آصف اقبال تنہا:یہ قدم قدم بلائیں، یہ سوادِ کوئے جاناں

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبا کے رہنما آصف اقبال کو تنہا کرنے کی خاطر عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا لیکن ان کےساتھ توتنہائی پہلے ہی سے منسلک ہے۔ نہ جانے کب اور کیوں آصف اقبال نے اپنے نام کے ساتھ تنہا کی عرفیت جوڑ دی لیکن جامعہ کا یہ طالب علم تنہاکبھی نہیں تھا؟ سی اے اے کے خلاف تحریک میں سرگرم عمل کسی رہنما کا تنہا ہوناممکن ہی نہیں ہے۔ ایک زمانے میں آصف اقبال صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جانا پہچانا جاتا تھا ۔ ایس آئی او میں شمولیت کے بعد ان کی مقبولیت کا حلقہ وسیع تر ہوا۔ سی اے اے کی تحریک نے انہیں ملک بھر کے مقبول رہنماوں میں شامل کردیا ۔دہلی کی ظالم انتظامیہ نے اس بے قصور اسٹوڈنٹس لیڈر کو کووڈ وباء کے دوران گرفتار کرکے سارے عالم کی حمایت و ہمدردی کا حقدار بنادیا ۔ رمضان کے اس ماہِ مبارک میں کون سا ایسا دردمند دل ہوگا جو آصف اقبال، صفورہ زرگر اور میران حیدر کے لیے افسردہ اور دعاگو نہ ہو لیکن ان نوجوانوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ پابندِسلاسل کرکے انہیں خوفزدہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ شعر کی مصداق بلند حوصلہ لوگ ہیں ؎
مری عاقبت کے دشمن مجھے چین آ چلا ہے
کوئی اور داغِ تازہ ، کوئی اور زخمِ کاری

دہلی پولس کرائم برانچ کی ٹیم کے مطابق شاہین باغ کے قریب ابوالفضل انکلیو کےساکن آصف اقبال کو جامعہ علاقے میں 15 دسمبر 2019کے دن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران ہونے والے تشدد کے الزام میں گرفتار کیاگیاہے۔ 24سالہ آصف اقبال جامعہ میں فارسی بی اے کا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کا فعال رکن بھی ہے۔ انہیں ساکیت کورٹ میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں سے 31 مئی تک کے لیے عدالتی حراست میںبھیج دیا گیا ہے۔یہ عجیب تماشہ ہے کہ جامعہ کے احتجاج کو کچلنے کے لیے پولیسنے جامعہ کیمپس میں گھس کرلائبریریکے اندر طالب علموں کی پٹائی کی ۔ اس کی ویڈیو موجود ہے جامعہ انتظامیہاس معاملہ میں پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لئے عدالت سے رجوع کرچکا ہےلیکن سرکار پولس پر کارروائی کرنے کے بجائے الٹا طلبا کو ہراساں کررہی ہے۔ پولس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی تفتیش اگر اسی کو سونپ دی جائے اس کا نتیجہ اور کیا نکلے گا؟ وہ خود اپنی عیب چینی تو کرنہیں سکتی بقول منظر بھوپالی ؎
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہیے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون

آصف اقبال کو جس دن گرفتار کیا گیا اسی روز جامعہ ملیہ کی اس منفرد و ممتاز تحریک پر انتظامیہ کی زیادتی نے پانچ ماہ مکمل کرلیے تھے۔16 دسمبر2019 کودہلی پولس نے جامعہ کے اندر فساد برپا کرنے کے جھوٹے الزام میں دس افراد کو گرفتار کرکےمیٹروپولیٹن مجسٹریٹ کامران خان کی عدالت میں پیش کیا تھا اور ان سب کو عدالتی حراست میں روانہ کردیا گیا۔دہلی کی پولس نے ان مقامی افراد پر سیاستدانوں کے اشارے پر مظاہرے میں تشدد کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا بے بنیاد الزام لگا یا تھا جبکہ پولس کی زیادتی کے ویڈیوز سےسوشیل میڈیا چھلک رہا تھا۔ گرفتار شدگان میں سے ایک سمیر کے وکیل نے کورٹ میں بتایا کہ ان کے موکل کو گھر سے گرفتار گیا گیا اور سی سی ٹی وی کے کیمرے سے اس کی تصدیق ممکن ہے۔ پولس کے پاس ان غیر متعلق مسکین لوگوں کے خلاف اپنے افسر کے بیان کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں تھا۔ یہ دراصل آصف اقبال جیسے دلیر مظاہرین کو بلا واسطہ ڈرانے کی ایک مذموم سازش تھی کہ جو ان کے ساتھ ہوا وہ تمہارے ساتھ بھی ہوگا لیکن یہ سعی ناکام ہوگئیکیونکہ ان کا معاملہ اس شعر جیسا ہے؎
جو چاہو سزا دے لو ، تم اور بھی کُھل کھیلو !
پر ہم سے قسم لے لو ، کی ہو جو شکایت بھی

29جنوری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالبعلم محمد منہاج الدین نے دہلی پولس کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کرکے ایس آئی ٹی کے ذریعہ غیر جاندارانہ تفتیش کا مطالبہ کیونکہ پولس تشدد کے سبب اس کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اور بینائی کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ کیا دنیا میں کہیں خود فسادی ایس آئی ٹی کے ذریعہ جانچ پڑتال کی مانگ کرتے ہیں؟ اس کے بعد19فروری کوجامعہ انتظامیہ نے پولس کی زیادتی کو عیاں کرنے والی سی سی ٹی وی کے کیمرے کی ویڈیو جاری کرکے وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کو دہلی پولیس کےتشدد کی وجہ سے 2.66 کروڑ روپئےکے نقصان کا بل پیش کیا۔ پولس نے اپنی بربریت کو چھپانے کے لیے 25 سی سی ٹی وی کیمروں کو بھی نقصان پہنچایا تھا ۔پولیس نے ان ویڈیوز کی سچائی جانچنے کا وعدہ کیا گیا لیکن ۳ ماہ بعد بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور ہوتی بھی کیسے ؟ تشدد چونکہ ہوچکا ہے اس لیے مجرم کو بچانے کے لیے قصور طلبا کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایا جاسکے۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کسی عارضی غم و غصہ یا فریب و لالچ کے سبب بنا سوچے سمجھے اس راہ آنے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ انہیں ان راستوں کے نشیب و فراز کا پورا علم ہےاور اپنے خالق و مالک پر پورا اعتماد بھی ہے۔ ان کی قلبی کیفیت عامر عثمانی کے اس شعر جیسی ہے؎
یہ قدم قدم بلائیں ، یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

آصف اقبال کا نام فروری کے وسط میں قومی ذرائع ابلاغ کی زینت بنا۔ اس وقت پولس تشدد اور گودی میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جانے والی دشنام طرازی کے باوجود جامعہ اور شاہین باغ کی تحریک ملک کے چپے چپے میں پھیل چکی تھی اور فروری میں پورے ملک کو احتجاج نے لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ اس دوران 14 فروری کو تمل ناڈو کی راجدھانی چینائی میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف پولیس نے پرتشدد کارروائی کی جس میں کئی لوگ زخمی ہوگئے اور ایک دو کے موت کی خبر بھی آئی۔فروری 15, کواس بربریت کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اور جامعہ کوارڈینیشن کمیٹی کے اراکیننے دہلی میں واقع تامل ناڈو ہاؤس کے روبرو زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس موقع پرجن مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لیا ان میں عائشہ رائنا کے ساتھ آصف اقبال تنہا اور میران حیدر کا نام بھی شامل تھا ۔ جامعہ سے جانے والی بس کی کھڑکی سے باہر یہ لوگ کھڑے ہوکر ہاتھ ہلارہے تھے۔ وہاں پر ان کے علاوہ 100؍سے زائد مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن اس زیادتی سے بھی ان جیالوں کے حوصلے پست نہیں ہوئےکیونکہ ان جانبازوں کی زبان پر اس طرح کے اشعار ہوتے ہیں؎
ترا ایک ہی کرم ہے ، ترے ہر ستم پہ بھاری
غمِ دو جہاں سے بخشی مجھے تو نے رستگاری

