ھم نے ھاتھ جوڑ کر، اللہ کے حضور سب سے پہلے رحم کی
درخواست کی اس نے سہارا دےکر اٹھایا، اپنے وسیع دامن میں پیار سے ھماری
درخواست کو شرف قبولیت بخشا، ھم دنیا کے بادشاہوں کے دربار میں کس قدر
کانپتے ہاتھوں، لرزتے جسموں، لڑکھڑاتے قدموں، مخموم دلوں اور اشک بار
آنکھوں کے ساتھ رحم کی اپیل کرتے ہیں، پھر بھی اس کا تکبر اور غرور ھماری
گردن پر پاؤں رکھ کر کس سکون کےساتھ بستر شان پر جاکر استراحت فرماتا ہے
مگر یہ دربار الہیٰ ھے جس کی قدرت اور طاقت کا کوئی اندازہ ھی نہیں کائنات
کا ذرہ ذرہ اس کے اختیار میں اور اس کا غضب و غصہ پہاڑوں کو روئی کے گالوں
کی طرح اڑا دیتا اور خاک کے ذروں کو اچھا کر ایک ھی لمحہ میں قیامت بپا کر
دیتا ہے۔اس کے باوجود رحم کی اپیل مسترد نہیں کرتا،اس کے بھی قوانین ھیں
لیکن بندوں سے کی گئی زیادتی پر تو لاگو کرتا اور معافی کی شرط رکھ دیتا ہے
مگر جب بندہ اس کی،کی جانے والی روگردانی پر ندامت اور شرمندگی میں ڈوبی
رحم کی اپیل کرتا ہے تو وہ رحیم وکریم بن کر رحم کرتا ہے اور اسی معافی کے
تسلسل کو عشرہ مغفرت میں منتقل کر کے معافی کے دریا بہا دیتا ہے جب رحم بھی
ھوگیا تو معافی یقینی ھے جب معافی یقینی ھوئی تو جہنم کی آگ سے خلاصی بھی
یقینی ھے۔جو چیز سب سے زیادہ اسے پسند ھے وہ ھے استقامت کے ساتھ آگے بڑھنا
اور جب کبھی غلطی ھو جائے تو دوڑ کر معافی مانگنا، اس انسانی عادت سے اسے
اتنی محبت ھے کہ جس کا اندازہ ماؤں سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کا ھے۔اب اس
محبت کی کنجی رمضان کی صورت میں ھمارے پاس موجود ہے۔عشرہ مغفرت میں ھم
معافی کے طلب گار ہوں گے تو وہ ضرور معاف کرے گا۔ھمیں تصور ایمانی کو مضبوط
کرنے کے لیے مقام مومن سمجھنا ھو گا، ھم اسی کو مومن تصور کرتے ہیں جو
مخصوص دستار، علم و عمل کے کروفر میں مبتلا منبر پر متمکن ھے، وہ عاجز اور
منکسر ھے تو ضرور ھمارے لئے مشعل راہ ہے مگر مومن تو یہی چلتے پھرتے لوگ
ھیں جو ھروقت اپنے پروردگار کے سامنے جاتے ہیں، محنت اور جفاکشی بھی کرتے
ہیں اور جب کہیں غلطی ھو جائے تو دوڑ کر اس کے دربار سے معافی کے خواستگار
ھوتے ھیں یہی تو کامل مومن ھیں جو ھر غلطی پر دوڑ کر اس کے پاس جاتے ہیں یہ
عمل کیوں اسے پسند ھے اس لئے کہ وہ حاکم ھے اسے یہ زیب دیتا کہ میرے بندے
مجھ سے مانگیں، کسی اور کے در پر نہ جائیں، میرا سر کسی کے در پر جھکا
نہیں،۔۔۔تیرے در پہ جو جھکا تو پھر اٹھا نہیں،اس لیے عشرہ مغفرت میں ھمیں
چاھیے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ معافی مانگیں، ورنہ صرف عبادت کے لئے تو
فرشتوں کی تعداد ھی لا تعداد ھے۔ اسے مومن سے کیا چاھیے زیادہ عبادت یا
معافی یہ فیصلہ کرنا ھے ھم سب نے،حضور کی محفل میں صحابہ کرام سوال کرتے
تھے کہ کوئی ایسا طریقہ بتائیں جس سے ھم غلطیاں نہ کریں، گناہ نہ کریں، بس
عبادت میں مشغول رہیں تو آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں کہ حضور نے فرمایا تھا
کہ پھر ایسا ھو گا اللہ تعالیٰ ایسی نسل پیدا کرے گا جو غلطیاں بھی کرے گی
اور دوڑ کر معافی بھی مانگے گی، ایک انسان کو وہ معافی کا خواستگار دیکھ کر
اسے عاجز دیکھ کر، محبتوں، رحمتوں اور معافی کے دریا بہا دیتا ہے۔ھمیں چند
نادان لوگوں نے تصور مومن، تصور دین اور گنگار کو دھتکارنے میں الجھا رکھا
ہے یہ کشمکش تو قیامت تک چلے گی کہ مؤمن غلطیوں پر معافی مانگ کر اس کی
محبت کے حق دار کہلائیں گے، جو اکڑ گیا، وہ گیا، جو جھک گیا وہ پار ھوگیا،
اسلئے معافی کے موقع کو ھاتھ سے جانے نہ دیں رحم ھم نے طلب کیا، اب معافی
مانگیں، یہ ایسا مرض ھے جس میں ھر دوا کے باوجود مریض محبت بن کر رہنے کو
دل کرتا رہے گا، یہاں البتہ تدبیریں الٹی نہیں ھوں گی بلکہ جتنا زیادہ مرض،
اتنی زیادہ محبت اور پھر دائمی شفا، حضرت ایوب علیہ السلام فرماتے ھیں کہ
اتنی ظاہری بیماری، درد اور تکلیف کے باوجود جب اللہ پوچھتا تھا میرے ایوب
کیسے ہو، تو سب درد بھول جاتا تھا یہی تو محبت کا رشتہ ھے جو بیمار کو شفا
دیتا ہے،" ربی آنی مسنی الضرو و انت الرحمن الرحیمین" اے میرے رب میں
بیماری لگا بیٹھا ھوں پس تو ھی رحم کرنے والا ھے، دیکھا جس ایوب کو سب چھوڑ
گئے اس کو شفا کیسے ملی؟ رحم اور معافی کے تسلسل سے، نہ کہ علم نے اسے
بچایا اور نہ ھی غرور عبادت نے، پس معافی مانگ لیں وہ معافی کے مرض کو شفا
بنا دے گا ۔ائیے معافی کا یہ عہد پورا کریں اور استقامت کے ساتھ معافی
مانگیں، استغفر اللہ ربی من کل ذنب اذنبت،دوڑ کہ جائیں معافی کے برستے لمحے
ھمارا انتظار کر رہے ہیں، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا جاگتے، سوتے، چلتے،
پھرتے، سفر و حضر میں ، بس معاف کر دے تو مولا، معاف!!!!
|