چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس دنیا بھر میں پھیل
چکا،کرونا کے پاکستان میں بھی مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے،پاکستان نے لاک
ڈاون لگایا تھا بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاون کے خاتمے کا مرحلہ
وار اعلان کیا اور صوبائی حکومتوں کو فری ہینڈ دیا کہ وہ خودفیصلے
کریں،سپریم کورٹ بھی کرونا از خود نوٹس لے رکھا ہے جس کی آخری سماعت مین
چیف جسٹس گلزار احمد نے حکومتوں پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ
لوگ مر رہے ہیں اور صوبوں میں اتفاق نہیں، صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے
ساتھ مشترکہ پالیسی بنائیں اور سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائیں، سپریم
کورٹ کے واضح حکم کے باوجود صوبائی حکومتیں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے
لاک ڈاون کے خاتمے کے اعلان کے بعد لاک ڈاون برقرار رکھ رہی ہیں۔وزیراعظم
کچھ اور کہتے ہین، صوبائی حکومتیں کچھ اور کرتی ہیں ، پاکستان میں کرونا سے
پانچ سو سے زائد جانیں جا چکی ہیں لیکن المیہ ہے کہ ابھی تک نہ صرف حکومتوں
بلکہ سیاسی جماعتوں میں بھی اتحادو اتفاق دیکھنے میں نہیں آیا، کرونا سے
ڈاکٹرز بھی مر رہے ہیں، چھ سو سے زائد طبی عملہ کرونا کا شکار ہو چکا ہے،
اراکین اسمبلی، گورنر سندھ، سپیکر قومی اسمبلی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں، ن
لیگ، پی پی، اے این پی، جماعت اسلامی، جے یو آئی کے اراکین اسمبلی میں
کرونا مثبت آیا پھر بھی ابھی تک سیاسی جماعتوں میں کرونا پر اتحاد نہیں،
سیاسی جماعتیں حکومت پر تنقید کر رہی ہیں تو حکومت اپنے فیصلوں اور اقدامات
کا صحیح قرار دے رہی ہے۔
پنجاب کے اقدامات کچھ ہوتے ہیں، سندھ کے کچھ،وزیراعظم ایک اعلان کرتے ہیں
اگلے روز وزیراعلیٰ سندھ لاک ڈاون برقرار رکھنے کا اعلان کرتے ہیں بلکہ
مزید سختی کا بھی کہتے ہیں، پنجاب جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں
مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور پنجاب میں کرونا کے سب سے زیادہ مریض ہیں،
پنجاب نے بھی وزیراعظم کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے لاک ڈاون
میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے، صوبے میں 31 مئی تک لاک ڈاؤن رہے گا جس کا
نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب کے تمام بڑے
شاپنگ مالز، تعلیمی ادارے بند رہیں گے، کنسٹریکشن انڈسٹریز میں الیکٹریکس،
سٹیل، پمینیم کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت ہوگی۔ حجام اور سیلون
بیوٹی پارلر اور جمنیزیم کھول دیئے گئے۔ پنجاب میں تمام چھوٹی دکانیں ہفتے
میں چار دن کھلیں گی۔ تمام کریانہ سٹورز، تندور، گراسری سٹورز، جنرل سٹورز
صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلیں گے۔فروٹ اور سبزی منڈی ہفتے میں سات دن
کھلی رہیں گی۔ تمام ریٹیل شاپس ہفتے میں چار دن کھولنے کی اجازت ہو گی۔
پوسٹل اور کورئیر سروسز بھی ہفتے میں سات دن کھلی رہی گی۔ لاک ڈاون کے
دوران میرج ہال اور مارکیز بند رہیں گی۔ لاک ڈاون میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی
بند رہے گی۔ کنسرٹ اور سپورٹس سرگرمیاں بھی بند رہیں گی۔
وزیراعظم نے لاک ڈاون میں نرمی کا اعلان کیا تو ملک میں بڑھتے ہوئے کورونا
وائرس کے کیسز کی تعداد کے بعد سندھ کے سینئر ڈاکٹروں نے حکومت کی جانب سے
لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کیسز
میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اور ہمارے ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اس لیے
حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ دروازے کھول رہے ہیں جس
سے یہ بیماری اور وبا پھیلے گی۔ ڈاکٹرز اپنی قوم کے لیے یا مریضوں کے لیے
سنجیدہ ہیں۔ ڈاکٹرز کی ضمیر کی بات ہے کہ کسی بات یا دباؤ میں نہیں آئیں
گے۔ ان دنوں کوئی شخص بھی بھوک کے باعث نہیں مرا۔ اگر کوئی مرا ہے تو یا
کسی بیماری یا وہ کورونا وائرس کا شکار تھا۔ پھرحکومت کو مریضوں کو سہولیات
زیادہ کرنا ہوگا جو ہم سجھتے کہ ابھی تک نہیں ہے، ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں
کہ بہت برا حال ہے، مریض ایک ہسپتال سے دوسرے میں گھوم رہے ہیں لیکن کسی کی
رہنمائی نہیں کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اصولی
فیصلہ کیا ہے جبکہ پی ایم اے اور دیگر ہماری تنظیمیں سخت لاک ڈاؤن اور
احتیاطی تدابیر پر عمل کے لیے عوامی آگاہی پر زور دے رہی ہیں تاکہ کورونا
وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو۔ حکومت مؤثرطبی سہولیات عمل میں لائے، اس وقت
کراچی میں 5 سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے لیے مخصوص کیے گئے بستروں
(وینٹی لیٹرز) کی تعداد 63 ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جب اس کا
یہ حال ہے تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے
ہیں۔ اگریہی صورت حال رہی تو ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے کیسز کی
تعداد میں اضافہ ہوگا۔ جس کو ہم لاک ڈاؤن کہتے ہیں اس کو سبزی مارکیٹ،
نادرا کے دفتر کے باہر اور جہاں کوئی چیز تقسیم ہورہی ہے وہاں جلوس لگا ہوا
ہے جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر نظر رہے۔ جس کو لاک ڈاؤن کہا جارہا ہے اس
کو ہم جو سمجھتے ہیں وہ لاک ڈاؤن نہیں ہے اور ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں اور
اسی طرح جب نرمی ہوگی تو پھر کیا ہوگا۔ ہم حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ
عالمی ادارہ صحت کی ہدایات پر عمل کیاجائے۔ لاک ڈاؤن پر مکمل عمل نہیں کیا
جارہا تھا تو بھی کیسز میں اضافہ ہورہا تھا اور اب جب کیسزکی تعداد میں
زیادہ اضافہ ہورہا ہے تو بندشوں میں نرمی کی جارہی ہے جس پر ہمیں تشویش ہے۔
دنیا بھر میں جب کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو لاک ڈاؤن برقرار رہتا ہے اور جب
کیسز میں کمی آتی ہے تو بتدریج نرمی کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں اس کے
برعکس ہورہا ہے کہ جب کیسز بڑھ رہے ہیں تو لاک ڈاؤن میں نرمی کرہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائن ہے کہ جب گراف نیچے آنے لگے تو لاک ڈاؤن میں
بتدریج نرمی کی جائے اور ہمیں تشویش ہے کہ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر
کی ذمہ داری عوام پر ڈال رہی ہے اورہمارا مطالبہ ہے حکومت ایس اوپیز پر عمل
کروائے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کے
حوالے سے پاکستان میں حالات دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں قابو میں
ہیں، احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے صورتحال
میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ متاثرین کے ساتھ ناروا سلوک ناقابل برداشت ہے
اور خوف کا موجب بنتا ہے۔ عوام اگر کورونا وائرس کی علامات محسوس کریں تو
فوری اور بلا خوف ٹیسٹ کے لئے رجوع کریں۔ عوام میں آگاہی مہم شروع کرنے کے
لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں اور اس حوالے سے جلد ایک حکمت عملی وضع کی
جائے۔ عوام اگر کوروناوائرس کی علامات محسوس کریں تو فوری اور بلا خوف ٹیسٹ
کے لیے رجوع کریں۔
یہ بات تو سب کے سامنے ہے کہ پاکستان میں کروناکے مریض دن بدن بڑھ رہے ہیں
،اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تو عجلت میں وزیراعظم نے لاک ڈاون ختم کرنے
کا اعلان کیوں کیا؟ حکومت متفقہ فیصلے کیوں نہیں کر سکتی جس پر سب کا اتفاق
ہو،سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ ایک پیج پر کیوں نہیں ہیں، کرونا سے جنگ
حکومت نہیں لڑ سکتی بلکہ اسے عوام کا ساتھ چاہئے، عوام کا ساتھ تبھی ہو گا
جب سیاسی جماعتیں، سب حکومتیں ایک پیج پر ہوں گی، یہ مشکل ترین وقت ہے،
ایسی آزمائش کی گھڑی پاکستان میں کبھی نہیں آئی پھر بھی ہم متحد نہیں
ہیں۔حالانکہ ماضی میں جتنی بھی قدرتی آفات پاکستان میں آئین سب نے ملکر
مقابلہ کیا اور قوم کو بحران سے نکالا، کرونا بحران ایسا بحران ہے جس نے
ملکی معیشت تباہ کر دی ہے، غریب کے گھر دو وقت کی روٹی نہیں ہے،ہزاروں بلکہ
لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں، ایسے مشکل وقت میں بھی حکومتوں میں ،
سیاسی جماعتوں میں اتحاد کا فقدان سمجھ سے بالا تر ہے۔ |