آصف اقبال کی گرفتاری پر جن لوگوں کو حیرت ہے انہیں دہلی کی حراست کے دون بعد لکھنو میں کی جانے والی ان کی اس تقریر کو یاد کرنا چاہیے جس نے ایوانِ اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا تھا ۔ 17 فروری کو یوگی انتظامیہ کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود لکھنؤ کے تاریخی گھنٹہ گھر پر جاری خواتین کے دھرنے نے ایک ماہ مکمل کرلیا ۔ اس موقع کئی شہروں کے ساتھ ساتھ متعدد یونیورسٹیوں کے جن طلبہ نے مظاہرین سے خطاب کیا تھا، ان میں جامعہ کا یہ شیر دل طالب علم بھی شامل تھا ۔ آصف اقبال تنہا نے کہا تھاکہ ہم گاندھی جی ، ڈاکٹر امبیڈکر ، مولانا ابولکلام آزاد اور حسرت موہانی کے خوابوں کو شرمندہ ٔتعبیر کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم تب تک ڈٹے رہیں گے جب تک سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کو واپس نہیں لے لیا جاتا ہے ۔ حکومت چونکہ کورونا لاک ڈاون کے بعد این پی آر شروع کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتی ہے اس لیے پیش بندی کے طور پر ان آوازوں کو دبانے کی سعی کررہی ہے جن سے آگے خطرہ لاحق ہے ۔ حکومت کےاپنے اندیشوں کے تحت اپنا کام کریں گے اور آصف اقبال جیسے نوجوان اپنی ذمہ داری ادا کریں گے بقول غالب ؎
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

احتجاج میں شریک مظاہرین کو بیدار رہنے کی تلقین کرنے کے بعد آصف اقبال نے لکھنو میں کہا تھا موجودہ وقت میں ہمیں سب سے زیادہ این پی آر کی فکر کرنی چاہئے ، کیونکہیکم اپریل سے اس پر کام شروع کرنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ این پی آرہی این آرسی کے پہلا قدم ہے اور مردم شماری کے ساتھ این پی آر کیا جائے گا۔ہمیں این پی آر فارم نہیں بھرنا ہے اور جن ریاستوں میں این پی آر کا کام شرو ع ہوگا وہاں کی اسمبلیوں کا گھیرائوکیا جائے گا۔کورونا کے لاک ڈاون کے بعد ضروری احتیاط کے سبب احتجاج مؤخر کردیا گیا لیکن سرکار جانتی ہے کہ اگر وہ اپنے ارادوں سے باز نہیں آئی تو اس کو میدانِ عمل میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس لیے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کہ جیلوں میں بھیڑ کم کی جائے مرکزی حکومت کے تحت چلنے والا دہلی انتظامیہ طلبارہنماوں کو گرفتار کررہا ہے ۔ اس میں میران حیدر اور صفورہ زرگر کے بعدتازہ شکار آصف اقبال تنہا ہے۔ اس طرح کی دھاندلی سے نہ کوئی پہلے ڈرا ہے اور نہ کوئی آگے کوئی خوفزدہ ہوگا بلکہ سرکار کی ان اوچھی حرکتوں سے تحریک اور بھی مضبوط ہوگی ۔ تاریخ شاہد ہے زندان و سلاسل کے خوف سے حق کا سیلاب نہ تھمتا ہے اور نہ رکتاہے بقول مجروح سلطانپوری ؎
روک سکتا ہمیں زندان ِ بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450962 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.