سچ اور عشرہ مغفرت!

 سچ کیا ہے؟ کبھی ھم نے سوچا ھے کہ نہیں، اور اگر نہیں سوچا تو آج کل اللہ سے باتیں کرنے کا بڑا موقع ھے، سچ کی تعریف میں جو سچی بات ھے، وہ یہ ھے کہ سب سے بڑا سچ اپنے متعلق ھوتا ھے اور بدقسمتی سے ھم دوسروں میں تلاش کرتے ہیں، اگر ھم غور کریں حضرت سلیمان فارسی کے تلاش سچ کو تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے اندر سچ تلاش کیا، اپنی زندگی کا مقصد، اپنے اندر تلاش کیا پھر وہ باھر نکلے اور سچ کی منزل پر پہنچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس سفر، دانش اور حکمت عملی کے اکثر معترف رہتے تھے بلکہ غزوہ خندق میں انہی کے مشورہ سے خندق کھودنے کی حکمت عملی اپنائی جو کامیاب رہی، آج ھم اپنے متعلق سب جھوٹ، دوغلا پن، منافقت اور دوسرے کو ضرر اور تکلیف پہنچانے کے منصوبے چھپا کر دوسروں سے سچ بولنے کی اداکاری کرتے ہیں، دوسرا شخص ھی موضوع گفتگو ھوتا ھے، عام گفتگو ھو یا تحریر و تقریر ھمارے منہ سے جھوٹ کے فوارے چھوٹ رہے ھوتے ھیں، کہیں مذھب کا لبادہ، کہیں معرفت کا تڑکا، اور کہیں عقل و دانش کی مکر و فریب کاری سے خود جیتنا اور دوسرے کو ھارانا چاھتے ھیں،اسی سے سکون حاصل کر کے نعرہ لگایا جاتا ہے کہ یہ مجھے ابھی جانتا نہیں، کتنی خام خیالی ہے، اجکل تو آنکھیں اور چہرہ بھی بولتا ہے، اشفاق احمد کہا کرتے ھوتے تھے کہ سچ تو ھمیشہ اپنے متعلق ھوتا ھے، سچ بولنا، سچ پر قائم رہنا، سچ کو اوڑھنا بچھونا بنانا کتنا مشکل کام ہے؟ کبھی کسی نے سوچا کہ میں کیا ھوں، میں کون ھوں، مجھے کیوں پیدا کیا گیا تھا؟ یہ سوال کرکے دیکھیں آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔علامہ اقبال نے ایک ترتیب بتائی کہ سبق پھر پڑھ صداقت کا، جب یہ سب ھم سیکھ لیں، جس کے لیے تمام انبیاء مبعوث ھوئے اور اسی سچ اور دیانتداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا پھر دعوت دی، اب اگر آپ خود سچ کا منبع و محور ھیں تو آپ کے اندر اپنے متعلق سب سے پہلی خوبی پیدا ھوگی کہ آپ انصاف آسانی سے کر سکیں گے، عدالت کا سبق ھمارے اندر آ جائے گا، پھر جب انصاف اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ کرنا آگیا تو شجاعت ھمارے اندر آ جائے گی، پھر ھم دنیا کے ھر خوف ، ڈر اور بزدلی سے آزاد ہو جائیں گے۔اسی صورت میں آپ اپنے آپ کی سلطنت، جس شعبے میں آپ ھوں، حکومت میں ھوں یا امام مسجد، سائنس کے میدان میں ھوں یا تجارت میں غرض جہاں بھی ھوں گے قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔سب سے بڑی سلطنت تو آپ خود ھیں اس کی حکمرانی اور باگ ڈور آپ کے ھاتھ میں ھے، اگر وہ شتر بے مہار کی طرح ھوگی تو ھم کہیں پستیوں میں گم ہو جائیں گے،کام اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے،اسی صورت میں آپ کی تنبیہ اور نصیحت بھی کام کرے گی ورنہ دل سے اتر جائے گی، ھم روزنہ کتنی نصحیتیں، واعظ اور پند و نصائح کی محفلیں سجاتے اور سنتے ہیں اثرات نہیں ھوتے کیوں کہ دل و زبان سچ سے خالی ھیں، آج مغفرت کے عشرے میں کتنا موقع ھے کہ ھم اللہ کے سامنے اپنی کتاب خود کھول دیں یا سچ کی توفیق مانگیں، ذو معنی گفتگو، طنز کے نشتر چلانے اور دل میں کچھ اور زبان پر کچھ اور کی پالیسی ترک کر کے تو دیکھیں سب خوف ختم ھو جائیں گے۔حضور اپنی کملی میں چھپا لیں گے، اللہ تعالیٰ اپنے وسیع دامن میں سمیٹ لے گا!!!

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.