جذبات سے مغلوب اورفطرت سے مجبور انسا ن اپنی نفرت تو
فوری ظاہرکرد یتے ہیں جبکہ انہیں دوسروں کیلئے محبت یاعقیدت اپنے اندردبانے
اور چھپانے کی عادت ہوتی ہے،انہیں لگتا ہے اپنوں کے ساتھ اپنائیت کااظہار
کرنے سے ان کی اناشاید بری طرح فنا ہوجائے گی۔ہماری مختصر زندگی آپس میں
بدگمانی،بدزبانی، نفاق اور نفرت کی متحمل نہیں ہوسکتی۔انسان اپنے ہاتھوں سے
جوبوتاہے اسے وہ کاٹنا پڑتاہے۔ہم دوسروں کوجوکچھ دیں گے وہی پلٹ کے ہمیں
سودسمیت ملے گا۔کئی لوگ حسدکاروگ اپنے کندھوں پر اٹھائے دنیا سے اٹھ جاتے
ہیں۔دوسروں کی کامیابی وکامرانی پر''اشک ''بہانابزدلی جبکہ ''رشک'' کرنا
مستحسن ہے ۔میرے نزدیک اپنوں کے ساتھ ''وفاؤں'' اور''دعاؤں ''کے تبادلے سے
انسان کے اندرکاموسم تبدیل ہوجاتا ہے۔عہدحاضر کے انسان اظہارنفرت کے معاملے
میں بہت عجلت پسنداورشدت پسند ہیں جبکہ پیاروں کی وفات کے بعدانہیں بھیگی
آنکھوں کے ساتھ یادکیا اور صادق جذبوں کے ساتھ سراہاجاتا ہے۔جوکام زندگی
میں کرنے کی ضرورت تھی مگرنہیں کیا وہ موت کے بعدکرنازیادہ سودمندنہیں
ہوسکتا۔دوسروں کی زندگی جہنم بناکراﷲ رب العزت سے جنت کی آرزواورامیدنہیں
کی جاسکتی۔جوانسان جیتے جی دوسروں سے جانے انجانے میں ان کی دل آزاری
یاحقوق العبادکی پامالی پرمعذرت کرلے اس کی نمازجنازہ کے وقت ورثاء کو
شرکاء سے معافی طلب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔جو دوسروں کیلئے
آسانیاں پیداکرتے ہیں ان کااپناراستہ ہموارہوجاتا ہے۔عزت داروہ نہیں
جومعاشرے میں بہت مقبول ہوبلکہ جودوسروں کوعزت دے وہ عزت دار ہے۔علم کی طرح
محبت اورعزت وہ سرمایہ ہے جو دوسروں میں تقسیم کرنے سے مزید بڑھ جاتا ہے۔اﷲ
تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک دوسرے کومحبت اورعزت دیں ۔کسی مردہ کے ساتھ اظہار
محبت یاپھرکوئی کالم اورکتاب اس سے منسوب کرنے کی کوئی خاص وقعت نہیں بہتر
ہے زندگی میں اپنے پیاروں کی قدر اوران کے اوصاف حمیدہ کااعتراف کریں ۔ہمیں
ایک دوسرے کی زندگی سہل اورخوبصورت بنانے کی ضرورت ہے،دوسروں کیلئے نفرت
کواپنے اندر نابودکردیں اورمحبت کی آبیاری کریں۔
جیتا ہے توجینے کی سزادیتی ہے دنیا
مرجائے توبڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
کئی کالم نگار اپنے والدین،عزیزواقارب اوردوست احباب کی موت کے بعد ان
کیلئے اپنے جذبات واحساسات سپردقرطاس کرتے ہیں ،بیشک موت برحق ہے لہٰذاء
میں نے سوچاکیوں نہ اپناایک کالم اپنے باوفااورباصفا ماں باپ کی زندگی میں
انہیں نذر کروں ،کیا علم ہم میں سے کس نے چلے جانا ہے۔اگرمجھے ان سے پہلے
موت آ گئی توپھر یہ کالم مجھ پرقرض رہ جائے گا۔ عظیم المرتبت اﷲ رب العزت ،سرورکونین
حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اوران کی آل کے بعدماں باپ سے بڑھ کرکوئی
محبوب نہیں ہوسکتا۔بارباراظہارمحبت کرنا درحقیقت محبوب ،محب ،محبت کوتازہ
