جاپان کا وہ گاؤں جہاں بھڑوں کو کھایا جاتا ہے

image


فیبی اموروسو
بی بی سی


'میرے پاس تمھارے لیے ایک خاص شے ہے۔'

بھڑوں کے شکاری نے ایک کھیت میں گھنے سے حصے کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے اپنے تھیلے سے بھڑوں کے چھتے کا ایک ٹکڑا نکالا اور مجھے پیش کیا۔

یہ ایک خوبصورت سا چھتا تھا جس کے اندر چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے۔ وہ مجھے ایک ایسا کھانا پیش کر رہا تھا جو اب ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

یہ سال میں صرف ایک بار مہیا ہوتا ہے اور ایک کلو لاروا کی قیمت 64 ڈالر ہے۔ میں نے ایک زندہ کیڑے کو تیزی سے نگل لیا۔ وہ ایک ہلکا، ملائم اور بالکل کھانے کے قابل تھا۔ کھانے کے دوران میرے اور بھڑوں کے شکاری کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔

ہم جاپان کے گفو پریفکچر میں بھڑوں کے ایک میلے میں شریک تھے جسے مقامی زبان میں 'کشیہارا ہیبو مایٹسوری' کہا جاتا ہے۔

مقامی زبان میں کالے رنگ کی دو بھڑوں کو ہیبو کہا جاتا ہے۔ بھڑوں کی یہ نسل زیادہ جارحانہ مزاج نہیں رکھتیں اور انھیں باآسانی پکڑا جا سکتا ہے۔

ہر سال نومبر کے پہلے اتوار کو علاقے کے لوگ بھڑوں کے چھتوں کو یہاں لاتے ہیں۔ جس کا چھتا بڑا اور بھاری ہوتا ہے اس کو ٹرافی سے نوازا جاتا ہے۔

اس میلے میں شریک تمام شرکا میلے میں ایک دو ڈنگوں کی امید رکھ کر ہی آتے ہیں۔کچھ کھانے کے لیے وہاں سے بھڑ خرید کر لے جاتے ہیں ۔ بھڑوں کا یہ میلہ درحقیقت اس کہانی کا اختتام ہوتا ہے جو ایک ماہ پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی ہے۔

بھڑوں کے شکاری گھنے جنگلوں میں بھڑوں کے چھتے کو ڈھونڈنے کے لیے ایک تکینک کا استعمال کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ بھڑوں کے پوشیدہ چھتوں تک پہنچتے ہیں۔

شکاری مچھلی کی کھال سے اترنے والے چاندی نما چھلکوں کو ایک سفید کاغذ پر چپکا کر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی بھڑ ان کے جال میں پھنسے۔

جلد ہی بھڑ شکاری کے پھندے میں آ جاتی اور جب وہ وہاں سے چاندی نما چھلکے اٹھا کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہوتی ہے تو شکاری اس کے ٹھکانے تک پہنچنے کے لیے بھاگ پڑتے ہیں۔

جب وہ ندیوں، کھائیوں کو عبور کرتے ہوئے بھڑوں کے چھتے تک پہنچتے ہیں تو وہ زمین کھود کر بھڑوں کو لکڑی کے بنے ہوئے نیسٹ باکس پر منتقل کرتے ہیں۔ شکاری تمام موسم سرما ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں تاکہ انھیں نومبر میں ہونے والے میلے میں پیش کر سکیں۔
 

image


بھڑوں کے شکاری ان بھڑوں کی پرورش کے لیے انھیں چینی، پانی اور کچا گوشت کھلاتے ہیں تاکہ ہیبو بڑی ہو سکیں۔

ایک وقت جاپان کے طول و عرض میں بھڑوں کو کھایا جاتا تھا لیکن اب یہ گھٹ کر گیفو پریفیکچر کے اینا ڈسٹرکٹ تک محدود ہو چکا ہے۔ اینا ڈسٹرکٹ کے گاؤں کشیہارا میں بھڑوں کا سالانہ میلہ لگتا ہے۔

پروفیسر کنیچی نوناکا رکو یونیورسٹی میں ثقافتی تاریخ کے شعبے سے منسلک ہیں اور تیس برسوں سے وہ اس علاقے کی مطبخی روایت کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

پروفیسر کنیچی کہتے ہے کہ لوگوں نے بھڑوں کو کب کھانا شروع کیا اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

پروفیسر کنیچی البتہ اس نظریے سے متفق نہیں ہیں کہ لوگوں نے اپنی پروٹین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھڑوں کو کھانا شروع کیا۔

پروفیسر کنیچی کہتے ہیں کہ سو گرام بھڑوں میں یقیناً کافی پروٹین ہو گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اتنی مقدار میں بھڑیں کبھی ملتی ہی نہیں ہیں۔

پروفیسر کنیچی نوناکا نے جاپان کے دوسرے علاقوں کی ثقافت اور مطبخی روایت کا مطالعہ کیا ہے۔

وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لوگوں نے ان حشرات کو تب کھانا شروع کیا جب وہ کبھی اتفاقاً انھیں مل گئیں اور یہ کبھی ان کی مکمل خوراک نہیں تھیں بلکہ خوراک کے ساتھ ایک اضافی ڈش کے طور انہیں کھایا گیا ہے۔

لیکن جو کشیہارا کو جاپان کے دوسرے علاقے سے منفرد بناتی ہے وہ ان بھڑوں کو پالنے کا طریقہ ہے۔ جاپان کے دوسرے علاقوں میں کالی بھڑوں کو پالا جاتا ہے اور کاشتکار انھیں اپنے طور پر پالتے ہیں لیکن یہاں پوری کمیونٹی مل کر انھیں شکار کرتی ہے اور پھر ان کی پرورش کر کے نومبر کےمیلے میں لاتی ہے۔
 

image


ہیبو ڈش کو خوشی کے موقع پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ پھر یہ علاقے کا ایک رواج اور شناخت بن گئی-

مقامی سطح پر ہیبو کی اہمیت کی وجہ سے 1993 میں ایک عوامی میلہ لگنا شروع ہوا۔ اب صرف پرانی عمر کے لوگ ہیبو کا شکار کرتے ہیں اور نوجوان نسل کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں۔

جاپان کے دوسرے علاقوں میں بھی بھڑوں کے میلے لگتے ہیں لیکن کشیہارا کے میلے کو میڈیا میں بہت کوریج ملتی ہے جس سے اس کی شہرت میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اینا ڈسٹرکٹ کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے جن کا دوسرے جاپانی علاقوں کو سامنا ہے۔ نوجوان دیہی علاقوں کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ پچھلے پندرہ برسوں میں اینا ڈسٹرکٹ کی آبادی میں 20 فیصد کمی ہو چکی ہے اور اب اس کی کل آبادی 51073 نفوس پر مشتمل ہے۔

نوجوانوں کی ہیبو میں عدم دلچسپی کی وجہ سے میلے کے منتظمین نے اس میلے کے انعقاد کو روکنے کے بارے میں سوچا تھا لیکن جب کچھ نوجوانوں نے آگے بڑھ کر مدد کی حامی بھری تو کشیہارا میں بھڑوں کے میلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

42 سالہ ڈائسوکی میاکے کہتے ہیں کہ جب تک ایک شخص بھی ہیبو کو پسند کرتا ہے اس وقت تک بھڑوں کا یہ میلہ جاری رہے گا۔

ڈائسوکی میاکے صبح ساڑھے سات بجے سے میلے کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ وہ درختوں پر چڑھ کر میلے کے اشتہارات لگا رہے ہیں۔

میلہ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے ہی چار بزرگ اپنی میزیں لگا کر بیٹھ چکے ہیں۔ وہ میلہ کھلتے ہی ہیبو کے پہلے گاہک بننے کے لیے وقت سے پہلے لائن لگا چکے ہیں۔

میلے میں ہیبو کے سٹال لگ چکے ہیں جہاں بھڑوں سے بنی مختلف ڈشیں تیار کی جا رہی ہیں۔

میری نظر ہیبو جاکلیٹ پر تھی جب میرے نئی ساتھی نے تیل میں تلی ہوئی زرد بھڑوں کا باکس نکالا۔
 

image


کشیہارا کی طرح جاپان کے دوسرے علاقوں میں بھی جاپانی زرد بھڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ یہ بھڑ اپنے جارحانہ پن کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کا ڈنگ بھی کافی سخت ہے۔

مجھے میرے ساتھی نے کہا ' تم بھڑیں کھانے کے شوقین ہو،جاؤ ایک بڑی سے بھڑ کو پکڑو۔'

اور وہاں موجود لوگوں نے ایک قہقہ لگایا۔

میں نے آگے بڑھ کر ٹوٹھ پک پر نمونے کے طور پر لگی ہوئی ایک بھڑ کو اٹھایا اور اسے کھا لیا۔ اس میں قدرے چرمراہٹ تھی، وہ کافی ذائقہ دار تھی ۔ یہ تو بئیر کے ساتھ کھایا جانے والا سنیک ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص تلے ہوئی زرد بھڑوں کی پلیٹ لیے بیٹھا تھا اور ساتھ بئیر کا ڈبہ بھی اٹھا رکھا ہے۔

ہم تھوڑی دیر بعد بھڑوں کے میلے کی سب سے پسندیدہ ڈش، ہیبو گوئی موچی کھا رہے تھے۔ ہیبو گوئی موچی لیس دار چاولوں اور میزو سے بنی میٹھی چٹنی اور بھڑوں سے بنتی ہے اور اسے سلاخوں پر پکایا جاتا ہے۔

بھڑوں کے بچوں (لاروا) کو چاولوں میں گوند لیا جاتا ہے اور اس کی تیاری میں گھنٹوں لگتے ہیں۔ یہ ڈش صدیوں سے اہم مواقعوں پر پیش کی جاتی ہے۔
 

image


میلے میں جس سٹال پر ہیبو گوئی موچی تیار ہو رہی ہے وہاں ایک لمبی قطار لگ چکی ہے اور عملہ وہاں ہیبو گوئی موچی کے کباب نما ٹکڑوں کو سلاخوں پر پکا رہے ہیں۔

وہاں نوجوان خواتین کا ایک گروپ بھی موجود ہے جنہوں نے ایسی ٹی شرٹس پہن رکھی جن پر لکھا ہے 'ہیبو گرل"۔

یہ لڑکیاں اسی سال میلے میں آئی ہیں۔ جب گاؤں کی چند بوڑھی عورتوں نے ریٹائرمنٹ لے لی تو پھر یہ لڑکیاں مقامی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے آگے بڑھی ہیں۔ وہ الصبح چار بجے سے چاولوں کے سینکڑوں پورشن تیار کر رہی ہیں۔ انھوں نے ہیبو گوئی موچی ایک روز پہلے سے تیار کر رکھی ہے۔

ان میں سے ایک سوکھو میاکی نے مجھے بتایا:'میں بچن سے یہ کھا رہی ہوں لیکن جب سے میں نے خود اسے بنانا شروع کیا ہے تو مجھے لگا کہ مجھے اس ثقافتی ورثے کو دوسروں کو منتقل کرنا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں جاپان اور دنیا میں حشرات خوری میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ اس کشیہارا کے میلے کی رونقیں بھی بڑھ گئی ہیں۔اب دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح اس میلے میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں جس کے علاقے کی معاشی خوشحالی کے علاوہ علاقے کے لوگوں کے اپنے ثقافتی ورثے سے جڑنے کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔

میلے کا انعقاد اپنی جگہ اہم ہے، لیکن یہاں ایک خدشہ جنم لے رہا ہے کہ کیا نئی نسل اپنے والدین کی طرح ہیبو کی پیدوار کو جاری رکھیں گے۔ ان میں کئی میلے کے انعقاد میں مدد دینے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ان میں بھڑوں کو کھانے میں دلچسپی نہیں اور ان کی پیدوار تو دور کی بات لگتی ہے۔

سب سے اہم اور ضروری سوال تو یہ ہے کہ بھڑوں کا شکار کرنے کا طریقہ نوجوان نسل تک کیسے پہنچے گا۔ کئی مقامی نوجوانوں کو ابھی تک بھڑوں کا شکار کرنا نہیں آتا اور نہ ہی ان میں شکار کرنے کا طریقہ سیکھنےکا جذبہ ہے۔

کشیہارا کے لوگ بھی علاقہ چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور جب واپس آتے بھی ہیں تو ان کے پاس بھڑوں کے شکار کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

اس مسئلے کے حل کے لیے میلے کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ فمیٹاکا اندو نے نوجوانوں کو اس شکار کا ہنر سکھانا کا بیڑا اٹھایا ہے۔

فیمٹاکا اگلی جولائی سے ایک تربیتی کورس کا آغاز کر رہے ہیں جس میں ایک چھوٹے سے گروپ کو بھڑوں کے شکار کے طریقے سکھائے جائیں گے۔

ان سیکھنے والوں میں ہیبو گرلز بھی شامل ہیں جو پہلی بار میلے میں شریک ہوئی ہیں۔ فیمٹاکا نے بھی چند برس پہلے بھڑوں کا شکار کرنا سیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میلے کی مقبولیت کی وجہ انھیں حوصلہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں:'نوجوان رضاکاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس سال نوجوان لڑکیاں بھی آگے بڑھی ہیں۔ کشیہارا ایک ٹیم بن گئی ہے۔'

میلے کے اختتام پر میں ڈائسوکو اور سوکھو کے گھر گیا۔ ہم ڈنر ٹیبل پر ان کی تین بیٹیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ سوکھو چولہے پر میٹھی چٹنی میں ہیبو کو ابال رہی تھیں تاکہ وہ تازہ تازہ پکائے گئے چاولوں کے اوپر تہہ لگا سکیں۔

سوکھو نے یہ فن اپنے والدین سے سیکھا ہے۔

جب ہم ایک بھڑوں کے چھتے سے لاروا نکال کر کھا رہے ہم ساتھ ساتھ بات چیت بھی کر رہے تھے۔ بچیاں ہماری باتیں بڑی دھیان سے سن رہی تھیں۔

کشیہارا کا ہیبو کلچر حشرات خوری کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی شناخت کا نام ہے۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: