|
زمانہ طالب علمی انسانی زندگی کا یادگار ترین وقت ہوتا ہے اور انسان اس وقت
کے دوستوں اس وقت کے ساتھیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ہے اور ان کی
یاد اس کے ساتھ تاعمر رہتی ہے- مگر بعض اوقات اس دور میں ہونے والے کچھ
مذاق کسی بھی انسان کی زندگی کو تبدیل کر دینے کا سبب بھی بن جاتے ہیں-
ایسے ہی ایک نوجوان حسنین شیخ بھی ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ اپنے
بچپن ہی سے ایک گول مٹول بچے رہے ۔ بچپن میں ایسا ہونا لوگوں کے لاڈ پیار
کا باعث ہوتا ہے مگر یہی وزن جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی لوگوں کی جانب
سے مذاق کا نشانہ بننا شروع ہو جاتا ہے ۔ اس وقت میں بہت سارے لوگ احساس
کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں مگر حسنین شیخ نے اپنے اس وزن کو اپنی کمزوری
بنانے کے بجائے اس سے جان چھڑانے کی ٹھان لی اور صرف نو مہینوں میں پچاس
کلو وزن کم کر کے ایک اسمارٹ اور سڈول نوجوان میں تبدیل ہو گئے-
ایک مشکل فیصلہ
طالب علمی میں او لیول یا میٹرک کے امتحانات کسی بھی طالب علم کی زںدگی کا
وہ دور ہوتا ہے جب کہ اس کی تمام تر توجہ اس کی پڑھائی پر ہوتی ہے اور ہونی
بھی چاہیے- مگر اس وقت میں حسنین نے ایک دن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر یہ
فیصلہ کیا کہ اب انہوں نے اپنی عملی زندگی میں اس 120 کلو وزن کے ساتھ قدم
نہیں رکھنا ہے اور انہوں نے خود کو تبدیل کرنا ہے 17 اکتوبر 2017 میں حسنین
ایک ایسے نوجوان تھے جو کہ کھانے پینے کے شوقین تھے جن کا قد پانچ فٹ آٹھ
انـچ اور وزن 120 کلو تھا- مگر 18 اکتوبر 2017 کا سورج جب طلوع ہوا تو اس
سورج کے ساتھ طلوع ہونے والا حسنین ایک یکسر مختلف نوجوان تھا جو فیصلہ کر
چکا تھا کہ اس نے خود کو بدلنا ہے-
|
|
تبدیلی کا سفر
حسنین نے جب وزن کم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے ایک جانب تو واک کی اور
دوسری جانب جم بھی جوائن کر لیا کیوں کہ وہ ڈائٹنگ کے ساتھ ساتھ ورزش کے
ذریعے وزن کم کرنا چاہتے تھے- مگر ایک حادثے کے سبب ان کو جم جانے سے منع
کر دیا گیا اور اس کی جگہ ہر روز تین گھنٹے کی واک کرنے سے آغاز کیا گیا-
وزن کم کرنے کے اس سفر میں پہلے مہینے حسنین نے ایک جانب تو تین گھنٹے کی
واک کی دوسری طرف انہوں نے اپنی غذا بہت کم کر دی اور پورے دن میں صرف 300
سے 400 کیلوریز لے رہے تھے جبکہ ایک صحت مند انسان کو دن بھر میں 2000
کیلوریز لینی چاہیے ہیں- جلد ہی حسنین کو اندازہ ہو گیا کہ اس طرح وہ بہت
کمزوری محسوس کر رہے تھے اور ان کو ایک متناسب غذا کی ضرورت ہے- اس لیے
انہوں نے اپنے لیے ماہرین غذا کے مشورے سے ایک ڈائٹ پلان ترتیب دیا-
|
|
حسنین کا ڈائٹ پلان
حسنین نے ایک مہینے بعد اپنے لیے جو متوازن ڈائٹ پلان ترتیب دیا تھا وہ کچھ
اس طرح تھا
ناشتہ : دو سے تین انڈوں کی سفیدی اور دودھ
ناشتے کے بعد: بھوک لگنے کی صورت میں وہ ایک سیب کھا لیتے تھے
دوپہر کا کھانا : بغیر چکنائی کے پکی ہوئی مچھلی یا مرغی
عصرانہ: اس وقت میں وہ براؤن بریڈ پر پینٹ بٹر لگا کر کھاتے تھے
رات کا کھانا :بغیر چکنائی کے ابلی ہوئی سبزیاں یا گوشت
عام طور پر ہفتے کے دن کو وہ عیاشی کے دن کے طور پر رکھتے تھے اس دن وہ کسی
حد تک بے احتیاطی کرتے تھے
ورزش
ڈائٹنگ کے ساتھ ساتھ وہ دن بھر میں تین گھنٹے ورزش کرتے تھے جن میں سے ڈیڑھ
گھنٹے وہ جم میں گزارتے تھے جب کہ 45 منٹ سوئمنگ کرتے تھے اس کے بعد ایک
گھنٹے تک رات کو واک کرتے تھے چھ مہینے کے بعد انہوں نے کچھ سپلیمنٹ بھی
لینے شروع کر دیے-
|
|
مشکل وقت
حسنین کا یہ کہنا تھا کہ اس دوران سب سے مشکل کام ان کے لیے تمباکو نوشی
چھوڑنا تھا کیوں کہ تمباکو نوشی کے سبب ان کا اسٹیمنا بہت کم ہو گیا تھا-
اس وجہ سے سب سے پہلے انہوں نے تمباکو نوشی چھوڑی تاکہ وہ مناسب طریقے سے
ورزش کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے او لیول کے امتحانت کی تیاری
بھی کی-
منزل کا حصول
نو مہینے کی سخت ترین جدوجہد کے بعد بالآخر حسنین نوے کلو وزن کم کرنے میں
کامیاب ہو گئے- اب ان کا وزن ستر کلو تھا مگر صرف اس سنگ میل کو چھونا ہی
کامیابی نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اب اس کو برقرار رکھنا سب سے بڑی
کامیابی تھی- اس وجہ سے حسنین نے اپنے طرز زندگی کو یکسر بدل ڈالا وہ اب
فاسٹ فوڈ نہیں کھاتے ہیں کسی بھی دعوت پر یا تقریب پر جانے کے باوجود بھی
اپنا کھانا اپنے ساتھ گاڑی میں لے کر جاتے ہیں اور جم اور ورزش کو اپنی
روٹین میں رکھتے ہیں-
حسنین شیخ ایسے بہت سارے نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہیں جن کا یہ ماننا ہوتا
ہے کہ وہ بچپن سے موٹے ہیں اب کـچھ نہیں کر سکتے ہیں-
|