دم اورتوانا کرتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ کی بلندبارگاہ میں دعا ہے ہم اپنے قلوب سے
نفرت،تعصب اورکدورت نکال دیں کیونکہ ان کاوجود ہمیں اپنے پیاروں کے ''قرب
''سے محروم جبکہ'' کر ب'' سے دوچارکرتا ہے ۔مقدس ماں باپ کامقام اسلام نے
بتادیا لیکن ہم اپنے والدین کی زندگی بھر کی محبت ا ورمحنت کاحق ادا نہیں
کرسکتے۔ماں باپ نے ہماری پرورش کیلئے جوپسینہ بہایا اس کے بدلے میں اگر ہم
اپنے خون کاقطرہ قطرہ بھی بہادیں توبرابری نہیں ہوسکتی۔مجھ سے''
زیرو''کو''زیورتعلیم ''سے آراستہ ، میری تربیت اور بہترین پرورش کرنیوالے
والدین میرے ''ہیرو'' ہیں۔ میراروم روم ان کااحسان منداورمقروض ہے ۔زندگی
میں کئی بار ان کی شان میں گستاخیاں بھی سرزدہوتی رہیں اوروہ بڑے پن
کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھے درگزر بھی کرتے رہے ،آج بھی ماں باپ کی دُعا سے ان
کی وفاجھلکتی اورچھلکتی ہے ۔آج اپنے محبوب ماں باپ سے باضابطہ تحریری معذرت
اوران شاء اﷲ دوبارہ کوئی گستاخی ،کوتاہی،حکم عدولی اوردل شکنی نہ کرنے
کاعہد کرتاہوں۔آج جوکچھ ہوں یہ میرے ماں باپ کی وفاؤں اوردعاؤں کافیض
ہے۔ہمارے بڑوں نے مادروطن پاکستان کی محبت میں بھارتی پنجاب سے کوچ کیا تھا
جبکہ ہمارے ماں باپ نے اپنوں کے ہوتے ہوئے ہم بہن بھائیوں کے روشن مستقبل
کیلئے آج سے تقریباً 42برس قبل گاؤں سے لاہور کی طرف ہجرت کی تھی ،ہماری
ہجرت کے کچھ برسوں بعد ہمارے ماموں جان محمداجمل خان ناصر بھی اپنے بیوی
بچوں کے روشن مستقبل کیلئے انہیں مستقل لاہورلے آئے اورہمارے ہمسایہ بن گئے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اپنے گاؤں میں ہوتے تھے۔ہمارے گاؤں سے دور
شاہراہ جس کواس وقت''پکی ''کہاجاتا تھا، پرہرروزسینکڑوں گاڑیاں ہارن بجا تے
ہوئے گزرتی تھیں لیکن عجیب اتفاق ہے میں تین چار برس کی عمر میں جس ہارن کی
آواز پر بے اختیار کہتا ''پیں بولی''اباجی آئے توالحمدﷲ اگلے لمحے میرے
والدصاحب ہمارے گھر کی دہلیز پرہوتے اورمیں خوشی سے جھومتا ہواان کی ٹانگوں
کے ساتھ لپٹ جاتااوروہ مجھے اٹھاکراپنے سینے سے لگاتے ،ایسا ایک بار نہیں
کئی بار ہوا۔جہاں خون کا''رشتہ ''ہووہاں ایک دل سے دوسرے دل تک ''رستہ''
ضرورنکلتا ہے۔ ہمارے شفیق ومہربان والد حاجی امان اﷲ خان جب بھی چھٹی
پرلاہور سے گاؤں آتے توہماری عیدہوجاتی ،وہ ہم بھائیوں کو صبح سویرے اپنے
ماموں زادبھائی ثناء اﷲ خان مرحوم کے امرود کے باغ میں لے جاتے جہاں ہم
تازہ امرود توڑتے اوران سے پیٹ بھر تے پھروہاں سے واپسی پروالدہمیں گاؤں کی
جامعہ مسجد کے کنویں سے ملحقہ غسل خانوں میں نہلاتے ،اپنے ہاتھوں سے سروں
پرسرسوں کاتیل ،آنکھوں میں سرمہ لگاتے اورکنگھے سے ہمارے بال بناتے۔باپ
کامقام اس وقت زیادہ بہترانداز سے سمجھ آیا جب میرے بچے مجھے بابا کہنا
شروع ہوئے۔ہمارے والد نے اپنے محدودوسائل کے باوجود ہماری بہترین پرورش اور
