افطار پارٹی

دین میں روزہ کی بہت اہمیت ہے۔یہ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ہے۔ روزہ دار کو افطار ی کرانے کا اجر و ثواب ہے۔ اسلام کے ہر رکن میں، ہر ایک ہدایت میں ، ہر ایک فعل میں انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کا تصور اجاگر ہوتاہے۔ کسی کی انفرادی حیثیت پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج تمام کے تمام کا پیغام اجتماعیت ہے۔ یہ اجتماعیت ایک گاؤں محلہ شہر سے لے کر ملک اور دنیا تک ہے۔ نماز محلہ کی مسجد، جمعہ شہر کی جامع مسجد، حج دنیا کے مرکز مکہ المکرمہ میں ادا کرنے کا یہی واضح پیغا م ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصد عبات ہی نہیں بلکہ انسانی معاملات ہیں۔جن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مگر کورونا وبا نے اجتماعیت پر کاری ضرب لگا دی ہے۔ اس نے اجتماع کے بجائے تنہائی کو تقویت دی ہے تا کہ وائرس میل جول سے پھیل نہ سکے۔مگر انسان ہر وقت دوسروں کے کام آتا ہے۔ حقوق اﷲ سے حقوق العباد کی زیادہ اہمیت اسی لئے ہے۔عبادات اور معاملات کیا ہیں۔ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ عبادات کا بھی بنیادی مقصد معاملات کو سنوارناہے۔ انسان کا انسان کے کام آنا، اس کے دکھ درد، خوشی غمی میں شریک ہونا، اس کے ساتھ تعاون کرنا، اس کی تیمار داری کرنا، اس کے لئے تحائف کا اہتمام کرنا، اس کو اپنے دسترخوان میں شامل کرنا، کفن ودفن میں شرکتجیسے معاملات ان معاملات میں شامل ہے۔

روزہ کا بھی ایک بڑا مقصد ہے۔ ایک مالدار، خوشحال، کشادہ رزق شخص روزہ رکھتا ہے ،اسے بھی ایک بھوکے اور پیاسے کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ اس پر بھی بھوک پیاس کا دور گزرتا ہے۔ وہ اپنے مال اور رزق میں غریب اور محتاج، مستحقین کو بھی شامل کرتا ہے۔ اسے دلی سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہی سکون قلب ہے جس کی ہر کسی کو تلاش ہے۔زکٰوۃ بھی نیکی کا سلسلہ ہے۔ یکم رمضان کو بینک اور دیگر مالیاتی ادارے سیونگ کھاتوں پر زکٰوۃ کٹوتی کرتے ہیں۔ حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ یہ زکٰوۃ کٹوتی کر کے غریبوں پر خرچ کرتی ہیں۔

روزہ دار افطاری میں اپنے دسترخوان پر دوسروں کو مدعو کرتا ہے۔چھپ کر غرباء کی مدد کرتا ہے۔ تا کہ کسی کو پتہ نہ چلے اور غریب کا دل نہ دکھے۔کورونا کے باوجود آج محدود افطار پارٹیاں اور ان میں شریک لوگوں کا جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم اچھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے دسترخوان پر غریب اور یتیم، محتاج کتنے نظر آتے ہیں۔ ہماری پارٹی میں شہر کے خوشحال لوگوں، وزراء، مشیر، سکریٹری، مال دار، امراء وزراء بھی شامل ہوتے ہیں۔ان میں فقراء کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ خلوص نیت اپنی جگہ ،ان لوگوں کو ہم شاید اس لئے بھی مدعو نہیں کرتے ہیں تا کہ یہ ہمارے کام آئیں۔ ہماری ملازمت، ترقی، تبادلے ، کاروبار کے فروغ ، مراعات، مفادات کا بندوبست کر سکیں۔ مگر لوگ اب الحمد ﷲ تعلیم یافتہ ہیں،خدا ترس ہیں۔ وہ نیکی اور دکھاوے میں فرق کر سکتے ہیں۔

آپ افطار پارٹی کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں۔ ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر دیں۔ اور اب بتائیں آپ کن لوگوں کو مدعو کریں گے۔ آپ کے مقاصد کیا ہوں گے۔ سیاسی مقاصد، زاتی مقاصد، مفادات اور مراعات کے لئے یا خالص اﷲ کی رضا کے لئے، مال کی پاکیزگی کے لئے۔ کیا آپ کی افطاری کا مقصد پورا ہوگا۔مگر ہم اﷲ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کے دسترخوان پر غریب اور مسکین، یتیمزیادہ تعداد میں جمع ہوں۔ مستحق کو آپ افطاری کرائیں، آپ کا عمل اﷲ کی خوشنودی کے لئیہو گا۔ رحمان کی خوشنودی مطمئن نفس کی خواہش ہوتی ہے۔ اطمینان قلب کا باعث بنتی ہے۔

