امیر المومنین سیدنا حضرت علیؓ کے فیصلہ میں جرح وجستجو

ابوعامرخزرجی ایک کامیاب تاجراورجہاں دیدہ تاجرتھے وہ تجارتی قافلوں کے ہمراہ مختلف ملکوں میں تجارت کامال لیکرجاتے،فروخت کرتےاورنفع اٹھاتے ،انکاگھرانہ خوشحال اورآسودہ تھابڑی خوشی ،مسرت اورشادمانی کے ساتھ زندگی بسرہورہی تھی ۔ان کے بچوں میں سے کچھ توتعلیم وتعلم مشعول تھے اور بڑالڑکاعامران کی مقامی تجارت میں ہاتھ بٹارہاتھاابوعامرخزرجی نے ایک دن اپنے گھروالوں سے کہاکہ ایک تجارتی قافلہ ملک شام جارہاہے اس میں میرے کچھ دوست احباب بھی ہیں ارادہ ہے کہ اس بارشام سے کافی مال تجارت لیکر آؤں کیونکہ اس دیار میں اس کی شدید ضرورت ہے انھوں نے اپنے گھروالو ں کواس کابھی یقین دلایا کہ وہ اسی قافلہ کے ساتھ جلدہی واپس آجائینگے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہی واپس ہوں گے ۔قافلہ روانہ ہوگیامدت مقررہ پرپرابوعامرکے گھروالے نہایت بیچینی سے ان کی واپسی کاانتظارکرنے لگے اورشام کے قیمتی اورخوبصورت تحفوں کاخواب دیکھنے لگے،نوجوان عامراپنے والدکے دوستوں کے گھروں کے چکرلگانے لگاتاکہ ان کی آمدکی خبر معلوم کرسکے ۔ایک دن اچانک پتہ چلاکہ قافلہ کے افراد آگئے ہیں مگراس کے والدنہیں آئے اس نے قافلہ کے ایک ایک آدمی سے ملاقات کرکے دریافت کیا کہ اس کے والدکیوں واپس نہیں آئے سب نے ایک ہی جواب دیاکہ راستہ اس کے والدکاانتقال ہوگیااور انھوں نے کچھ مال واسباب نہیں چھوڑااسکے علاوہ ان لوگوں نے موت کاسبب ،مال ومتاع کافقدان اورانکے دفن وغیرہ کے بارہ میں کوئی بات نہیں بتائی ۔

لڑکے کوشبہ ہوااس نے قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ دائرکردیااورکہاکہ اس کے والدقافلہ کے فلاں فلاں لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے تھے اسے شک ہے اس کے والد ابوعامرخزرجی کوقتل کردیاہے ،قاضی شریح نے عدالتی روایت کے مطابق اس دعوے کے بموجب قافلہ والوں کوطلب کیا اورلڑکے کے دعوے کی تفصیل بیان کی ،قافلہ والوں نے قتل کاانکارکیا لڑکے کے پاس گواہ ثبوت نہ ہونے کی بناء پرقاضی شریح نے فریق ثانی سے قسم لی انھوں نے چھوٹی قسم کھالی اور بری کردئیے گئے ۔صاحبزادہ عامرنے فیصلہ سنامگرخداکی ذات سے مایوس نہ ہواگھرآیاوالدہ اور بھائی بہنوں کواطمینان دلایاکہ اگر قاضی شریح کی عدالت سے فیصلہ ظالموں کے حق میں ہوگیاہے لیکن اسے امیدہے کہ وہ امیراالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی بصیرت ودانائی اورالہامی فیصلہ سے حق حاصل کرلے گا۔وہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضرہوااورواقعہ کی پوری تفصیلات سنائیں اس کے بعدقاضی شریح کے فیصلہ سے باخبرکیااور کہاکہ اسے یقین ہے کہ ان لوگوں نے اس کے والدکوقتل کیاہے آپ سے حق وانصاف کاطلبگارہوں اورروپڑاحضرت علی ؓ نے عامر کوتسلی دی اورپولیس کوحکم دیاکہ ان کے ہردوآدمی قافلہ کے ایکآدمی کواپنی حراست میں لے لیں اورہرایک کوالگ الگ رکھیں اور ایک دوسرے سے کسی طرح کاکوئی رابطہ قائم نہ ہونے دیں ،اشاروں کنایوں سے بھی بات نہ ہوسکے ۔پولیس نے فوری طورپراس حکم پرعمل کیا اور قافلہ والوں کوقطعی طورپرعلحدہ کردیا،اسکے بعد امیرالمومنین نے بیانات تحریرکرنے والے منشی کوبلایااورایک ایک مجرم کاعلحدہ علحدہ بیان درج کرنے کاحکم دیا،پھرقافلہ کے پہلے آدمی کوتنہاطلب کیا

اوراس سے مندرجہ ذیل سوالات کئے،تم لوگوں نے شام کاسفرکب کیاتھا؟سفرکے دوران کن کن مقامات پرقیام کیاتھا ؟تمھاراسفرکیساتھا؟ اس نوجوان کے والد کاانتقال کس روزہوا کیا؟وفات سے قبل بیمار ہوئے تھے ؟کس بیماری میں وفات پائی ؟کس نے اسے غسل دیا کس نے نمازجنازہ پڑھائی؟ دفن میں کون کون شریک ہو؟ا ورکس جگہ دفن کئے گئے ؟کس بات کی وصیت کی؟ اپنے وصیت نامہ پر کس کوگواہ بنایا؟ انکی زبان سے آخری الفاظ کیااداہوئے؟ ان کے پہنے ہوئے کپڑے کہاں ہیں؟ محررنے جب اس شخص کے جوابات لکھ لئے توامیرالمومنین اور ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے بلندآواز سے تکبیر پڑھی مجرموں نے تکبیر سن کرخیال کیاکہ ان کے ساتھی نے جرم کااقرارکرلیااس آدمی کو واپس بھیج دیاگیااورپھرباری باری سب کوالگ بلاکریہی سوالات کئے گئے ہرایک کاجواب دوسرے سے مختلف تھا ان جوابات سے اندازہ ہوگیا کہ عامرکے والدقتل کئے گئے ہیں اور قافلہ کے لوگ جھوٹ بول رہے ہیں امیرالمومنین نے پہلے آدمی کودوبارہ بلوایااورکہا کہ خداکے دشمن تمھارے ساتھیوں کے بیان
سے تمھاراجھوٹ اور ہٹ دھرمی واضح ہوگئی ہے تمھیں صرف سچائی ہی بچاسکتی ہے ۔پھراسے جیل لیجانے کاحکم دیااور بلندآوازسے تکبیرپڑھی،مجرموں کوگمان ہواکہ اس نے اعتراف کرلیا۔ اس کے بعدامیرالمومنین نے دوسرے شخص کوبلایااوراس سے سخت الفاظ میں گفتگو کی تواس نے کہا امیرالمومنین خداگواہ ہے میں نے انکے قتل کوناپسند کیا میں نے نہ قتل کیا اور نہ انکا مال لیا یہ کام دوسروں نے کیاہے اورقاتل انھیں میں سے ایک ہے پھردوسروں کوطلب کیا اورہرایک نے جرم کااقرار کیا اور کہاکہ قتل پہلے آدمی نے کیا ہے پہلے آدمی کوبلایا گیاتواس نے بھی جرم قتل کااقرارکرلیااورپھرسب نے جوکچھ کہاتھاصاف صاف بتادیا۔مجرموں کے اقرار کے بعد امیرالمومنین نے فیصلہ کیا کہ قافلے کے تمام افراد اس جرم کی سزامیں قتل کردیئے جائیں اورمقتول کے وارثوں کوچھیناہوامال مساوی طورپر واپس کریں اس منصفانہ فیصلہ سے عامراوراس گھروالوں کی تسلی ہوئی اور اپنے والداورسرپرست کے لئے خداسے مغفرت طلب کی۔امیرالمومنین حضرت علیؓ نے اپنی اس تحقیق وکھوج میں جس حکمت عملی کاثبوت دیاہے آج مہذب معاشرہ اس کی کوئی مثال شایدپیش کرسکے۔علامہ ابن قیم جوزیہؒ حضرت امیرالمومنین علی ؓ کے ایک اورعدالتی فیصلہ کاذکرکرنے کے بعد دواصولوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فیصلہ کے لئے کسی ایک فریق کے مطالبہ پرانتہائی فراخدلی سے معاملہ ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کیاجاسکتاہے دوسرے یہ کہ قاضی کوتلاش حق کے لئے اپنی فراست ،دانائی اوربصیرت کے خوب چھان بین کرلینا چاہئے تاکہ کسی پرزیادتی اور دوسرے کی حق تلفی نہ ہو(یہ تحریر نقوش تابندہ سے ماخوذہے)

Noor Ullah Rasheedi
About the Author: Noor Ullah Rasheedi Read More Articles by Noor Ullah Rasheedi: 5 Articles with 3934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.