کوئی پریشانی آئے یا کوئی افتاد ٹو ٹ پڑے،اہل ایمان
اورمحروم ایمان لوگوں کے سوچنے، سمجھنے اورنتائج اخذ کرنے کے معیار ات الگ
الگ ہوتے ہیں۔ اہل ایمان اسے آزمائش،تنبیہ یا عذاب الٰہی سے تعبیر کرتے
جبکہ ایمان سے محروم اس کی زمینی حقیقتیں اورتوجیہات بیان کرتے دکھائی دیتے
ہیں۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوضمانتیں دی
تھیں، جب تک ان میں سے ایک بھی باقی رہے گی تب تک امت کسی عذاب، آفت یا
آزمائش میں اجتماعی طور پرمبتلا نہیں ہوگی،ان دو میں سے پہلی ضمانت اللہ کے
پیغمبر ؐ کی ذات گرامی تھی جو آپؐکے ملاء اعلیٰ کی جانب سفر کے بعد چھن گئی
اوردوسری ضمانت استغفار تھی جو ہمیشہ کے لیے باقی ہے۔
گویا استغفار یعنی گناہوں سے معافی مانگنا اجتماعی عذاب اورالٰہی پکڑ سے
تحفظ کی ضمانت تھی جسے ہم بھول بیٹھے، وجہیہ ہے کہ تصور گناہ کمزور پڑ گیا،
بڑے بڑے گناہوں کو ہم نیگناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا، جھوٹ، غیبت،فریبدہی، ظلم
وزیادتی اوربے انصافی جیسے جرائم اتنی ڈھٹائی سے کئے جو اپنی آخری حدوں کو
چھونے لگے، زمین نافرمانیوں سے اس قدربھر گئی کہ بروبحر میں فساد برپا
ہوگیا،جس سے اجتماعیت محفوظ رہی اورنہ تنہائیاں پاکیزہ رہیں،خشکی پر امن
رہا نہ تری پر۔ہمارے گناہوں نے زمین وآسمان کے خلا تک کو بھر دیا پھر بھی
ہمارے دلوں میں اس کی سنگینی کا احساس اور معافی کا داعیہ تک پیدا نہ ہواتو
پروردگار نے ایک نظر بھی نہ آنے والی مخلوق کے ذریعے پوری زمین کا نظام جام
کر کے رکھ دیا،بڑی بڑی طاقتیں جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگی تھیں اس
کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئیں۔
پھر سزا یہ بھی دی گئی کہ ہم سے توفیق چھین لی گئی، اب سمجھ آیا کہ توفیق
کا چھن جانا کیا ہوتا ہے، ہم نے چاہا کہ اس کے گھروں میں جاکر معافی کے طلب
گار ہوں مگر اس نے ہمیں داخلے سے روک دیا، ہم نے چاہا کہ اس کے سامنے عاجزی
و نیازی کریں مگر اس نے اپنے گھروں میں سجدوں کی توفیق سے محروم کر دیا،
جزوی اور احتیاطی حاضری کی اجازت بھی ملی تو ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے
بھی خوفزدہ رہے۔
زمین پر بھی ناراضی کی بڑی علامت یہی ہے جن سے تعلق نہ رہے ہم کبھی ان کے
گھر نہیں جاتے اور نہ انہیں اپنے ہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں، پروردگار نے
ہمارے ہی اصول کے ذریعے اپنی چوکھٹ سے بے در کر دیا۔اتنا کچھ ہوجانے کے
باوجود بھی ہمارے روزوشب کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔
ذخیرہ اندوزی،گراں فروشی،جھوٹ اور فریب دہی جیسے جرائم اسی طرح بلکہ پہلے
سے بھی بڑھ کر ہورہے ہیں، ہم نے چند منٹوں کے لیے جس کاروبار سے اٹھ کر
جانا گوارہ نہ کیا تو اس نے اس کاروبارکو مہینوں تک ہم سے چھین کر احساس
