دنیا کی سب سے ’قیمتی‘ مرچ کی کہانی

image


کمبوڈیا کے جنوب مشرقی علاقے میں کھیتوں میں لگے بانسوں پر پھلتی پھولتی بیلیں مقامی لوگوں کی مرچیں اگانے کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں تاہم اس علاقے تک پہنچنے کی راہ بالکل بھی ہموار نہیں ہے۔

مجھے اس بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب میں ایک گرد آلود راستے سے گزرتا ہوا اس جگہ پہنچا۔ جب اپنے چہرے پر گرد صاف کرنے کے لیے میں رکا تو میں نے جو منظر دیکھا تھا اس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا-

کمبوڈیا کے معروف مندر ’انگ کور واٹ‘ سے بھی زیادہ پرانے ایک کھنڈر کے سامنے سیلاب کے پانی میں ڈوبے چاولوں کے کھیتوں میں بھینسیں اپنا راستہ بناتے ہوئے ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ کمپوٹ شہر سے باہر انتہائی ذرخیز زمین ہے جہاں دنیا کی سب سے بہترین نامیاتی مرچوں کی لہلاتی فصلیں ہیں۔

کم از کم آٹھ صدیاں پہلے یہاں پر مقامی کاشت کاروں نے ان کالی مرچوں کی کاشت کا آغاز کیا تھا جن کا تعلق جنوبی انڈیا کے علاقے کیرالا سے تھا اور پھر ان کی کاشت پورے جنوبی مشرقی ایشیا میں پھیل گئی۔

لیکن ’کمپوٹ کی کالی مرچیں‘ جو کہ اب اسی نام سے جانی جاتی ہیں، اس وقت مشہور ہوئیں، جب فرانسیسیوں نے اس علاقے میں اس کا مزا چکا تھا۔

انیسویں صدی میں فرانسیسیوں نے یہاں مرچوں کے بڑے بڑے کھیت بنائے جس میں ان کی فصلوں کو دس دس فٹ اونچے بانسوں پر اگایا اور انھیں بہت بڑی بڑی مقدار میں فرانس میں برآمد کرنا شروع کیا کہ یہ بقول معروف ٹی وی ٹاک شو ’نو ریزرویشن‘ کے اینکر اینٹونی بوردِن کے، فرانس کے ہر گھر کے کھانے کی زینت بن گئیں۔
 

image


لیکن سنہ 1970 کی دہائی میں خمر روژ کے سفاک دورِ حکومت نے ان مرچوں کی کاشت کو غلامی کے دور کی باقیات قرار دیا اور مقامی کسانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کی جگہ چاولوں کی کاشت کریں۔ تاہم نوے کی دہائی میں، خمر روژ کے دور کے ختم ہونے کی کئی برس بعد، مقامی کسانوں نے کالی مرچوں کی فصل کو دوبارہ سے بونا شروع کیا۔ یہ کاشت ان کی روایات کا حصہ تھی،اور اس طرح اس کی بحالی سے انھوں نے اپنی روایات کو بحال کیا۔

اُس وقت کسان معاشی تنگیوں کا شکار تھے، اس لیے انھوں نے اُسی فصل کا رخ کیا جس کے اگانے کے وہ ماہر رہے تھے: یعنی وہی کاشت کا طریقہ جس سے ان کی پچھلی کئی نسلیں واقف تھیں۔ انھوں نے یہ سب کچھ ایک چھوٹے سے رقبے پر شروع کیا۔

جب سنہ 2014 میں سرخ مرچوں کی قیمت 25 ڈالر فی کلو ہو گئی تھی تو اس وقت کالی مرچوں کی قیمت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی لیکن پھر قدرے کم ہو گئی، خاص کر حالیہ دنوں میں ویتنام کی کم درجے کی قسم کی مرچوں کے عالمی منڈی میں آ جانے کے بعد، تو یہاں کے کسانوں نے کمپوٹ کی مرچوں کی مشہوری اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے اُنھیں عالمی منڈی میں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔

خاص کر یورپی منڈی میں جہاں کمپوٹ کی کالی مرچوں کی پہلے سے ہی کافی زیادہ تشہیر یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ اس پر بہترین قسم کی سورج کی روشنی پڑتی ہے اور یہ ذرخیز زمین پر اگائی جاتی ہے اس وجہ کی کچھ زیادہ قیمت لگائی جاتی ہے۔