معیاری تعلیم وتربیت کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی،ہمارے والدحاجی امان اﷲ خان
ہماری تمام تعلیمی اورتفریحی ضروریات پوری کرتے ،ان کے دل میں ہماری
کامیابی وکامرانی اورنیک نامی کیلئے بہت'' ارمان'' اوروہ ہمارے واسطے ہرطرح
کے خطرات سے'' امان'' تھے۔انہوں نے منافقت اوروحشت وظلمت سے بھرپور ضیائی
آمریت کے بدترین اور سیاہ دورمیں ہمارے روشن مستقبل کیلئے تاریک راتوں
اورصعوبتوں کاسامنا کیا۔وہ ہررات ہمارے روشن مستقبل کیلئے کئی خواب دیکھتے
تھے جوشایدہم شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام رہے،کاش زندگی ایک بارپھر سترکی
دہائی سے شروع ہو جاتی اورہم اپنے بینظیروبے مثل ماں باپ کی امیدوں
پرپورااترنے کیلئے ماضی کے مقابلے میں زیادہ تندہی سے محنت کرتے۔ستر کی
دہائی میں معاشرت اورمعیشت کارنگ روپ آج کے مقابلے میں بہت مختلف تھا
،امارت کمیاب لیکن گاؤں سے شہروں تک انسانوں میں انسانیت زندہ تھی اسلئے
زیادہ تر لوگ سادہ مگرآسودہ تھے ۔ہم بھائی بھی شروع میں گاؤں کے ٹاٹ والے
سکول میں داخل ہوگئے ۔یہ قلم ،دوات،سلیٹ ،تختی اورقاعدے کادورتھا،گاؤں میں
بجلی نہیں تھے مگر راتیں زندگی سے بھرپوراورجگنوؤں کی روشنی سے پرنور
تھیں۔ان دنوں جگنوؤں کے پیچھے بھاگنے کا سلسلہ توتھامگررات دیرتک جاگنے
اورصبح دیرسے بیدارہونے کارواج ہرگزنہیں تھا۔بچے اپنے'' روشن'' مستقبل
کیلئے لالٹین کی ''روشنی'' میں پڑھتے جبکہ دوات کی'' روشنائی'' سے
''روشنی'' کی سمت سفر کرتے تھے ۔ہمارا بچپن بہت حسین تھا ،صبح مادرعلمی میں
وقت گزرتا جبکہ دوپہرسے شام تک کھیت کھلیان ہم پرمہربان اور ہمارے میزبان
ہواکرتے۔وہ دن بہت شاندار تھے ،ہمارے گاؤں کی ہریالی اورکھیت کھلیان دیکھ
کرجنت کاگمان ہوتا تھا۔ہمارا''نانکا،دادکا'' ایک ہی گاؤں میں تھا ،ہمارے
باپ دادا قیام پاکستان کے بعد بھارتی پنجاب کے شہروں گرداس پوراورہوشیار
پور سے ہجرت کے نام پرآگ اورخون کے دریا پار کرتے ہوئے ننکانہ صاحب کے
نزدیک کوٹلہ کاہلواں جہاں بابا جی چپ شاہ سرکار ؒ آسودہ خاک ہیں وہاں
آبادہوئے ۔ہمارے گاؤں سے کچھ دورشاہ کوٹ میں باباجی نولکھ ہزاری ؒ
کامزاربھی ہے ۔ہماری پٹھان برادری کے زیادہ ترلوگ کاشت کاری اورباقی سرکاری
اداروں سے وابستہ ہیں،ان کی خوشی غمی اوردوستی دشمنی سانجھی ہے۔میں چار
پانچ برس کا تھا جب ہمارے خاندان کو مستقل لاہور آناپڑا ۔لاہورآنے کے
باوجود آج بھی میرامحبوب گاؤں میرے اندر دھڑکتا اورمیرادل وہاں مقیم اپنوں
اوروہاں دیکھے سپنوں کیلئے مچلتا ہے۔ہمارے والدین شروع سے اب تک ہمیں بہت
محبت د یتے اورہماری کامیابی وکامرانی اورشادمانی کیلئے بہت انتھک محنت
کرتے رہے ہیں۔الحمدﷲ آج بھی ان دونوں کاوجود ہم بھائیوں اورہمشیرہ سمیت
ہمارے بچوں کیلئے شجرسایہ دار ہے،دعاہے یہ گھنا سایہ زمانے کی چلچلاتی دھوپ
سے بچانے کیلئے ہمارے سروں پرتادیربرقراررہے ۔ |