کسی بھی ملک کی ترقی کے کچھ راز ہوتے ہیں، ان کی ترجیحات
ہوتی ہیں، ان ترجیحات کو کیسے لے کر چلنا ہے یہ وقتی حکومت کا ڈھانچہ سر
انجام دیتا ہے، یہ ڈھانچہ کی تشکیل کن بنیادوں پر استوار کی گئی ہے یہ وقت
کا حاکم بہتر جانتا ہے کیونکہ اس نے ملک کو لیڈ کرتے ہوئے اپنا وژن دینا
ہوتا ہے اور اس وژن سے ہی اس کی ترجیحات منظر عام پر آتی ہیں۔ کسی ملک کی
ترقی کا راز میرے مطابق تعلیم سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو
معرض ِ وجود میں آئے ہوئے تقریباً 73سال ہونے کو ہیں لیکن ہمارے تعلیمی
نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بس اپنے پانچ سال
پورے کرو ہمارا تعلیم سے کیا لینا دینا، کوئی نہ کوئی نیا لولی پاپ دیا اور
اپنی مدت پوری کی،پھر سے نئے رنگ اور نعروں سے ملک کی فضا گونج اٹھی، چلتے
چلاتے ایک لمبے عرصہ کے بعد بھی تعلیمی میدان میں دنیا میں برتری حاصل کرنے
اور اپنا آپ منوانے میں پیچھے ہی ہیں۔ جبکہ ہمارا نوجوان دیگر ممالک میں جا
کر ایک بہترین ڈاکٹر، انجینئر اور محنتی پیشہ ور ہوتا ہے تو پھر میرے ملک
پاکستان میں ایسی کونسی کمی رہ گئی ہے۔ کمی شاید منصوبہ بندی اور اس پر
کاربند ہونے کی جو کسی نہ کسی وجہ سے تعطل کا شکار ہو جاتی ہے، یا تو ہمیں
سرے سے ہی تعلیم سے کوئی سرو کار نہیں، یا پھر جو ٹیم تشکیل دی جاتی ہے وہ
برائے نام ہوتی ہے، یا پھر اس ٹیم میں تعلیم کے حوالے سے اتنا شعور یا
تجربہ نہیں ہوتا،اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو وزیر، مشیر اس
عہدے پر فائز ہو تے ہیں ان کا تعلیمی تجربہ یا قابلیت نہیں ہوتی۔ جو تعلیم
میں ماہر تعلیم ہوتے ہیں ان کو موقع نہیں دیا جاتا، تیسری وجہ یہ بھی ہو
سکتی ہے کہ ہمارے اس تعلیمی نظام کو ناکام کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح دشمن
ایجنٹ گھس آتے ہیں جو پائیدار پالیسی کو ناکامی کی شکل دینے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں، بہر کیف کہیں نہ کہیں تو کوئی ایسی کمی ہے جو ہمارے تعلیمی نظام
کو یکسر کامیاب ہونے نہیں دے رہی، ایسے ہی محسوس ہورہا ہے کہ گرتی ہوئی
دیوار کو ایک دھکا اور دو،،، تاکہ مکمل دیوار تہہ و بالا ہو جائے۔ کورونا
کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا ہونا، لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنا، حفاظتی
تدابیر اپنانابہت ضروری عوامل ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تعلیم
سے جڑے ہوئے طلبا کی تعلیم کا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ سرکاری سکول اساتذہ
کو شاید اس لیے سکول بند ہونے کی کوئی پریشانی نہیں کہ سرکار کا حکم ہے
بیشک سارا سال بند رکھے، انہیں سرکار کی طرف بروقت سیلری جاری ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف پرائیویٹ سکول جو حکومت کے ساتھ مل کر تعلیمی، روز گار میں کم و
بیش ۸۶فیصد اپنا کر دار ادا کرتا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے پرائیویٹ سکول کو
دیوار کے ساتھ لگا دیا گیاہے، اس کی کسی بھی فورم شنوائی ناممکن نظر آتی
ہے۔ لیکن جو وقتی سرکار نے بغیر امتحان طلبا کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا
ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے اور اس پر دلیل بھی پیش کر دی گئی ہے کہ ۰۸فیصد
طلبا اس پر راضی ہیں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وزیر تعلیم صاحب طلبا کو
کسی بھی لیول کی ڈگر ی مفت میں دے دیں انہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے، وہ اس
وقت سوچیں گے جب کسی میرٹ شدہ نظام میں اپنی تعلیمی قابلیت کو آزمائیں گے،
جب وہ اس میرٹ پر پورا نہیں اتریں گے اس وقت وہ اپنے آپ کو کوسیں گے لیکن
وقت گزر چکا ہو گا، یہ بات بھی بالکل ٹھیک ہے کہ اس میرٹ پر اشرافیہ،
وڈیرے، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے بچے تو پورے اتر جائیں لیکن مارا جائے
گا غریب کا بچہ، جس کاکوئی بھی پرسان حال نہ ہو گا، بہتر تو یہ تھا کہ اگر
SOPsکو مدنظر رکھتے ہوئے کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہوتا بچے تعلیم حاصل کرتے،
سرکاری اور پرائیویٹ اساتذہ اپنے تدریسی فرائض سر انجام دیتے ان کی صلاحیت
بھی زنگ آلو د ہونے سے بچ جاتیں، بچوں کو ایک امتحان سے گزارا جاتا لا
محالا ان کی تعلیمی اور ذہنی قابلیت کو تقویت ملتی، ایک طرف طلبا کی ذہنی
قابلیت کو مفلوج کر دیا اور دوسری طرف کہنہ مشق اساتذہ کی تدریسی قابلیت کو
سست روی میں ڈال دیا، اس لاک ڈاؤن سے بچے اور سرکاری اساتذہ تو خوش ہونگے
لیکن پچھلے ستر سالہ ادوار کی ہی طرح آپ نے بھی اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک
دھکا اور دے دیا، اب اس کے ثمرات یا نتائج سے کتنی نسلیں متاثر ہو نگی اللہ
بہتر جانتا ہے، جب آپ کا بذات خوچ اچھے تعلیمی کیرئیر کے مالک ہیں لیکن
ایسا فیصلہ کرنے میں اتنی جلدی کیوں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے شاید اس کا
مداواہ مشکل ہے اور وقت گزر جانے کے بعد آپ کو محسوس ہو کہ اس فیصلہ کی وجہ
سے نہ صرف پرائیویٹ تعلیمی نظام اور اساتذہ کا معاشی قتل ہوا بلکہ طلباکا
تعلیم قتل بھی۔ اگر ان کا تعلیمی مستقبل تاریک ہو گیا تو یہ تاقیامت آپ کو
معاف نہیں کریں گے، باقی آپ وقت کے بادشاہ ہے پالیسی میکر جو مناسب لگا کر
دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس تعلیمی نظام کو بہتر بنیادوں پر استوار کرے
آمین۔
|