سنہ 2010 میں ان مرچوں کی منڈی میں واپس آنے کی وجہ سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے اس کو پروٹیکٹڈ جیوگرافیکل انڈیکشن میں درج کرنے کا اعزاز دیا۔

لیکن یہ کالی مرچ اتنی مزیدار کیسے ہوتی ہے؟
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں کھانوں کا کوئی شوقین نہیں ہوں لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نمک پر کالی مرچ کو ترجیح دیتا ہوں لیکن مزیدار کھانوں کے بارے میں میرا اس سے زیادہ علم نہیں ہے۔

میں تو مشہور و معروف کمپوٹ کی کالی مرچوں کے علاقے میں اس وجہ سے پہنچا کیونکہ میں تو ویتنام میں اپنے گھر سے کسی اچھے تفریحی مقام کو ڈھونڈنے نکلا تھا۔
 

image


کمپوٹ پچاس ہزار آبادی کا شہر ہے جو کہ تھائی لینڈ سے چند میل دور واقع ہے۔ ایسا شہر جس میں چہل پہل تو ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ آپ کو یہاں سڑک کراس کرنے میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی بات سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ویتنام کے وہ ہزاروں افراد اس شہر سے کیوں تعلق رکھتے ہیں جو دور دراز علاقوں میں روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں۔

فرانسیسی نوآبادیاتی دور کی عمارتیں چینی طرزِ تعمیر کی دکانیں دریائی سرسبز میدانوں کے سامنے واقع ہیں جن کے پس منظر میں بوکور نیشنل پارک کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ یہاں کشتیوں میں لوگ روزانہ سیر کرنے آتے ہیں اور دن کے اوقات میں یہاں بندروں کو گھومتے پھرتے دیکھتے ہیں، چونے کے پتھر کے پہاڑوں پر کوہ پیمائی کرتے ہیں اور دریا میں تیراکی کرتے ہیں یا قریبی ساحلی شہر کیپ کی ریت میں کھیلتے ہیں یا یہاں کے کیکڑوں کا کھانا بنانے والے ہوٹلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پِنہ سے یہاں بذریعہ بس پہنچنے کے بعد میں وہاں ایک مقامی سیر کرنے والے سٹیشن پر اتر گیا جس کا نام سٹریٹ کافی تھا اور اسے سو سوکھا چلاتا تھا جو لگ بھگ ساٹھ کے پیٹے میں تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد نوم پِنہ سے یہاں منتقل ہو گیا تھا۔ یہ یہاں لوگوں کو کافی پلانے کے علاوہ ان سے گپ شپ بھی لگاتا تھا۔

مقامی ماحول کو جاننے کے لیے میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اچھی مرچ اور عام قسم کی کالی مرچ کا فرق بتا سکتے ہیں؟ یہ کہتے ہوئے کہ اس فرق کو بتانا کتنا آسان ہے اس نے کمپوٹ کی کالی مرچوں کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیے۔

اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ’جب آپ کمپوٹ کی کالی مرچیں چکھتے ہیں تو یہ پہلے تو بہت تیز لگیں گی پھر آہستہ آہستہ زبان پر ایک پھول کی طرح ہلکی ہونا شروع ہو جائیں گی۔ یہ تبھی ہو گا جب آپ کے پاس اصل مرچیں ہوں گی۔‘
 

image


ان مرچوں کی کٹائی فروری سے لے کر مئی تک ہوتی ہے۔ کمپوٹ کی مرچوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کالی مرچیں تو گوشت کے لیے استعمال ہوتی ہیں، سرخ مرچیں دیگر کھانوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ سفید مرچیں مچھلی، سلاد اور چٹنیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ سبز مرچوں کا ذائقہ کالی مرچوں سے قدرے نازک ہوتا ہے جنھیں سمندری خوراک اور مرغی کے گوشت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں اس شہر کے مضافات میں کئی غیر ملکیوں نے ان فارموں کے دورے کرانے اور ان مرچوں میں تیار کیے ہوئے کھانے کھلانے کا کاروبار شروع کردیا ہے (مقامی لوگ سیاحوں کے لیے ٹوؤرز کا انتظام نہیں کرتے ہیں)۔

’بو ٹری‘ کے نام کے ایک فارم میں جہاں ایک دکان بھی ہے، جسے ایک سکاٹش-خمر خاندان چلاتا ہے، ایک حسین اتفاق کے طور پر شروع ہوا تھا۔ یہ جوڑا اس مضافاتی علاقے میں اپنے لیے ایک رہائش تلاش کر رہا تھا تو یہاں کی مرچوں سے اس حد تک متاثر ہو گئے کہ انھوں نے یہیں مرچوں کی تین ہیکٹر رقبے پر کاشتکاری شروع کر دی جس میں انھوں نے درجنوں مقامی ملازمین رکھ لیے۔

بوٹری کے شریک مالک کرسٹوفر گاؤ کہتے ہیں کہ ’جو بھی کمپوٹ کی مرچوں کو چکھتا ہے وہاں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔‘ ہماری گپ شپ کے دوران ان کا بیٹا ہمارے ارد گرد مزے سے دوڑتا پھر رہا تھا۔

میں نے نچلے درجے کی مرچ کی خوشبو کو سونگھا اور پھر اُسے ہلکا سا زبان سے چکھا۔ اس سے زبان پر کچھ ارتعاش پیدا ہوا لیکن اس کا مزا چالیس سیکنڈ بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے کمپوٹ کی مرچوں کو چکھا۔ فوراً ہی نئی قسم کی لذت محسوس ہوئی جس سے میری زبان نے مزے سے منہ کے اندر رقص کرنا شروع کردیا، اب تو احساس ہی کچھ اور تھا اور میں اس کا مزا چند منٹوں تک لیتا رہا۔

گاؤ نے کہا کہ ’یہ صرف مرچ کا مزا نہیں تھا، یہ زبان کے مزے کو بیدار کر دیتی ہے اور کھانے کا مزا دوبالا کردیتی ہے۔‘

یہاں مرچیں مختلف طریقوں سے استعمال کی جاتی ہے: اشتہا خیزی سے لے کر مٹھاس تک، اور بہت ہی سادہ انداز سے لے کر بہت ہی نزاکتوں کے ساتھ۔

’کمپوٹ پائی‘ نامی ریستوران اور ’آئس کریم پیلیس‘ 75 سینٹس کی سرخ مرچوں والا آئس کریم کا ایک کپ بیچتے ہیں۔

دریا کے اوپر کی جانب کنارے پر ایک کمپلیکس ہے جس میں کئی ایک بنگلے اور ریستوران بھی ہیں جس کا نام گرین ہاؤس ہے، وہ تازہ تازہ بنے ہوئے بسکٹ بھی بیچتے ہیں، اس کے علاوہ وہ مرچوں کے بنے کئی انواع کے کھانے بھی پیش کرتے ہیں۔
 

image


اور یہاں کی مرچوں کا استعمال صرف کھانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ عورتوں کے لیے مخصوص حمام، بینٹی سرے پراجیکٹ، جو کہ ایک سابق خمر مندر ہے اور ہندو دیوتا شیوا کے نام سے منسوب ہے، وہ مرچوں سے جلد کو خوبصورت بنانے کا طریقہ بھی پیش کرتا ہے۔

مینیجر چینی اوؤکی نے کہا کہ یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں ہے کیونکہ یہاں کے مقامی لوگ مرچ کو جلد کو خوبصورت اور صاف کرنے کے طور پر بہت پہلے سے استعمال کرتے آ رہے ہیں خاص کر بچے کی پیدائش کے بعد زچّہ کے جسم کو طاقتور بنانے کے لیے۔

اوؤکی کہتے ہیں ’یہ ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے آپ نے جسم پر ٹائیگر بام رکھ دیا ہو۔ یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ شاید اس سے پسینہ بھی آئے لیکن اس کے بعد کافی تازگی محسوس کرتے ہیں۔‘

بہرحال اس خطے کے سب سے زیادہ پسندیدہ کھانوں میں سے ایک کمپوٹ مرچ کے ساتھ کیکڑا ہے۔ کیپ کی مچھلی منڈی میں گاہک اپنی مرضی کے تازہ تازہ پکڑے گئے نرم نرم کیکڑے کا انتخاب کرسکتے ہیں اور اسے باورچی کے پاس لے جاتے ہیں جو اسے وہیں کاٹے گا، پھر اُسے لہسن، پیاز اور مقامی کالی مرچوں کے ساتھ تلے گا۔ اور پھر انھیں ایک پلیٹ میں کھانے کے لیے پیش کرے گا۔ اس کھانے کی وہ 5 ڈالر قیمت لے گا۔

