زکاۃ دینِ اسلام کا اساسی رکن ہے، اسلام میں زکاۃ کا
حکم نہایت اہتمام کے ساتھ دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں ’الزکاۃ‘ کا لفظ (معرفہ)
تیس مرتبہ وارد ہوا ہے، ان میں سے آٹھ مقامات مکی سورتوں سے تعلق رکھتے ہیں
اور بقیہ مدنی سورتوں سے۔ اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے، اس لیے اسلام نے سماج
سے فقر وفاقہ ختم کرنے اور فقرا کے مسئلے کو حل کرنے کا غایت درجہ اہتمام
کیا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اس نے انسانی اور سماجی پہلو کی جانب مکی
دور ہی میں توجہ مبذول کی، جب کہ اسلام کی روشنی ابھی ابھی نمودار ہوئی تھی
اور مسلمان گنتی کے چند افراد تھے اور وہ بھی بڑی مظلومی کی حالت میں زندگی
گزار رہے تھے اوران کے پاس حکومت تھی، نہ سیاسی طاقت۔ ان حالات میں بھی
قرآن کریم نے اپنے مخاطبین کو کہیں کھانا کھلانے کی ترغیب دی تو کہیں انفاق
کا حکم دیا اور کہیں ادائیگیِ زکوٰۃ کے عنوان سے سائل ومحروم اور مسکین
ومسافر کا حق ادا کرنے کی تاکید کی۔ جب رسول اﷲﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری
ہوئی توآپﷺ نے زکوٰۃ کے احکام اور زیادہ مؤثر بناکر پیش فرمائے۔ آپﷺ نے
اسلام میں اس کا مقام بتایا اور واضح کر دیا کہ زکوٰۃ دین کا اساسی رکن ہے۔
اس کی ادایگی کی آپﷺ نے ترغیب دی اور عدمِ ادایگی پر وعید ارشاد
فرمائی۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اﷲ
تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور نماز
قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور استطاعت ہو تو حج
کرو۔اس کے علاوہ دوسری احادیث بھی ہیں جن میں رسول اﷲﷺ نے زکوٰۃ ادا نہ
کرنے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی ہے تاکہ غفلت میں پڑے لوگ بیدار ہوں
اور انھیں ترغیب وترہیب کے ذریعے اس حکم کی ادائیگی پر آمادہ کیا جاسکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ نے
جسے مال سے نوازا اور پھر اس نے زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن اس کا مال
گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، یہ
سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑے پکڑ کر کہے گا: میں ہوں تیرا
مال اور میں ہوں تیرا خزانہ۔پھر رسول اﷲﷺ نے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت(۱۸۰)
تلاوت فرمائی: (ترجمہ)جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور
پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں، وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں، وہ
اچھا نہیں بلکہ ان کے لیے برا ہے، وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں، قیامت کے دن
اس کا طوق بناکر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔
رمضان اور زکاۃ
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ رمضان المبارک میں اپنی زکاۃ ادا کرتے
ہیں، ویسے صحابہ کرامؓ شعبان ہی میں اس ذمّے داری سے بری ہو جاتے تھے، جیسا
کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی
طرف جھک جاتے اوراپنے اموال کی زکاۃ نکالتے تھے،تاکہ غریب و مسکین لوگ روزے
اور ماہِ رمضان کو بہتر طریقے سے گزار سکیں۔(لطائف المعارف)لوگوں نے اب یہ
معمول ترک کر دیا اور غریبوں کا رمضان اور عید دونوں فکر ورنج کی تاریکی کا
شکار ہو گئے۔جو لوگ رمضان المبارک میں زکاۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں،
ان کے پیشِ نظر وہ روایات ہیں جن کے مطابق رمضان میں کیے گئے نفل کا ثواب
فرض کے برابر اور ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ستر فرضوں کے برابر ملتا ہے،
ویسے اگر زکاۃ کا حساب درست رکھا جائے تو اس میں مضایقہ نہیں،لیکن یہ خیال
رکھنے کی ضرورت ہے کہ زکاۃ کا شعبان یا رمضان وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ
جب نصاب پر سال پورا ہو جائے تب صاحبِ نصاب پر زکاۃ نکالنا واجب ہو جاتا
ہے۔
زکوٰۃ کی لغوی اور شرعی تعریف
’زکوٰۃ‘ لغت میں پاک ہونے اور بڑھنے کو کہتے ہیں اور اسی لیے زکوٰۃ کو
زکوٰۃ کہتے ہیں کیوں کہ یہ اپنے ادا کرنے والوں کو گناہوں سے پاک کرتی ہے
اور مال میں اضافہ کرتی ہے۔ شرعاً زکوٰۃ کے معنی ’اپنے مخصوص مال کا کسی
مخصوص شخص کو مالک بنا دینا ہے‘یعنی اﷲ کے حکم کے مطابق اپنے مال کا مخصوص
حصّہ، اس کے صحیح مصرف میں صرف کرنا۔ زکوٰۃ میں کل مال کا چالیسواں حصہ
یعنی ڈھائی فیصد ادا کرنا فرض ہوتا ہے۔ (تبیےن الحقائق)
زکوٰۃ کس پر فرض ہوتی ہے؟
کسی بھی شخص پر مندرجۂ ذیل شرطوں کے پائے جانے پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے: (۱)
مسلمان ہونا، کافر پر زکوٰۃ کی ادایگی لازم نہیں(۲) عاقل ہونا، پاگل و
مجنون پر زکوٰۃ فرض نہیں (۳) بالغ ہونا، نا بالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں (۴)
زکوٰۃ کی فرضیت کا علم ہونا، خواہ حکماً ہو جیسے: اسلامی ماحول میں رہنا(۵)
آزاد ہونا، غلام؍ باندی پر زکوٰۃ فرض نہیں۔(شامی،بدائع الصنائع)
نوٹ: خیال رہے ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں، یہاں حقیقتاً قیدی بھی
آزاد ہیں اور ملازمِ سرکار و غیر سرکاربھی، اگر یہ لوگ مالک ِنصاب ہوں تو
ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (کفایت المفتی)
زکوٰۃ کب اور کس مال پر؟
جب کسی کے پاس بقدرِ نصاب مال ہو اور اس پر ایک سال پورا گذر جائے تو اس
شخص پر اس مال کی زکاۃ فرض ہوجاتی ہے۔ زکوٰۃ کے فرض ہونے پر اسے جلد از جلد
ادا کردینا چاہیے، بلا عذر تاخیر سے گنہگار ہوگا،نیززکوٰۃ کو ادا کرنے میں
قمری سال کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ شمسی سال کا۔(ہندیۃ) کسی مال پر
زکاۃ فرض ہونے کے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:(۱) مال بقدر نصاب ہونا یعنی سونے
کا نصاب ساڑھے سات تولہ اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ یا ان کی قیمت
کے برابر روپیے یا مالِ تجارت وغیرہ(۲) ملکیتِ تام ہونا، لہٰذا مال اپنے
قبضے میں نہ ہو تو سردست اس پر زکوٰۃ نہیں (۳) نصاب ضرورتِ اصلی سے زائد
ہونا، استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ نہیں۔ البتہ! کسی کی ملکیت میں نصاب کے
بقدر سونے چاندی کے استعمالی زیورات ہوں اور اس کے علاوہ نقد روپیہ وغیرہ
کچھ بھی نہ ہو، تب بھی ان زیورات پر زکوٰۃ فرض ہوگی(۴) نصاب قرض سے خالی
ہونا، اگر کسی کا قرض یا ضروری حق صاحب ِ نصاب پر باقی ہو توپہلے اس رقم کو
نصاب میں سے نکالنا پڑے گا (۵)مالِ نامی ہونا یعنی ایسا مال جس میں بڑھنے
کی صلاحیت ہو، خواہ وہ اپنی خلقت کے اعتبار سے ہو، جیسے سونا، چاندی یا
عملی اعتبار سے، جیسے مالِ تجارت ۔(در مختار)
نوٹ:موجودہ زمانے میں رائج اوزان کے اعتبار سے چاندی کا نصاب ۶۱۲؍گرام،
۳۶۰؍ملی گرام اور سونے کا نصاب ۸۷؍ گرام،۴۸۰؍ملی گرام ہوتا ہے۔(جدید فقہی
مسائل)
کس مال پر زکوٰۃ نہیں ہے؟
ان چیزوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو: (۱) رہنے کی
نیت سے خریدے گئے گھر(۲) استعمال کے کپڑے وغیرہ(۳) گھر کا سامان؛ فرج، اے
سی،واشنگ مشین وغیرہ(۴) سواریاں؛کار،بائک وغیرہ (۵) غلام، باندیاں؛ جو خدمت
پر مامور ہوں (۶) حفاظت کی نیت سے رکھے گیے ہتھیار(۷) گھر میں رکھا ہوا
کھانے پینے کے سامان کا ذخیرہ (۸) سجاوٹ کے برتن(۹) ہیرے، جواہرات(۱۰)
کتابیں، جب کہ اس کا اہل ہو (۱۱) کاریگروں کے لیے اوزار و مشینیں، کارخانے
اور فیکٹریاں وغیرہ۔ نیز وہ تمام سامان جو تجارت کی غرض سے نہ خریدا گیا
ہو۔ (ہندیہ، بزازیہ)
مغصوبہ مال کی زکاۃ
مالِ حرام کے سلسلے میں اصل حکم تو یہ ہے کہ اگر اصحابِ مال تک رسائی ممکن
ہو تو ان کو واپس کیا جائے ، یہ ممکن نہ ہو تو کُل کا کُل مال فقرا پر خرچ
کر دیا جائے اور صدقے اور ثواب کی نیت بھی نہ کی جائے اور وہ اس کی حلال
کمائی سے ممتاز ومشخص ہو تو اس میں زکاۃ واجب نہیں،اس لیے کہ زکاۃ تو اس
مال میں ہے جس کا وہ مالک ہو اور یہ شخص اس مال کا مالک ہی نہیں،لیکن یہ
حرام مال ‘حلال مال کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہو گیا کہ حساب و کتاب محفوظ
نہیں رہا، یہاں تک کہ اس کی تمیز ممکن اور باقی نہ رہی ،تو گویا اس مال کا
’استہلاک‘ ہے،استہلاک کی وجہ سے امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک وہ اس مال کا
ضامن قرار پاتا ہے،اس لیے اس مال پر اب اس کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے اور جب
وہ اس مال کا مالک ہو گیا تو ظاہر ہے،اب اس پر اس کی زکاۃ بھی واجب ہوگی۔
(جدید فقہی مسائل، بتغیر)
زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرطیں
(۱) زکوٰۃ کا مال علیحدہ کرتے وقت یا وکیل کے حوالے کرتے وقت زکوٰۃ ادا
کرنے کی نیت کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر زکوٰۃ بغیر نیت کے ادا کردی پھر زکوٰۃ
کی نیت کرلی، تو اگر وہ مال فقیر کے پاس قائم ہے تو زکوٰۃ ادا ہوگئی، ورنہ
نہیں۔ زکوٰۃ کی ادایگی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے
اسے بھی یہ علم ہو کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے، بلکہ اہلِ تعلق کو زکوٰۃ نہ کہہ
کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے(۲) زکوٰۃ کو اپنے مال سے محض الگ کردینے سے