دلانا چاہا کہ اب بھی وقت ہے پلٹ آئیے، جب ہم نے کان نہ دھرے تو اس نے
آزمائش کی اس گھڑی کواور بھی طویل کر دیا،رمضان المبارک جیسا ماہ مقدس بے
رونق جا رہا ہے اور مساجد ویران پڑی ہیں جنہیں دیکھ دیکھ کر آہیں نکلتی
ہیں۔پروردگار ہر رات ہم کو بلاتارہا کہ آؤکوئی بیمار ہے تو شفا پالے،کوئی
مقروض ہے قرض سے خلاصی طلب کرے، صدائیں تسلسل کے ساتھ آتی رہیں کہ ضرورت
مندو آجاؤ مگر ہم گوش بر آواز ہوئے اورنہ ہی اپنی روش بدلی۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ سیدناموسیٰ ؑ کے زمانے میں بارشیں برسنا بند
ہوگئیں،زمین پر ہریالی اوراناج ختم ہوکر رہ گیا، قحط سالی کے باعث انسان تو
کیا چرند پرند کی گزران بھی اجیرن ہوگئی توموسیٰ ؑاپنے ماننے والوں کوہمراہ
لے کر جب دعا کے لیے نکلے تھے توکتنی ہی دیر دعائیں جاری رہیں مگر جواب ملا
اے موسیٰ تیری صفوں میں ایک ایسا گناہ گار بندہ موجود ہے جس کے باعث تمہاری
دعائیں بھی شرف قبولیت سے محروم ہیں پہلے اس کو نکالیے،ادھر اسے نکل جانے
کی صدائے موسیٰ ؑبلند ہوئی ادھر اس نے دل ہی دل میں ایسی توبہ کی کہ فوراً
باران رحمت کا نزول ہونے لگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں ہر فرد یہ سمجھے کہ اس صورت حال کا
ذمہ دار میں ہی ہوں، میری ہی وجہ سے سب پریشانی میں مبتلا ہیں،ہر فرد اس
گناہ گار کی طرح ہی سچی توبہ کرے جو عرش الٰہی تک جاپہنچے۔
غار کے لاک ڈاؤن میں پھنس جانے والے بنی اسرائیل کے ان تین افراد کی طرح
خالص اللہ کی رضا کے لیے کئے گئے اپنے اعمال کو صدا دیجئے، جس طرح ان تین
کے اعمال سے غار کے منہ سے بھاری چٹان پرے جاگری تھی،اسی طرح ہمارے اعمال
سے کرونا وائرس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔
جب عذاب اورپکڑ اجتماعی ہو تو استغفار وتوبہ بھی اجتماعی درکار ہوتی
ہے۔معافی کی قبولیت کے لیے ماہ مقدس کی پر بہار ساعتیں میسرہیں،اتنا
گڑگڑائیں اورآنسو بہائیں کہ ہمارے آقا و مولا کو ہم پر رحم آجائے اوروہ
ہماری ساری غلطیاں، کوتاہیاں اور گناہ معاف کردے۔
پروردگار کا وعدہ ہے اگر تم استغفار کرو گے، اپنے گناہوں کی معافی مانگو گے
تو تم پر موسلادھار بارشیں برسیں گی، بے موسمی بارشیں نہ ہوں گی، پکی فصلوں
پر اولے نہیں برسیں گے اورپھلوں سے بھر ے باغات پر طوفان نہیں آئیں
گے،تمہاری سال بھر کی کمائی تباہ نہ ہوگی، جب تم گناہوں کی معافی کے طلبگار
بنوگے تو تمہارے اموال اور بیٹوں میں برکت دی جائے گی۔
اے پروردگار! ہم سے قصداً یا سہواً،ظاہری یا پوشیدہ،چھوٹی یا بڑی جتنی بھی
کوتاہیاں، گناہ اورتقصیریں ہوئی ہیں اپنی رحمت سے معاف کر دے۔الٰہی ہمیں
مانگنے کا سلیقہ ہے نہ قرینہ،یہ ہم فقیروں کی پکار قبول کرلے اور سیدنا
یونس ؑکی طرح ہماری التجائیں قبول فرماتے ہوئے آزمائش کی اس گھڑی سے نجات
عطافرما۔آمین
|