس قدر دولت زیادہ ہے عشرت کا سامان وافر ہے ، نوکر چاکر اور روپے پیسے کی ریل پیل ہے وہی قابل عزت سمجھا جاتا ہے، خواہ وہ دینی قدروں سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو اور اخلاقی لحاظ سے کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو ، اگر حقیقت پسند نگاہوں سے دیکھا جائے تو ایک مزدور عظیم ہے کیونکہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا ، بد عنوانی کا مرتکب نہیں ہوتا، وہ ایک خود دار انسان ہے وہ کاروبار میں سچ بولتا ہے جھوٹ کو سچ نہیں بناتا، وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا ، اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے ، پاکستان میں مزدوروں کا عالمی دن تو ہر سال ضرور منایا جاتا ہے لیکن بد قسمتی سے کسی بھی حکومت نے کبھی مزدوروں کے مسائل اور ان کی زندگی میں موجود مشکلات کو کم کرنے کے حوالے سے کبھی کوئی پالیسی نہیں مرتب کی، پاکستان تحریک انصاف ملک کی واحد جماعت ہے جو مزدوروں کے حقوق کی علمبردار جماعت ہے، موجودہ حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا مزدور طبقہ ہی ہے ، وہ لوگ ہیں جو دیہاڑی دار ہیں ، حکومت پاکستان نے مزدوروں اور دیہاڑی دار طبقے سمیت وہ لوگ جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کے لیئے احساس پروگرام شروع کیا جس کے تحت ان غریبوں کو نقد رقم فراہم کی جس سے ایک غریب اور مزدور کو مدد ملی ، کرونا وائر س کی وجہ سے جہاں پورا ملک لاک ڈاؤن ہے اور تمام کاروبار بند ہیں ، ایسے میں صرف مزدوروں کے لیئے روزگار کو یقینی بنانے کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تعمیرات کے شعبے میں خصوصی پیکج کا اعلان کیا اور تعمیرات کے شعبے کو ریلیف دیا تا کہ ملک میں تعمیرات کا کام شروع ہو اس سے کم و بیش ملک میں چالیس ایسی صنعتیں کام کریں گی جس سے ڈائریکٹ مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کو روزگارملے گا ، مزدوروں کی بہتری اور خوشحالی کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جدوجہد اور اقدامات کو سلام پیش کرتے ہیں ، وفاقی حکومت کی جانب سے مزدوروں کے لیئے 75ارب روپے کے پیکج کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت مزدور دوست حکومت ہے، آج اسٹیل ملز کے مزدوروں کے حالات گزشتہ حکومتوں سے کچھ بہتر تو نہیں ہیں لیکن امید کی جاتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان تمام وعدے پورے کریں گے ، جن میں اسٹیل ملز کے مزدوروں کے بقایا جات اور پنشن سمیت تمام معاملات کو بہتر کریں گے ، اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کا مزدور حکومت کے ساتھ کھڑا ہے اور تحریک انصاف مزدوروں کے ساتھ کھڑی ہے ، میری زندگی کا ایک طویل حصہ مزدوروں کی بقا کے لیئے گزرا ، اعلی قیادت کے حکم پر میں نے اپنی مدد آپ کے تحت لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہونے والے مزدوروں میں راشن بیگز تقسیم کیے ، تحریک انصاف نے غریبوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا ، یہ قوم کی خوش قسمتی ہے کہ پہلی دفعہ ملک کی باگ دوڑ ایک ایماندار شخص کے ہاتھوں میں آئی ہے جو کہ غریبوں کے دکھ اور تکالیف کو سمجھتا ہے بلکہ ایک عام انسان کی بہتری کے لیئے دن رات کام کر رہا ہے ، میں دعاگو ہوں کہ ہمارا ملک ترقی کرے اور اس ملک کے مزدور کے حالات میں ایسی تبدیلی آئے جس سے اس کے گھرکا چولہا تاحیات جلتا رہے۔ ختم شد
 

Syed Bashani Shah
About the Author: Syed Bashani Shah Read More Articles by Syed Bashani Shah: 15 Articles with 14814 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.