دنیا کی مشہور ترین یہ مرچ کیسے اگتی ہے؟
مرچوں کی یہ بیلیں کھیت میں نہایت ہی منظم انداز میں کھڑے کیے گئے بانسوں پر چڑھتی ہوئی اگتی ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں سب سے پہلے سبز رنگ کی مرچیں ظاہر ہوتی ہیں، پھر یہ نئے سال تک پکتی ہیں۔ کسان ان مرچوں کو اپنے ہاتھوں سے چنتے ہیں پھر انھیں گرم دھوپ کی تپش میں سکھاتے ہیں جن سے یہ سیاہ ہو جاتی ہیں۔

سفید مرچیں اصل میں سیاہ مرچیں ہوتی ہیں لیکن پانی میں رکھنے کی وجہ سے ان کی سیاہ جلد اتر جاتی ہے۔ دو ماہ کے بعد سرخ مرچوں کے اگنے کا وقت آجاتا ہے۔ یہ وہ مرچیں ہوتی ہیں جنھیں بیلوں پر بہت زیادہ پکنے کے لیے آخر تک چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ گہرے سرخ رنگ کی ہوجاتی ہیں۔

میں گرد سے اٹے ہوئے سفر میں مرچوں کے فارموں تک پہنچ گیا جن میں ایک دنیا کا سب سے بڑا اور بہت زیادہ مشہور فارم ’لا پلانٹیشن‘ بھی تھا، جسے فرانسیسی اور بیلجیئم کے لوگ مشترکہ طور پر چلاتے ہیں اور جس میں ڈیڑھ سو کے قریب ملازم بھی ہیں۔
 

image


چونے کے پتھر کی بنی سیڑھیاں لیمن گراس کے قریب سے گزرتی ہیں جہاں ان کی بھینی بھینی خوشبو اور پہاڑی پس منظر میں پرانی پرانی عمارتیں جن کی از سرِ نو تزئین کی گئی ہے، ’سیکریٹ لیک‘ کی جانب رخ کیے ہوئے بہت ہی حسین منظر پیش کرتی ہیں۔

ان کھیتوں کے قریب بنے ریستوران فرانسیسی کھانے پیش کرتے ہیں اور خمر کے روایتی طرز کے گائے کے گوشت کا خاص پکوان انھی کھیتوں کی سرخ، سبز اور کالی مرچوں سے مزین کرکے گاہکوں کو پیش کرتے ہیں۔ یہاں مفت کا ایک ٹوؤر اور کھانوں کو چکھانے کا ایک موقعہ اسی برس پرانے لکڑی کے ایک تختے پر دیا جاتا ہے۔ یہ لکڑی کا تختہ کبھی ایک خانقا کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ (پانی میں چلتی بھینس گاڑی پر سیر ایک اضافی مزا ہے)۔

اس ریستوران کی مالک نیتھلی چبوچے اور ان کے شوہر گائے سنہ 2013 میں اس جگہ سیر کرنے آئے تھے۔ انھوں نے مرچوں کا کاشت کار بننے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

’ہم کمپوٹ مرچیں یورپ میں استعمال کرتے تھے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کیسے اگتی ہیں۔ جب ہم پہلی مرتبہ مرچوں کے کھیت دیکھنے آئے تو ہم نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ ہم یہاں زمین کا ایک ٹکڑا ڈھونڈیں گے جہاں اپنا کھیت تیار کرسکیں۔‘

گزشتہ برس ان کے کھیت سے دس ٹن مرچوں کی پیداوار ہوئی اور اس مرتبہ 23 ٹن، جو کہ اس پورے علاقے کی ایک تہائی پیداوار بنتی ہے۔

مستقبل سے توقعات
یہ سب باتیں از سرِ نو ترقی پانے والی گھریلو صنعت کے بارے میں سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن ایک سوال کا جواب پھر بھی درکار ہے: خمر روژ سے بچ جانے کے بعد کیا چھوٹی سطح کے یہ کھیت بڑی بڑی کارپوریٹ فارمنگ سے بچ پائیں گے؟

مرچوں کی کاشت کی بحالی کا اب تک کمبوڈیا کی معیشت پر زیادہ اثر نہیں پڑا ہے کیونکہ اگر کمپوٹ کی مرچوں کا موازنہ دنیا بھر میں مرچوں کی بہت زیادہ پیداوار سے کیا جائے تو ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے۔ مثال کے طور پر کمپوٹ چند دہائیاں پہلے چار ٹن مرچیں پیدا کرتا تھا لیکن اب 70 سے 100 ٹن مرچیں پیدا کرتا ہے (اور یہ پیداوار کافی زیادہ ہے) جبکہ ویتنام اس سے کم درجے کی اور غیر نامیاتی مرچیں ہر برس ڈیڑھ لاکھ ٹن پیدا کرتا ہے۔
 

image


ایک دو ہیکٹر زمین والے مقامی کسانوں کی مدد کے لیے ان کی پیداوار کو عالمی منڈی تک پہنچانے کے لیے سنہ 2006 میں ’فارم لنک‘ نامی تنظیم بنائی گئی تاکہ ان کو بہتر سے بہتر منافع ملے اور ان کی مرچیں یورپ کی منڈیوں تک پہنچیں جو اس وقت بھی یہاں کی نصف پیداوار خرید رہا ہے۔

اس تنظیم کے جنرل مینیجر سیبیسٹین لیژر مجھے اپنے ساتھ ایک فارم پر لے گئے تاکہ میں اس کی کاشتکاری میں نسلوں سے چلی آنے والی مہارت کو بہتر طور پر سمجھ سکوں جو کھانوں کو مزیدار بنا دینے والی ان نامیاتی مرچوں کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

لیژر کہتے ہیں کہ یہاں کئی سارے زبردست فارم ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پی جی آئی فارم موجود ہے۔

چند ایک فارموں سے گزرتے ہوئے لیژر نے بانسوں پر چڑھتی ہوئی بیلوں کے پاس گاڑی کی رفتار کم کردی تاکہ دو برس پہلے ہونے والی مون سون کی بارشوں کا اثر دیکھ سکیں جو زمین پر نظر آرہا تھا۔

انھوں نے کہا ’یہ دو یا تین برسوں میں مسئلہ بن سکتا ہے۔‘

ہم ایک چھوٹے سے رقبے میں رکے جہاں تُوڑی سے بنا ہوا ایک مکان تھا اور چند ایک پلاسٹک کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ یہاں ہماری ملاقات ساٹھ برس کے مسٹر چانگ ڈینگ سے ہوئی جن کے پاس ایک کالے رنگ کا کتا تھا جس کو وہ مسٹر بلیک کہہ کر پکارتے تھے۔

اپنے ہاتھ باندھے ہوئے چانگ ہمیں ایک دلدلی مٹی کے پاس سے ایک پل عبور کرا کر ایک فارم میں لے گئے۔ وہاں بانسوں پر لگی بیلیوں کی قطاروں میں تازہ تازہ کھلنے والی مرچوں کی کلیاں نظر آرہی تھیں۔

ان کے ہاں پانچ سو بانسوں کے ہر درخت کو سات سے لے کر آٹھ لیٹر پانی روزانہ دیا جاتا ہے۔ جو وہ ایک اور کسان کی مدد سے کرتے ہیں جو وہاں کے حوض سے پانی بالٹیوں میں بھر بھر کے لاتا ہے۔ اس فارم سے پچھلے برس 200 کلو مرچ پیدا ہوئی تھی جو کہ اس برس کی اچھی پیداوار تھی۔

ڈینگ کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ (فن) اپنے والد سے سیکھا تھا جب میں کمسن تھا۔ اب قریب ہی میرا بیٹا بھی یہی کاشت کرتا ہے۔ اور میرا پوتا بھی اسے سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔'‘

اور اس طرح یہ خاندانی روایت آگے بڑھ رہی ہے۔

’کڈوکے‘ نامی کمپنی کا ایک ایک ڈبہ بہت احتیاط کے ساتھ ایک ہی کسان تیار کرتا ہے۔ پھر اس پر کمپیوٹر نمبر پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ آپ کمپیوٹر پر جا کر یہ جان سکیں کہ ان نامیاتی مرچوں کی کس نے کاشت کی تھی اور آپ اس کی تصویر اور تفصیلات دیکھ سکتے ہیں۔ (میری مرچیں سرے سامون اور کڈوکے خاندان کے چار افراد نے کاشت کی تھیں۔)

میں اب جب بھی اپنے گھر پر کمپوٹ کی مرچوں کو پیستا ہوں تو میں سامون اور کمپوٹ کے سارے کسانوں اور کاشت کاروں کے بارے میں سوچتا ہوں جو اپنی روایات کو بحال کر رہے ہیں اور کس طرح دنیا کی بہترین مرچوں کو چٹ پٹا بنا رہے ہیں۔

تو کیا ہوا اگر اتنی قیمتی چیز کے لیے تھوڑی دھول کھانا پڑ گئی۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: