حضرت عثمان غنیؓ کی شھادت کے بعد صحابہ کرامؓ میں حضرت
عثمانؓ کے قصاص پہ اختلافات نے طول پکڑا تو کفر نے اسکو مزید بڑھاوا دینے
کیلئے خوب منافقت کا کردار اپنایا اور جلتی پہ خوب تیل چھڑکتے رہے۔۔۔
جب ان سازشوں کا ادراک حضرت علی المرتضٰیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کو ہوا تو
باہمی اختلافات کو ختم کرنے کی غرض سے مشاورت شروع ہوئی۔۔۔۔
آخر کار حضرت علیؓ و حضرت امیر معاویہؓ کے مابین مشاورت سے دورکنی کمیٹی،
شورٰی وجود میں آئی جس پہ اس فیصلہ کا اختیار چھوڑ دیا گیا کہ وقت کا خلیفہ،
امیر المؤمنین کون ہوگا۔۔۔
یہ فیصلہ اور کمیٹی یا شورٰی کی تشکیل حضرت علیؓ و حضرت امیر معاویہؓ کی
مشاورت و رضامندی سے طے پایا۔۔۔
یہ دو رکنی کمیٹی جسے خلیفہ وقت کے انتخاب کا ٹاسک سونپا گیا جلیل القدر
صحابی رسول {صلی اﷲ علیہ وسلم} حضرت ابو موسٰی اشعریؓ اور عمرو ابن العاصؓ
پہ مشتمل تھی۔۔۔
منافقین اور خارجی اس بات کو اب سمجھ چکے تھے کہ کمیٹی کے فیصلہ کے بعد
مسلمان اپنی صفوں میں پھر سے مضبوط تر ہوجائے گے اور انکے تیار کردہ سب
منصوبوں پہ پانی پھر جائے گا۔۔۔
لہٰذا ان خارجیوں نے ان دونوں فرقین سے بغاوت کا اعلان کیا اور قتل و غارت،
معاشرے میں انتشار پھلانا شروع کردیا۔۔۔
بلاآخر حضرت علیؓ نے ان خارجیوں سے جنگ کا فیصلہ کیا اور نہروان کے مقام پہ
جا کر انکا صفایا کیا۔۔۔
نہروان بغداد کے قریب ایک شہر تھا جہاں انہوں نے پناہ لے رکھی تھی۔۔۔ یہاں
یہ باغی قتل و غارت چوری لوٹ مار اور امیرالمؤمنین کے خلاف سازشیں کیا کرتے
تھے۔۔۔
انکی کل تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی۔۔۔ جنگ نہروان میں سب کے سب مارے گے۔۔۔
جن میں سے بس دس یا بارہ خارجی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے، انہی میں سے
ایک ابن ملجم بھی تھا۔۔۔
اس جنگ کے بعد بھاگنے والے خارجیوں نے مکہ میں ایک مشترکہ ملاقات کی اپنی
شکست پہ تبادلہ خیال کیا اور اب فائنل اپنے انتقام کا منصوبہ بنایا۔۔۔ ان
خارجیوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں مرکزی شخصیت رکھنے والے عظیم سپاہ
سالاروں کو شہید کر دیا جائے تاکہ اپنی شکست کا بدلہ چکا سکے۔۔۔
یہ تین جلیل القدر صحابیؓ
1 حضرت علی المرتضی
2 حضرت امیر معاویہؓ
3 حضرت عمرو بن العاصؓ تھے۔۔۔ حضرت علیؓ کو ابن ملجم، حضرت امیر معاویہؓ کو
حجاج بن عبداﷲ برک اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو عمرو بن بکر التمیمی نے
مارنے کی ذمہ داری لی اور ایک ہی دن ایک ہی وقت نماز فجر مارنے کا فیصلہ
کیا اور اپنے سفر پہ نکل پڑے۔۔۔
چنانچہ 26 جنوری 661ء مسجد کوفہ میں نماز فجر کے دوران حالت سجدہ میں ابن
ملجم نے اپنے زہر آلود خنجر سے حضرت علی المرتضیٰؓ پہ وار کیا، آپؓ اس وار
سے زخمی ہوئے مگر زہر کی وجہ سے تیسرے دن 21 رمضان المبارک 40ھ 28 جنوری
661ء کو آپؓ کی شھادت واقع ہوگئی۔۔۔
آپؓ کی شھادت کے تیسرے روز آپؓ کے صاحبزادے حضرت امام حسنؓ نے خود اپنے
ہاتھوں ابن ملجم کو جہنم واصل کیا۔۔۔
حجاج بن عبداﷲ برک حضرت امیر معاویہؓ پہ حملہ کرنے سے پہلے ہی گرفتار ہوگیا
اور اسے سزا موت دے دی گئی۔۔۔
حضرت علیؓ کی شھادت کے بعد خلافت حضرت امام حسنؓ کو ملی لوگوں نے انکے ہاتھ
پہ بیعت کرنا شروع کردی۔۔۔
خلیفہ بننے کے بعد کوفہ والے مسلسل حضرت امام حسنؓ کو حضرت امیر معاویہؓ سے
جنگ کیلئے اکساتے رہے۔۔۔
مگر آپؓ نے اپنی دور اندیش صلاحیت کی وجہ سے مفاہمت، باہمی صلح اور مسلم
صفحوں میں اتحاد کی روح پھونک دی۔۔۔ چناچہ آپؓ کا دور خلافت چھ ماہ تک رہا
پھر امام حسنؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پہ بیعت کر لی اور کئی سالوں
سے جاری جو دور عثمانیؓ سے شروع ہونی والی اندرونی خانہ جنگی تھی اس کا
خاتمہ ہوا۔۔۔
اس طرح آپؓ نے رسول اﷲ کی ایک حدیث کو عملی جامہ پہنایا جس میں رسول اﷲ نے
حضرت حسن کی طرف اشارہ کرتے فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شائد
اس کے ذریعہ اﷲ تعالٰی مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔۔۔ |