ذمہ ادا نہیں ہوتا، بلکہ جس قدر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ کسی مستحق کو اﷲ
کے لیے دے دینے اور مالک بنا دینے سے ادا ہوگی، کسی خدمت یا کسی کام کی
اجرت میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں بلکہ اس طرح زکوٰۃ ادا ہی نہیں ہوگی اور پھر
سے ادا کرنی ہوگی اور اگر یہ شخص اسی حالت میں مر گیا تو اب اس صورت میں اس
کے مال میں وراثت جاری ہوگی۔(مراقی الفلاح ،ہندیۃ)
زکوٰۃ کے مصارف
ان تمام لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؛ (۱) فقیر: یعنی جو اتنے مال کا مالک
نہ ہو جس پر خود زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، خواہ وہ کمانے کی اہلیت رکھتا ہو
(۲)مسکین: یعنی وہ جس کے پاس کسی قسم کا کچھ بھی مال نہ ہو(۳) مُکاتب: یعنی
وہ غلام جس نے اپنے آقا سے طے کرلیا ہو کہ مخصوص ومتعین رقم ادا کردینے پر
وہ آزاد ہوجائے گا(۴) مقروض: یعنی ایسا قرض دار جس کے پاس قرض کی رقم منہا
کرنے کے بعد اتنا مال نہ بچے جس کی قیمت نصاب کے برابر ہو(۵) فی سبیل
اﷲ:یعنی ایسا شخص جو غازیوں یا حاجیوں سے بچھڑ گیا ہو، مثلاً کوئی لشکر یا
حاجیوں کا کوئی قافلہ جارہا تھا،یہ شخص کسی ضرورت سے قافلے سے جدا ہوا اور
پھر راستہ بھول گیا یا کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ وہ قافلے تک نہ پہنچ
سکا(۶) ابن السبیل:یعنی وہ مسافر جو سفر کے دوران ضرورت مند ہوگیا (۷)
عاملِ زکوٰۃ: یعنی وہ شخص جو اسلامی حکومت کی جانب سے عشرو زکوٰۃ کی وصولی
پر مقرر ہو، اس کو اتنا مال دیا جائے گا جو اس کے اور اس کے مدد گاروں یعنی
کارندوں اور سپاہیوں کے لیے کافی ہوجائے۔ (مراقی الفلاح،ہندیۃ)
زکوٰۃ کی ادایگی کے مراتب
ذی رحم رشتے داروں کو زکوٰۃ دینا سب سے بہتر ہے، پھر اپنے پڑوسیوں کو، پھر
اپنے محلّے والوں کو، پھر اپنے پیشے والوں کو، پھر اپنے شہر والوں کو۔
المختصر! جو مستحق جتنا زیادہ قریب ہو اس کا اتنا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
وہ اہلِ علم اور طالبِ علم جو کہ فقیر اور زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو زکوٰۃ
دینے میں ان شاء اﷲ دو اجر ملیں گے؛ (۱) زکوٰۃ کا اور (۲) علم کی اشاعت اور
خدمت ِدین کا۔بس یہ خیال رہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جارہی ہے اس کا شمار اس
فہرست میں نہ ہو جنھیں زکوٰۃ دینا جائز ہی نہیں۔ (نورالایضاح)
جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں
مندرجۂ ذیل حضرات کو زکاہ کی رقم نہیں دی جا سکتی لیکن نفلی صدقات انھیں
بھی دیے جا سکتے ہیں:(۱) زکوٰۃ دینے والے کے اصول یعنی ماں، باپ، دادا،
دادی، اور نانا، نانی وغیرہ (۲) زکوٰۃ دینے والے کے فروع یعنی بیٹا، بیٹی،
پوتا، پوتی اور نواسا، نواسی وغیرہ (۳) زکوٰۃ دینے والے کی بیوی یا زکوٰۃ
دینے والی کا شوہر (۴) اپنا مملوک غلام یا مُکاتب(۵) ایسا مال دار، جو کسی
بھی ایسی چیز کا مالک ہو جو نصاب کی قیمت کے برابر ہو (۶) سادات اور بنو
ہاشم کی آل و اولاد(۷) کافر۔(مراقی الفلاح،ہندیۃ)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیریکٹر ہیں)
|