تحریر ۔۔۔سید کمال حسین شاہ
کردار کے معنیٰ ہیں طرز ، طریق ، عادت ، قاعدہ ، شغل ، خصلت، کے ہیں جو
انفرادی طور پر انسان میں نشونما پاتی ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے
ردّعمل و حالات میں پتہ چلتا ہے .انسان زمین پر اشرف المخلوقات اور مقامِ
بلندہے عقل اور اخلاق و کردارجو دوسری تمام مخلوقات سے یکسر علیحدہ کرتا
ہیں۔ اسلام ایک اﷲ کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اخلاق و کردار جھوٹ نہ
بولنے ، بغض و حسد۔ وعدہ خلافی ، خیانت ، بدی ، رشوت اور دوسری برائیوں سے
بھی منع کرتا ہے اسلام میں عبادات اور معاملات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے
،اسی طرح یہ حسنِ اخلاق اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دیتا ہے.انسان کی
شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے،یہ نہ ہوتو ساری چیزیں
کھوکھلی ہیں.اجتماعی و معاشرتی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو
بنیادی حیثیت حاصل ، معاشرت کی پہلی اینٹ اخلاقِ حسنہ ہی ہیں۔ حسن اخلاق کے
بغیر ۔قول و فعل میں تضاد ہے اور یہ بنیادی کمزوری ھماری کی ترقی کے راستے
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی بگاڑ داخل
ہوچکا ہے۔ امانت، دیانت، ، عدل، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ ہماری
اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں۔کرپشن بدعنوانی ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں
پھیلی ہوئی ہیں۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔لوگ قومیو و اجتماعی فکر سے
خالی ہیں اپنی مفادات اور ذات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ان جیسے دیگر منفی رویے
ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں آج قومی اوربین الاقوامی سطح پر پوری
دنیا میں فسادو بگاڑ برپا ہے ، امن و عدل کا خو ن کیا جارہا ہے، کمزوروں پر
شہہ زوروں کا ظلم ، عورتوں کے حقوق کی پامالی ، معصوموں اوربے گناہ لوگوں
کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہاہے۔ جمہوریت کے نام پر قوم کی قوم تباہ
وبرباد کی جا رہی ہے۔ ہر طرف انتشار اور ظلم و تشددکا بازار گرم ہے۔ خود
ساختہ قوانین بے معنیٰ اور بے وزن ہیں۔نہ ہی ان قوانین و ضوابط میں استحکام
و پائداری ہوتی ہے۔اس لئے انسانوں کا بنایا ہوا کوئی ضابطہ اور کوئی قانون
انسانوں کے لئے نسخ شفاء نہیں بن سکتا۔ ان قوانین کے نفاذکی جس قدر کوششیں
کی جائیں گی خامیوں اور نقائص سے یہ قانو ن اور حالات کی سنگینی کا ہی سبب
ہو گا۔ جدید جاہلیت بے نقاب ہو کر سامنے آگئی ہے انسان ہمہ وقت انسانی
کردارکشی کے لئے متحرک ہے اﷲ نے ساری مخلوقات ایک کا قانون و ضابطہ دیا ہے
وہ ضابطہ ہے قرآن مجید۔یہ ضابط الٰہی آج سے چودہ سو سال قبل نازل ہو ا تھا
.آج مسلمانوں کے اخلاق میں گھن لگ چکا ہے کر دار میں ۱مختلف قسم کی خرابیاں
پیدا ہوچکی ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں انتشار و زوال کا سامنا کرنا پڑرہا
ہے ضرورت ا س امر کی ہے کردار سازی سے علاج کیا جائے اور اس مرض سے نجات
دلائی جائے۔ نہ صر ف اپنے دیس میں بلکہ پوری دنیا میں کردار سازی کی بہت
ضرورت ہے دنیا کو موجودہ پیچیدہ امراض اور پیچیدہ حالات سے نجات دلائی
جائے.
ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی موضوعات پر بات کم ہوتی ہے.تعلیم ہمارے
معاشرے کی روٹی، کپڑا، مکان، روزگار کے ساتھ اشد ضرورت ہے۔ اخلاقیات کا
فقدان موجود رہے جس سے معاشرے میں امن و سکون نہیں ا سکتا۔ روزگار سے
اخلاقیات نہیں اسکتی واحد ذریعہ تعلیم و تربیت ہے۔بچہ کی پہلی تربیت گاہ
ماں کی گو۔ر گھر کا ماحول ہے۔ والدین کی عادات بچے کی شخصیت سازی کیلئے اہم
ہوتی ہیں۔ جس طرح گھر کا ماحول ہو گا، بچے کی تربیت بھی اسی طرز کی ہوگی۔
گھر میں لائبریری ہوگی تو بچہ کا رجحان تمام عمر کتب بینی کی طرف رہے گا۔
۵سے ۶ سال کی عمر سے بچہ زندگی کا ابتدائی حصہ سکول میں گزارتا ہے۔ سکول
تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ۔ عمر کے اس حصے میں سیکھنا بہت آسان ہوتا
ہے. لہزا عمر کے اس حصے میں تعلیم و تربیت عمارت کی بنیاد رکھنے ہے۔اساتذہ
کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے
کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ ابتداء سے استاد کو مرکزی مقام حا
صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ
انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے۔ اہم کردار چار عملی میدان ہوتے ہیں ، تعمیر ذات ، اپنے علم میں
مسلسل اضافہ ِ ، طلباء کی شخصیت و کردار سازی اور تعلیم گاہ اور
استاداسکولوں کا بنیادی مقصد کے طلبہ کردار سازی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے
لیے ادارہ جہاں معیاری نصاب کی تشکیل دیتے ہیں ۔وہاں اسکولز کے اساتذہ کی
پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بلند کرنے لے لیے تربیتِ اساتذہ کا اہتمام بھی ا
ہم ہے۔ طلبہ کی دینی ، سماجی، اخلاقی اور ذہنی تربیت تعلیم کے اہم ترین
مقاصد میں شامل ہے.بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچے کو رٹہ لگوا کر زیادہ نمبر گیم
میں جیتنے کی کوشش تو کی جاتی ہے، مگر اخلاقیات کا ایک باب بھی نہیں کھولا
جاتا۔ کتابوں کی تحریر کہ ایک ایک لفظ کو تو ذہن نشین کروایا جاتا ہے، مگر
اخلاقی قدروں کا تعارف بھی نہیں ہوتا، پڑھا لکھا تو بن جاتا ہے مگر انسان
نہیں.یونیورسٹی کا ماحول بھی انسان سازی پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ یونیورسٹی
میں داخلہ کے بعد انسان کا لباس، اخلاق، رہین سہن یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ یونیورسٹی کے ماحول کی بدولت ہے۔ یونیورسٹی انسانی زندگی میں اس
لیے بھی اہم ہے کہ عمر کہ اس حصے میں نوجوان اپنے بارے میں فیصلہ کرنے مکمل
آزادی رکھتا ہے۔ شخصیت سازی کا مکمل تصور ہے کہ ہم کس طرح اپنی نوجوان نسل
کو کردار سازی کے مختلف مراحل سے گزار کر معاشرے کے لیے مفید اور کامیاب
انسان بنا سکیں ہیں۔ اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبے شروع کرنے چاہیے.
اہم مسائل بدامنی، لاقانونیت، کرپشن اور فرقہ واریت ہیں تو درحقیقت ان تمام
مسائل کا تعلق کردار کے بحران سے ہے۔ ابھی تک ہم وہ مطلوبہ نظامِ تعلیم
نہیں دے سکے جو معاشرے کے لیے با مقصد اور مفید شہری فراہم کر سکے۔کردار
سازی کو نظام تعلیم کا مر کز و محور بنائے بغیر نہ تو ہم ان مذکورہ مسائل
کو حل کر سکتے ہیں ۔ نہ ہی تعمیر و ترقی کا سفر ممکن ہے۔ پاکستان کا مستقبل
اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے۔ نوجوان نسل کی کردار سازی کو قومی سطح پر
ترجیح اول قرار دیا جانا چاہیے اگر اج ہی سے ہم اپنی قوم کی کردار سازی کی
طرف بھر پور انداز میں متوجہ ہوں تو یقیناً انے والی نسلیں اس اخلاقی
بیماریوں سے دور ہوں گی. اگر موجودہ نسل کرپشن، جھوٹ، الزام تراشی، لالچ،
فراڈ، ظلم وزیادتی اور بداخلاقی والے طریقہ کار اپنائے ہوئے ہے۔ تو ہم
یقیناً یہ نسل ضائع کرچکے ہیں۔ ہم پرفرض کے درجہ میں یہ چیز لازم ہوچکی ہے
کہ ہم اس صورت حال کو بدلنے کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ اس معاملے میں اپنے
لوگوں کی تربیت کریں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یقیناًہمیں بدترین تباہی کا
سامنا کرنا ہوگا۔گھر، مدرسہ یا کوئی اور تعلیمی ادارہ ہو ہر سطح پر تربیت
اور اصلاح حال عنقا ہے۔ہمیں اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہمیں
اپنی انے والی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کرنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری مدد و
نصرت فرمائے۔ امین |