حسن ظن کا تقاضا ہے کہ ہماری افطاری صرف اﷲ کی رضا کے لئے ہوتی ہے۔ آپ نے مال خرچ کیا۔ اﷲ پاک قبول فرمائے اور آپ کو اس کا بہتر اجر عطا کرے۔ ہم نے اپنا جائز ہ لینا ہے۔ اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اپنا احتساب کرنا ہے۔ اپنے معاملات کو درست کرنا ہے۔ اس کا علاج ہے۔ توبہ استغفار۔ توبۃالنصوۃ۔ توبہ وہی قبول ہوتی ہے۔ جس کے بعد مزید غلطی، گناہ سے بچنے کا عہد اور عزم ہو۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ توبہ کر لی۔ اب پھر وہی عمل۔ پھر توبہ کریں گے۔ غلطی کر لیں۔ پھر توبہ ہے تو ایسی توبہ ایک دھوکا ہے۔ کیا ہم اﷲ تعالیٰ کو دھوکا دے سکتے ہیں ۔ کیا ہم ملک الموت کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ کیا حکیم لقمان ایسا کر سکے۔ سلطان سکندر بھی نہ کر سکے۔کیا آج تک اس روئے زمین پر کوئی ایک بھی ایسا کر سکا ۔ کوئی سخی یا بخیل، عالم یا حکیم ایسا نہ کر سکا، کوئی نہیں کر سکتا۔ بھلائی کی طرف لوٹ آنا ہی بہتر ہے۔جس کو اﷲ نے توفیق دی، اپنے مال سے نوازا، وہ افطاری دیتا ہے۔اس کا دسترخوان بہت کشادہ ہوتا ہے۔ مال اﷲ کا دیا ہوا ہے تو اس کو جمع کرنے کے بجائے اﷲ کے بندوں پر خرچ کرنے میں کس نے روکا ہے۔نیک انسان پڑوس میں نادار اور غریب کا خیال رکھتا ہے۔اپنے عزیز و اقارب کا حق سب سے زیادہ ہے۔ان کا خیال رکھتا ہے۔ اﷲ مزید توفیق دے۔اﷲ کے نیک اور برگزیدہ بندے اپنے مفادات کے لئے۔ اپنی شہرت کے لئے، دکھاوے کے لئے کوئی بھی کام نہیں کرتے۔جس نے ریاکاری کی، اس نے خود کو ہی دھوکا دیا۔با شعور فرد افطاری میں، اپنے مال میں غریبوں، مسکینوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کرتا ہے۔ ہماری نیت، ہمارا خلوص اﷲ بہتر جانتا ہے۔ ایک اہم دینی فریضہ پر سیاست کوئی نہیں چمکاتا۔ رئیس ، بڑے تاجر، صنعتکار بلائے جاتے ہیں۔ ان سے چندہ لیا جاتا ہے ۔ پھر یہ سب سیاست کی نذر ہو جاتا ہے۔ روزہ، افطاری، شب کی تلاش ، اس پر سیاست، دکھاوا غالب آ جائے تو اﷲ ہی بہتر جانتے ہیں کہ اس کی جزا یا سزا کیا ہو گی۔ اﷲ ہماری نیت کو خالص کر دے اوراجتماعیت کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے تو ایسا ہو سکتا ہے۔اﷲ پڑوسیوں، غرباء، محتاجوں، مسکینوں، مسافروں، طلباء سمیت تمام مستحقین کے ساتھ بھر پور تعاون کی توفیق عطا فرمائے۔ہماری افطاریوں کو قبول اور نیتوں کو خالص کر دے۔عظیم لوگ ہیں جو ایک ہاتھ سے ایسے اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہو تی۔ اﷲ پاک ان کے مال و دولت میں برکت دیتا ہے اور رزق کو کشادہ فرماتا ہے۔اپنے خزانوں کے منہ ان پر کھول دیتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو معاشرے کے چمکتے ستارے ہیں۔ ان نیک لوگوں کی وجہ سے ہم بھی اﷲ کے عذاب اور قہرسے بچے رہتے ہیں۔یہی نیک لوگ اﷲ کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ خیر اور نیکی کو عام کرتے ہیں۔اﷲ پاک ہمیں بھی نیکی کو عام کرنے ،رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی ہدایت اور توفیق دے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555430 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More