میرے ایک وکیل ساتھی اکثر گرمائی چھٹیاں گذارنے انڈیا
یابیرون ِ ملک کسی بہترین سیاحتی مقام پر جاتے ہیں،Beach،فائیواسٹار ہوٹل،
کلب یعنی وغیرہ اُن کی گرمائی تعطیلات میں تفریح کے پیکیج کا حصہ رہاہے
۔اِس کے لئے وہ مہینوں قبل ہی منصوبہ بندی شروع کرلیتے تھے اور مجھے اور
اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اِس ٹرپ کوبہتراوردلچسپ بنانے کے لئے مشورے بھی
کرتے ، میں اکثر اُنہیں کہتا ، آپ بہتر ہے کہ چھٹیاں دیہات میں گذارا کریں،
وہاں کچھ دن رہیں گے تو بھاگ دوڑ بھری زندگی سے سکون ملے گا، جن مقامات پر
آپ جانے کاپلان بنارہے ہیں، وہاں مجھے نہیں لگتا، آپ کو کچھ قلبی سکون میسر
ہوجوگاؤں کے ماحول میں مل پائے گا۔وہ ہنس کر کہتے ’’الطاف بھائی‘‘آپ کس
دُنیا کی باتیں کرتے ہو،گاؤں کی بھی کوئی زندگی ہے، اگر آپ Goaکی Beachپر
نہیں گئے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ موج مستی نہ کی تو کیا کیا۔ایسا کرنے سے آپ
کو نئی نئی چیزیں ایکس پلور کرنے، سیکھنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا موقع
ملتا ہے، میں تو کہتا ہوں آپ بھی کبھی پلان بنا کر تو دیکھیں،بہت مزہ آئے
گا۔میرا تو اکثر یہی جواب ہوتا، مجھے تو حالات اجازت نہیں دیتے،میں تو چند
دن دیہات میں ہی گذارنا چاہوں گاتاکہ وہاں پر بچپن کے گذارے لمحات کو یاد
کر کے دُنیا کی اُلجھنوں سے راحت ملے اور ایسا کرنے سے ذاتی طور کافی
اطمینان بھی ہوتاہے اور تازہ دم بھی ہوجاتاہوں۔
آج کل چونکہ عالمی وباء کورونا مخالف لاک ڈاؤن جاری ہے۔ احتیاطی اقدام کے
طور حکومتی ہدایات پر گھروں میں محصور ہیں اور ایکدوسرے کی خیر وعافیت فون
پر ہی معلوم کرتے ہیں یاسوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ میں ہیں۔ حالیہ دِنوں
متذکرہ وکیل ساتھی نے خیریت معلوم کرنے فون کیا تو علیک سلیک کے بعد کہنے
لگے۔’’الطاف بھائی جموں بیٹھ کر کیا کر رہے ہو، گھر آجاؤ، گاؤں کے ماحول سے
لطف اندوز ہوں، میں نے تو بھینس خرید لی ہے، دو بھیڑیں بھی لیں، ایک شخص
رکھا ہے جو اِن کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ بہت سکون محسوس کر رہا ہوں، تازہ
ہوا، پرسکون ماحول، تازہ پھل سبزیاں، خالص دیہی دودھ، مکھن، گھئی اور لسی
ملتی ہے۔ افطاری کا اہتمام شاندار طریقہ سے ہوتا ہے۔ نریگا کے تحت ایک کام
لیا ہے،ہماری کافی زمین ہے، جوکہ ہم ٹھیکے پر دیتے تھے، اس مرتبہ سوچا خود
ہی گندم کٹواؤں اور ربیع فصل کی بیجائی بھی خود کراؤں گا، کچھ گاؤں کے
لڑکیوں کو بولا ہے، اُن کے ساتھ مل کر، بڑا مزہ آرہا ہے۔محترم سانس لئے
بغیر ہی ’دیہی زندگی ‘کی خصوصیات بیان کرتے جارہے تھے اور میں خاموشی سے سن
کرجی جی کرتا رہا۔ اُن کی باتوں سے ایسا لگا جیسے وہ مجھے شہر میں رہنے کا
