بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے قرآن مجید فرقان حمید اللہ
رب العزت کا پاک کلام ہے،ہمارے لیے ہدایت اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ ”بے شک
اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا،جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل
ڈالے،جب اللہ کسی کو بُرے دن دکھانے کاارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی
ٹال نہیں سکتا اور اللہ سوائے ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہو سکتا“۔
قوموں کی ترقی اور پستی کا مکمل راز اس آیتِ کریمہ میں فرما دیا، اس آیت پر
عمل پیرا ہونے کے لیے آقائے دو عالم احمد مجتبیٰ سرورکونین صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ کل کائنات کا ایک ہی رب ہے،
اسی نے پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ بات ہورہی ہے قوموں کی ترقی اور پستی
کی، اگر آپ خود اپنا منہ دھونا نہیں چاہتے تو آپ کا منہ گندا ہی رہے گا،
کپڑے صاف ستھرے پہننے کے لیے ان کو دھونا پڑے گا، تعلیم حاصل کرنے کے لیے
پڑھنا پڑے گا، انجینئر بننے کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا ہوگا، یعنی جو ہم
بننا چاہتے ہیں، جس کی خواہش رکھتے ہیں اس کے لیے کچھ کرنا پڑے گا، تبدیلی
لانا ہوگی، اپنے معمولات زندگی میں تغیر پیدا کرنا ہوگا، ثابت ہوا، جب تک
ہم خودکو تبدیل نہیں کریں گے تبدیلی نا ممکن ہے۔ جن قوموں نے ترقی کی ہے
انہوں نے اس چیزکو مانتے ہوئے کہ اللہ کا کلام بہترین کلام ہے اگر ترقی
کرنا مقصود ہے تو اس کا مطالعہ بھی لازمی ہے۔ انگریز بظاہر دنیا میں ترقی
یافتہ قوموں میں گنے جاتے ہیں تو انہوں نے خود کو تبدیل کیا اور دُنیا پر
چھا گئے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن باتوں کو تفصیلا ً، عملاً
کرکے دکھایا، کیا ہم نے اس کو اپنا معمول بنایا، جھوٹ، چوری چکاری، غیبت،بے
ایمانی، بددیانتی، رشوت ستانی سے منع فرمایا کیا ہم نے اس سے کنارہ کشی کی،
عدل و انصاف پر زور دیا ہم نے اتنا ہی اسے کمزور تر کر دیا، قومی معاشرے کی
ترقی ان لعنتوں سے چھٹکار ا پانے کے بعد ہی میسر ہوتی ہے،آج ہم دربدر کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں آخر کیوں؟ کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو بدلنے کی
کوشش ہی نہیں کی، اب اس کو سمجھنا کتنا آسان ہو گیا ہے کہ کورونا آیا، جس
ملک میں وبا پھیلتی ہے انہو ں نے نہ صرف اس پر قابو پایا بلکہ انہوں نے اس
وفا سے پیدا اٹھاتے ہوئے اپنی اکانومی کو مزید بہتر کر لیا، ہم جیسے چور،
اچکوں، جھوٹوں کے سرداران، رشوت خوری سے محلات بنانے والے، اربوں کھربوں کی
کرپشن کرنے والوں کا ملک اور دیگر ممالک اسی چائنا سے صحت کا سامان لینے پر
مجبور ہیں، چائنا وہی ملک ہے جس کا ہم سب گھر پر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے
تھے، اس نے کچھ کرنا چاہا، بدلنا چاہا بدل کر دکھایا، کورونا سے چائنا کی
اکانومی کو تباہی کا سبب سمجھنے والے قاصر تھے کہ وہ کیسے آگے بڑھے گا، آج
پوری دُنیا کورونا سے بچاؤ کے لیے طبی سازوسامان لاکھوں ٹنوں کی شکل میں
خرید رہی ہے، ایک ہم پاکستانی بھی قوم بننا چاہتے ہیں، اپنی اکانومی کو
بہترچاہتے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس ہم اس قابل ہی نہیں ہیں، ہم ایسی قوم
بن چکے ہیں، جب ملک پر کڑا وقت آتا ہے تو اسے بھی کمائی کا بہترین ذریعہ
بنا لیتے ہیں، کورونا وبا کیا پھیلی تاجراور سیاسی حضرات نے اس کو اپنا
کاروبار بنا لیا، وہ چیز جس کی قیمت تین روپے تھی اس کو تین سو کر دیا، بے
بس،مجبور اور بے کس کو ذلیل وخوار کر دیا، حفاظتی سامان ذخیرہ اندوزی میں
بدل دیا، مارکیٹ میں نایاب کر کے منہ مانگے دام لیے گئے، اس کے مقابلے میں
چائنا کی اس بوڑھی عورت کو دیکھو جو مین مارکیٹ سے ہول سیل پر حفاظتی سامان
خریدکر ان لوگوں تک پہنچتی اور اسی ہول سیل پر سامان فروخت کرتی، کسی نے
سوال کیا کہ آپ اس عمر میں اتنی دور سے سامان لاکر اسی ریٹ پر فروخت کر رہی
ہو تو اس نے جواب دیا کہ لعنت ہے ایسے منافع پر جولوگوں کی مجبوری سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے کمایا جائے، میں شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے دُکھی انسانیت کی
خدمت کرنے کا موقع ملا، شاید میری چھوٹی سی کوشش سے کسی کی زندگی بچ جائے،
لیکن میرے پیارے ملک پاکستان میں، معاشرتی اقدار کو روندتے ہوئے وہ کچھ کر
ڈالا کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ حکومتی سطح پر کرپشن زور پکڑنے لگی، لوگ بے موت
مارے جانے لگے، راشن تقسیم ہونا شروع ہوا، مخیر حضرات نے معاشرے کی خدمت
کرنے کی کوشش کی، مگر افسوس ہوا، شاید ہی کسی نے کہا ہو کہ مجھے راشن مل
گیا، سب نے ضرورت مندبن کر راشن وصول کیا اورچور دروازے سے دکاندار کو
فروخت کرنے چلا گیا، کیا ہمارا دین ہمیں یہی کچھ سکھاتا ہے؟ میرے پیارے نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو تعلیمات ہی کچھ اور تھیں، پھر چلے ہیں دوسری
قوموں کا مقابلہ کرنے اور ترقی یافتہ قوم بننے، ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے
ان بنیادی برائیوں سے نکلنا ہو گا، ملک و قوم کا لوٹا ہوا پیسہ بیرون ملک
بینکوں میں رکھنے کا مقصد ہے کہ ہم خود اس ملک کو تباہ و برباد دیکھنا
چاہتے ہیں، تو پھر اس انگریز لارڈ مقالے نے سروے کرنے کے بعد صحیح کہاتھا
کہ ہم ان کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کردیں گے جو ہم چاہیں گے، تو اس کی
بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے، کیاہمارے عقائد اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ
انگریز یہودی ہمارے معاملات کو بھانپ کر سمجھ گیا کہ ان کے ساتھ کیا کرنا
چاہیے، لیکن ہم قرآنی تعلمیات سے ہدایت نہ حاصل کر سکے، ہدایت حاصل نہ کرنا
ہی ہماری سب سے بڑی پستی ہے، جن قوموں نے ترقی کرنی ہے اور دُنیا میں عزت
کے ساتھ رہنا ہے انہوں نے خود کو بدل لیا ہے، لیکن ہم نے بھی بدلا ہے،
کرپشن کو تقویت تھی، انصاف کو لغت سے نکال دیا، اقراء پروری اور وڈیرہ شاہی
کو پروان چڑھایا، اور سیاسی اثرو رسوخ ہماری قوم کی پستی کی سب سے بڑی وجہ
ہے۔ اگر دُنیا میں ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ سینہ تان کر زندہ رہنا ہے تو
آئیے اللہ کریم کے اس انمول تحفہ اور ہدایت قرآن مجید کی طرف پلٹیں اس کی
رہنمائی میں اپنے معاشرے اور قوم کی اصلاح کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں کو
عبور کریں، وہی قومیں ترقی میں عروج حاصل کرتی ہیں جنہوں نے خود کو بدلا۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اے رب کریم ہم سے جو بھول ہوگئی ہے معاف فرما
اور ہمیں اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ورنہ ہم دین اور دُنیا میں ذلیل اور رسوا ہو کر
رہ جائیں گے۔آمین
|