میں نے گہرائی سے ایسا کبھی سوچا نہ تھا اورنہ کبھی کسی
سے اس بابت سنا تھا۔ معاشرے کے دھندلے چہروں نے بھی مجھے ہمیشہ اس بارے میں
گمراہ کیا۔ بلکہ دوچار باتوں کے اضافے کیساتھ بتایا کہ نفرت اور بغض کی آگ
بھڑک سکے۔مگر کچھ لوگ جو اس گہرائی کو پا چکے ہیں یہ دراصل ملک و قوم کے
اصل خادم ہیں، جنہوں نے مجھ جیسے کئی ساروں کو سوچنے پر مجبور کیا ہو گا کہ
نہیں وہ کوئی عام شئے نہیں وہ خاص الخاص ہے اور خدا کے بہت قریب ہے ۔موضوع
سخن بیوہ عورت ہے آج کا کالم ان ستاروں اور رضاکاروں کے لئے ہے جو یتیموں
کو شائننگ سٹار اور بیواؤں کو ’’باہمت ماں‘‘ کا درجہ دیتے ہیں اور اپنے
پروگرامات اور انتظامی معاملات میں انہیں شائننگ سٹار اورباہمت ماں کہہ کر
پکارتے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبدالشکور کا ویڈیو کلپ سن کر تو ایک
بار ایسا لگا جیسے قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو گئی ہو، جس میں وہ بتا رہے
ہیں کہ بیوہ نہیں بلکہ باہمت ماں کہیں!!
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی یہ سوچ سوچی ہوگی کہ اگر عورت بیوہ
ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟جب کہ ہم میں ہر ایک نے یہ تو سوچ رکھا ہے کہ بیوہ
ہونا اچھی بات نہیں ہے۔ کتنے ہی ایسے ہیں جو بہنوں کے ساتھ حسن سلو ک سے
پیش آتے ہیں ؟جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو بہنوں کو بلاوجہ کی قدغنیں لگانے کے
نہ صرف قائل ہوں گے بلکہ اکثر اوقات انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم
رکھتے ہوں گے۔ کتنی تعداد ان لوگوں کی ہے جو بہن بیٹی کی شادی کے بعد اسے
سکھی رہنے کے گُر بتاتے ہیں اور اس کی اعتماد سازی ومرمع سازی پر بات کرتے
ہیں جبکہ سبھی یہ ضرور کہتے ہیں کہ شادی کے بعد ناراض ہو کے یہاں مت آنا ۔
کتنے ایسے ہیں جولڑکی کو شوہر ، ساس سسر سے بہترین تعلقات اور پسند و
ناپسند کا خیال رکھنے کا کہتے ہیں ؟جبکہ یہ رٹا اکثر لگاتے ہوں گے کہ جھگڑا
کر کے یہاں آنے کی ضرورت نہیں ، وگرنہ اپنا ٹھکانا کہیں اور تلاش کر لینا۔
کتنے ہی ایسے باپ ہیں جو بیٹی کیساتھ پیار سے پیش آتے ہیں اسے قدم قدم پر
سمجھاتے ہیں ، جبکہ ان میں سے بیشتر بیٹیو ں سے کام کاج کے علاوہ کی باتوں
کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ہمارا معاشرہ عورت اور بالخصوص بیوہ کو
جائز مقام دینے میں کافی تنگ نظر اور کم ظرف واقع ہوا ہے۔
زندگی کے تھپیڑوں میں کہیں گم یہ ہستی یعنی بیوہ خدا کا پیغام ہے۔ بیوہ اس
کائنات کی ٹوٹی پھوٹی ، کمزور ترین اور مظلوم ترین ذات ہے جس کے حقوق کا
خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ بیوہ عورت کی شادی میں بلاوجہ تاخیر کرنا
یا اسے معیوب سمجھا سنت رسول ﷺ کی توہین ہے اور سنت کی توہین نا قابل قبول
ہوتی ہے۔بے چاری بیوہ کے جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی
پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بے کیفی کی بھینٹ چڑھا نا
خداسے دشمنی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے دعویدار رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار تو کرتے ہیں مگر رسولﷺ کی اس سنت
پر عمل کرنے کو شاید غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔ کتنے تعجب کی بات ہے ہم کبھی
تو مجبوریوں کی آڑ لے کر ، کبھی تہذیب اور فیشن کا دل دادہ ہو کر اور کبھی
طعن و تشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہیں جبکہ
مشکوۃشریف کی حدیث ہے کہ ’’حضرت علی کرم اﷲ وجہہ راوی ہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا: علی! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو
نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے اور
تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل
جائے‘‘۔
آئیے !اﷲ تعالی سے عہدو پیمان بجالاتے ہیں کہ عورت کی تذلیل کسی صورت
برداشت نہیں کریں اس کے جائز حقوق کی پاسداری کریں گے اور عورت بالخصوص
بیوہ کو توقیر دیں گے اور اسے الخدمت فاؤنڈیشن کی دی گئی پنچ لائن کے مطابق
بیوہ کو ’’ باہمت ماں ‘‘ کہہ کر پکاریں گے۔
بقول شاعرؔ؛
بیوہ ہے تو کیا اس نے گناہ کیا ہے
عورت ہے فقط کیا اس میں گناہ ہے؟
اس کا بھی وہی رب ہے تمہار ا بھی وہی رب
انساں ہے تو کیااس میں گناہ ہے؟
بیٹی ہے بہن ماں ، عزت ہے تمہاری
بس حکم خدا ہے تو کیا اس میں گناہ ہے؟
انسان کی تخلیق کا باعث ہے ابد تک
انساں کی ہے زینت، تو کیا اس میں گناہ ہے؟
اک روز قیامت جب رو کے کہے گی
بدلہ تو میں لوں گی تو کیا اس میں گناہ ہے؟
عورت کے عدوفرعون ہیں شداد ہیں نمرود
بس گریہ و زاری ہے تو کیا اس میں گناہ ہے؟
عورت کا ہر اک روپ ہے اﷲ کا احسان
احمد کا ہے اسوۃ عورت کی ہے پہچان
عالم ہیں وڈیرے کہیں اپنے وہ پرائے
ہر ظلم ہے سہتی تو کیا اس میں گناہ ہے؟
بھائی بھی خفا اس سے والد بھی ہے ناخوش
یہ گھٹ کے ہے جیتی تو کیا اس میں گناہ ہے؟
بیوی ہے تو اک شان بیوہ ہے تو بس طعن
یہ سب کا نشانہ ہے تو کیا اس میں گناہ ہے؟
شہزاد حقیقت ہے بے باک یہ کہنا
اﷲ کی بندی ہے تو کیا اس میں گناہ ہے؟
|