طعنہ دے رہے ہوں اور خود اُنہیں گاؤں میں موجود ہونے پر رشک آتا ہو۔ایک اور
ساتھی کی سوشل میڈیا پر تصویر دیکھی، بالکل روایتی کسان کی طرح ، کسی کھیت
میں کھڑے تھے اور چہرے پر خوشی اِس قدر چھلک رہی تھی کہ وہ دیوارِ برلن کی
سیر پر ہوں ۔سوشل میڈیا پر بھی ایک نیا رحجان دیکھنے کو ملا ہے جہاں پہلے
مشہور سیاحتی وتفریح مقامات، عمارتوں کی سلفیاں اپ لوڈ ہوتی تھیں، آج کل
جودیہات میں ہیں وہ وہاں کے دلکش مناظر کی تصاویر اپ لوڈ کر رہے ہیں اور
ساتھ ہی گاؤں کی زندگی کی خصوصیات بھی بیان کر رہے ہیں۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں بلکہ اکثرشہروقصبہ جات میں رہنے والے لوگوں کو
دیہی زندگی کا احساس ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ اِنہیں شدت کے ساتھ احساس ہو اکہ
انہیں گاؤں میں موجود گھرجانا چاہئے لیکن کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے عائد
بندشوں کے سبب وہ چاہ کر بھی نہیں جاپارہے کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے اجازت
نہیں مل رہی ۔
گاؤں میں فطری طور ہی سماجی دوری ہے، وہاں گھر دور دور ہیں، موجودہ حالات
میں بھی وہاں لوگ اپنے گاؤں میں آزادانہ ماحول میں نقل وحمل کرسکتے ہیں مگر
قصبہ جات وشہروں میں آپ کو گیٹ سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں، زیادہ سے
زیادہ آپ کومکان کے پاس موجود گلی کوچہ میں موجود دکان سے سامان لانے کی
اجازت ہے۔پارکیں، باغات وغیرہ سب بند ہیں، گھر کے اندر لوگ رہ کر اُکتا گئے
ہیں،چار دیواری سے اندر رہ کر گھٹن، گھبراہٹ ، اُداسی اور بے چینی سی ہے
۔چین وسکون کی حصولی کے لئے طرح طرح کے طریقے اختیار کئے جارہے ہیں لیکن
انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک جگہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا، انسان کو اگر دُنیا
کی ہرآسائش وآرام ایک کمرے میں میسر ہو، پھر بھی وہ اُداس ہی رہے گا، کچھ
نہ کچھ کرتے رہنا، باہرگھومنا ، پھرنا، دوست واحباب سے ملاقات پر ہی اُس کو
سکون ملتا ہے۔ آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ شہر وقصبہ جات میں رہنے والے
لوگ سرمائی یا گرمائی ایام میں کچھ دن گذارنے کسی سیاحتی مقام پر جاتے ہیں
تاکہ تازہ دم ہوسکیں کیونکہ اُنہیں ہر سہولت میسر ہونے کے باوجود بھی قلبی
سکون کے لئے قدرت کے قریب جانا پڑتا ہے۔ ا سوقت صورتحال بھی کچھ اس طرح کی
ہے، ایسے افراد جنہوں نے اپنی زندگی کا بہترین سرمایہ لگاکر شہروں وقصبہ
جات میں اعلیٰ شان عمارتیں تعمیرکیں ہیں، آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا
ایسا کرنا اُن کا فیصلہ اچھا تھا یا نہیں، بہتر ہوتا کہ گاؤں دیہات میں یہ
جمع پونجی آشیانہ بنانے پر خرچ کی ہوتی جہاں وہ پرسکون زندگی کے لمحات
گذارتے۔ اس کے برعکس گاؤں دیہات میں سیروتفریح کا رحجان بہت کم ہے لیکن اِس
کے باوجود لوگ اُکتا تے نہیں، تازہ دم ہوتے ہیں۔وہیں دوسری اور دیہات کا
ماحول بہت پر سکون ہوتا ہے، یہ خداداد چیزٍ ہے کہ شہر کے لوگ شہر کی ہنگامہ
پرور زندگی سے اکتا کر قلب کی تلاش میں بالعموم دیہات کا رخ کرتے ہیں۔
شورش سے بھاگتا ہو دل ڈھوتاہے میرا………… علامہ اقبالؔ
مقولہ عام ہے کہ ’’دیہات کو خدا نے بنایا ہے اور شہر کو انسان نے‘‘۔لہلہاتے
ہوئے کھیت ،ہرے بھرے سایہ دار درخت ،کھلی فضا اور تازہ ہوا گاؤں والوں کے
لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہیں ۔ماحول صاف ستھرا اور صحت مندانہ ہوتا ہے
،دیہاتی لوگ کھلی فضا اور سادہ مکانات میں رہتے ہیں محنت مشقت کرتے ہیں
تازہ ہوا،خالص غذاکھاتے ہیں یہی وجہ ہے کی وہ شہری لوگوں کی نسبت زیادہ
توانا اورصحت مند ہوتے ہیں کسی کا بلڈ پریشر کی بیماری نہیں نہ کوئی شوگرکا
مر یض ہے نہ دل کے والو بند ہونے کا۔ لوگ بہت سادہ اور مخلص ہوتے ہیں ان کی
زندگی میں تکلف ، بناوٹ، ریاکاری،مکروفریب،اور دکھاوا نہیں ہوتا وہ خلوص
اور صاف دلی کا پیکر ہوتے ہیں وہ بالکل صاف نیت اور سیدھے سادے ہوتے ہیں
اور ان کی زندگی میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہوتا۔اصلی ہندوستان گاؤں دیہات میں
ہی بستا ہے جہاں آپ کو ہرچیز خالص ملے گی چاہئے اشیاء خوردونوش ہوں یا پھر
لوگ ، مگر اﷲ کا بنایا ہواگاؤں تو وہی ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہاں بھی
کچھ برائیوں نے جنم لے لیا ہے۔ زمین کی لالچ، ہوس،بات بات پر جھگڑا،
ایکدوسرے کی عزت اُچھالنا عام بات ہوگئی ہے۔ اِس وقت پوری دنیا جہاں مہلک
عالمی وباء سے پریشان ہے تو گاؤں دیہات میں لوگ اپنی ہی دُنیا میں مگن
ہیں۔انتظامیہ کورونا مخالف لڑائی میں مصروف ہے تو گاؤں دیہات سے معمولی بات
پر لڑائی جھگڑے، زمینی تنازعات کی شکایات لیکر پولیس تھانے پہنچتے ہیں۔گاؤں
کو چھوڑ کر شہر وقصبہ جات میں بہتر زندگی گذارنے کا خواب لئے یاپھر روزگار
کے سلسلہ میں آئے افراد کو تو کورونا لاک ڈاؤن نے انہیں گاؤں کی اہمیت کا
احساس کرادیالیکن گاؤں میں ہی مستقل آباد افراد کو شائیداِِس کا احساس ہونا
باقی ہے۔دنیا پر جنت نما ماحول میں رہنے والوں کو اِس کی قدر نہیں اور اِس
کو چھوڑ کر ترقی اور سکون بھری زندگی پانے کی جستجو کرنے والوں کو اِس کی
یاد رہ رہ کر ستا رہی ہے۔ گاؤں ہمارے اباواجداد کی وراثت ہیں ،گاؤں کی وجہ
سے رشتے قائم ہیں گاوں میں پیار ہے ،اُلفت ہے محبت ہے گاؤں دو جدا دل کو
ملاتا ہے ،بلکہ ہرشہ نرالی ہے ۔اگر آپ کو گاؤں میں گذارے بچپن کی یاد
موجودہ حالات میں آرہی ہے، یاتنہائی میں جب دل گھبرائے تو گاؤں کی
قوعرعنائیوں اور یہاں کی دلفریبی کو یاد کرکے دل کو بہلالیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ |