رمضان المبارک کا رحمتوں ،برکتوں اور مغفرتوں والا مہینہ
شروع ہوچکا ہے جبکہ کرونا وائرس بھی سارے کرہّ ارض پر پنجے گاڑھ چکا ہے حتہ
کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے تو آئندہ آنے والے 3سے 4ہفتوں کو پاکستان کے لیے
تشویشناک قرار دے دیا ہے ملک کو بیک وقت صحت اور معاش دونوں بحرانوں کا
سامنا ہے اور یہی دو ایسی بنیادی ضرورتیں ہیں جنھوں نے فرد اور انسانی گروہ
کے مابین تعلق کی اہمیت کو واضح کیا اوراسی بنیاد پرریاستی نظام قائم ہوئے
۔ معاشی ضروریات نے باہمی تعاون اور تعلقات کو فروغ دیا جو کہ انسانی بقا
کے لیے ناگزیر ہے اور یہی چیز ترقی کی بنیاد بنی مگر بدقسمتی سے جو ممالک
خط غربت سے نیچے آتے ہیں وہاں ترقی پہنچی ضرور مگر وہ ازخود اس معاملہ میں
کوئی خاص ایجاد یا دریافت نہیں کر سکے کیونکہ ان ممالک میں ایک طویل مدت سے
حکمران کلی طور پر خود مختار تھے جس کی وجہ سے وہ اس قدر مطلق العنان ہو
چکے تھے کہ وہ بسا اوقات قانون ریاست تو کیا قانون فطرت کی بھی پرواہ نہیں
کرتے تھے بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکنہ حد سے گزرنے سے بھی
گریز نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے افراد معاشرہ روٹی ،کپڑا اور مکان کی تگ و
دو میں خوار ہوتے رہے کہ اس نفسا نفسی کے عالم میں انسانیت کا خاتمہ یقینی
نظر آرہا تھا ایسے میں یکایک مہلک وبائی مرض کے پھیلاؤنے انسانی ترقی یافتہ
زندگی کو سکیڑ دیا ہے اور محسوس ہورہا ہے کہ شاید ہم پتھر کے زمانے میں لوٹ
رہے ہیں اور یہ بات خاص طور پر پیش نگاہ رکھنی چاہیے کہ بڑھتا ہوا معاشی
بحران لاقانونیت اور جرائم کا ماحول پیدا کر سکتا ہے اگر مناسب منصوبہ بندی
نہ کی گئی تو ریاستی نظام بھی متاثر ہوسکتا ہے-
وبائی امراض کی تحقیق بتاتی ہے کہ پوری دنیا ایک بارپھر زوال کے دہانے پر
کھڑی ہے کرونا کا پھیلاؤ بتا رہا ہے کہ نا قابل یقین حد تک تبدیلیاں ہونگی
اور طویل المدتی اثرات مرتب ہونگے جن کی وجہ سے غریب بمشکل اپنی بقا کی جنگ
لڑ پائے گا اور جو بچے گا وہ سرمایہ دار کی غلامی پر مجبور ہوجائے گا اور
اگر ایسا نہیں ہوتا تو قحط پیدا ہو جائے گا کیونکہ قحط ُالرّ ِجال تو پہلے
سے موجود ہے اگر آپ میری بات کو ریاست سے ہٹ کر پوری دنیا تک لے جائیں جو
کہ پہلے ہی گلوبل ولیج بن چکا ہے تو ایسے میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ
غریب ممالک غلام بنا لیے جائیں گے اور یہ فرضی باتیں یا قیاس آرائیاں نہیں
ہیں جیسے جیسے لاک ڈاؤن کی مدت بڑھ رہی ہے بھوک بڑھ رہی ہے تمام کاروبار
بند پڑے ہیں اور رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے مگر حکومتی ریلیف نہ ہونے کے
برابر ہے ۔ اشیائے خوردونوش اور بلوں کی قیمتوں میں بھی کمی نہیں کی گئی ،
احساس پروگرام کے تحت جو رقوم دی جارہی ہیں وہ چند ہزار کو دی جا رہی ہیں
تو کمی کیوں نہیں کی گئی ہے ؟ حالات سنگینی اختیار کررہے ہیں جبکہ امداد ہر
طرف سے آرہی ہے اور عوام سے بھی پیسے مانگنے کا سلسلہ جاری ہے مگر غریب
لبوں پر شکایت ہے کہ مستحقین کو امدادی رقوم بھی غیر یقینی انداز میں مل
رہی ہیں دکھ تو یہ ہے کہ اس وقت جبکہ کرونا کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل
کی قیمت گر چکی ہے پھر بھی پٹرول سستا نہیں کیا گیا اور پوری دنیا کے
سربراہان سادگی اپنا چکے ہیں مگر ہمارے عہدے داران دو درجن گاڑیوں کے قافلے
کے ساتھ امدادی رقوم دینے کے لیے نکلتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جناب چیف جسٹس
پاکستان نے بھی ازخود نوٹس کیس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
کھربوں روپے لگ گئے ہیں مگر نظر کچھ نہیں آرہا اور شفافیت پر مبنی رپورٹ
نہیں دی گئی ۔ ہسپتالوں میں بھی مریضوں کو شکایات ہیں جن کی ویڈیوز سامنے
آرہی ہیں کیونکہ چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے سیاسی جماعتیں ٹائیگر فورس پر متفق
نہیں وہ اسے پارٹی تشہیر قرار دے رہی ہیں پاکستان شدید معاشی بحران کیطرف
جا رہا ہے بیروزگاری بڑھ رہی ہے مگر ہمارے سیاسی عمائدین کی سرگرمیوں اور
پھرتیوں میں سنجیدگی نہیں ہے حالانکہ موجودہ حالات میں دوررس حکمت عملی ہی
بقا کی ضامن ہو سکتی ہے ورنہ موجودہ حکمت عملیوں کود دیکھ کر یہی کہا جا
سکتا ہے کہ’’ تاتریاق ازعراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود‘‘ (تریاق لانے
تک تو سانپ کا ڈسا مر جائے گا ) ۔
بہرحال رمضان المبارک میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی خاص رحمتیں اور برکتیں
نازل ہوتی ہیں اور ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزارتاہے تاکہ
اﷲ کی خوشنودی حاصل ہو ۔قرآن کریم میں اﷲ فرماتا ہے :اے ایمان والو!’’ تم
پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلی قوموں پر فرض کئے گئے تھے
تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ‘ ۔رمضان المبار ک کی ایک ایک ساعت سعادتوں اور
برکتوں کی حامل ہے ۔اس میں سبھی کو خشوع خضوع کے ساتھ عبادات کا اہتمام
کرنا چاہیے مگر وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ تب ہوگا جب حکومت عوام الناس
کو معاشی ریلیف فراہم کرے گی اور لاک ڈاؤن پالیسی پر کوئی بہتر حکمت عملی
اختیار کی جائے گی اس مقصد کے لیے پارلیمانی نمائندے اپنے حلقوں میں اپنے
ووٹرز کو درپیش صحت اور معاشی بحران میں توازن قائم کر کے رمضان المبارک کو
پر سکون بنا سکتے ہیں یعنی اس مہلک مرض کے بارے میں عام لوگوں میں شعور
اجاگر کر کے کرونا کے پھیلاؤ کو روکاجا سکتا ہے بلکہ مزید حفاظتی تدابیر جن
میں صفائی اور جراثیم کش سپرے اپنی نگرانی میں کروا کر بہت سی جانوں کو
بچایا جا سکتا ہے اور معمولات زندگی کو بھی رواں دواں کیاجا سکتا ہے تبھی
ہم افلاس ،معاشرتی خرابیوں اور زوال سے بچ سکتے ہیں ۔یہ بھی توجہ طلب ہے کہ
محکمہ پولیس کو بھی سنجیدگی اور خوف خدا سے کام لینا چاہیے وہ بعض ہوشیار
دوکانداروں سے خرچہ لیکر در پردہ سہولت عطا کر دیتے ہیں کہ دکانوں کے باہر
رہیں اور گاہکوں کے آنے پر شٹر اوپر کر کے مال فروخت کر لیں جس سے مخلص اور
قانون کے پابند دکانداران کے دل میں بے چینی اور نفرت پیدا ہوتی ہے جس سے
اکثر ایماندار اہلکاروں اور افسران کی بھی بدنامی ہوتی ہے ۔حکومت کو چاہیے
کہ مخصوص اوقات میں ہر دکاندار کو اجازت دے دے کیونکہ یہ لوٹ مار ،من مانی
اور زیادتی بھی ختم ہونی چاہیے ۔
|